نوید پٹھان کو کس نے مارا؟
ہم اچھے بچے ہیں۔ باقی سارے برے ہیں۔ ہم امن پسند ہیں اور چند لوگوں کی وجہ سے ہم سب کو دہشت گرد کہنے والے متعصب ہیں۔ لیکن ہمارے اوپر ایک حملہ ہو تو اس قوم کے سارے فرد غنڈے اور موالی ہیں۔ یہ سب را اور موساد کا کیا دھرا ہے اور ہاں آئی ایس آئی زندہ باد۔ سازش سازش سازش۔ ہندو یہودی ہمارے دشمن ہیں۔ وہ دیکھو یہ جنونی مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حافظ سعید کیا نیک آدمی ہیں۔ راج ٹھاکرے قاتل ہے۔ ہمارا اسلحہ دفاع کے لیے ہیں۔ وہ دیکھو بھارت ہتھیاروں کی دوڑ میں پاگل ہو چلا ہے۔ جاسوس جاسوس ۔ ہمارے سرفروش مجاہد۔ ہمارا کتا ٹامی ہے تمہارا کتا کتا ہے۔ چونکہ قمیض کا آخری بٹن بھی لگا ہوا ہے اس لیے گریبان میں جھانکنا ممکن نہیں ہے۔
واٹس ایپ پر یونیورسٹی کے پرانے دوستوں کا ایک گروپ ہے۔ سب اعلی عہدوں پر فائز ہیں پر کوئی گروپ پر آئی پوسٹس دیکھ لے تو لگے کہ کالج کے لونڈے لپاڑے لگے ہوئے ہیں۔ ایک دو مستثنیات کو چھوڑ کر یا تو فحش لطائف اور تصاویر کا تبادلہ کیا جاتا ہے یا پھر حدیث اور قرآن کے میڈیا سپر سٹارز کی تقاریر بھیجی جاتی ہیں۔ انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کے لیے نت نئی گالیاں ایجاد ہوتی ہیں اور اپنے وقار کی سر بلندی کی دعا بھی اسی سانس میں کر لی جاتی ہے۔ ایک دفعہ اعتراض کی جرات حوالے کے ساتھ کی تو ایک دوست نے جو اب ایک معروف کاروباری ہیں، فرمایا کہ زیادہ کتابیں مت پڑھا کرو۔ اس سے بھی گمراہی جنم لیتی ہے۔ اس کے بعد سے خادم بولتا نہیں ہے، بس محظوظ ہوتا ہے۔
دو روز ہوئے اسی گروپ پر ایک مہربان نے ایک تصویر شئیر کی۔ تصویر میں ایک تنومند جوان کی خون آلود لاش سڑک پر بھی تھی۔ ساتھ عنوان تھا ” ہندو غنڈوں کے ہاتھوں ایک اور بے گناہ مسلمان نوید پٹھان کا قتل” ۔ کچھ دیر گزری کہ اس تصویر سے متعلقہ انتہائی ہولناک ویڈیو بھی وارد ہو گئی۔ اس کے بعد “ہندو” غنڈہ گردی پر مغلظات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے ایک واقعے کے ساتھ ایک پورے مذہب کو مطعون کرنا کچھ مناسب نہ لگا ۔ اس پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کی تو میری حب الوطنی پر بہت سے سوال اٹھ گئے۔ اسی شام تک یہ تصویر اور ویڈیو اسی عنوان کے ساتھ فیس بک پر وائرل ہو چکی تھی اور ہر شخص حسب توفیق ہندوتوا، ہندو اور ہندوستان پر تبرا کرنے میں پیش پیش تھا۔ مجھے مشال خان یاد آیا، سوچا کہ کیا تب بھی مسلم شدت پسندی، مسلمان اور پاکستان پر آواز اٹھی تھی یا نہیں۔ یادداشت میں ایسا کوئی نشان نہیں تھا۔
خیر تجسس سے مجبور ہو کر سوچا کہ ذرا تحقیق تو کی جائے کہ آخر واردات تھی کیا۔ انٹرنیٹ نے دنیا ہتھیلی میں سمیٹ دی ہے۔ دس منٹ میں کہانی پتہ لگ گئی۔ اب کہانی بھی سن لیجیے۔ تصویر اور ویڈیو میں جو شخص قتل ہوا اس کا نام نوید پٹھان تھا ہی نہیں۔ اس کا نام تھا رفیق الدین شیخ عرف گڈیا۔ گڈیا مہاراشٹر صوبے کے ایک شہر دھولے میں اپنا گینگ چلاتا تھا۔ شہر میں مخالف گینگ کے ساتھ برسوں کی دشمنی تھی۔ گڈیا پر قتل، اقدام قتل اور بلوے کے پینتیس مقدمات تھے اور وہ چند دن پہلے ہی ضمانت پر رہا ہوا تھا۔ موقعہ پا کر مخالف گینگ کے غنڈوں نے اس پر حملہ کیا اور بے رحمی سے اسے قتل کر ڈالا۔ یہ قتل شہر میں برسوں سے چلی آئی گینگ وار کی ایک کڑی تھی۔ بارہ لوگوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا اور کل ساگر عرف کلٹی نامی شخص کی گرفتاری بھی ہو گئی ہے۔ باقی ایف آئی آر میں مسلمان اور ہندو دونوں نامزد ہیں۔ غنڈوں کا ویسے کونسا مذہب ہوتا ہے۔ چلیے یہ قضیہ نمٹا تو پھر یہ نوید پٹھان کون ہے بھائی؟
تھوڑی محنت آپ بھی کر سکتے ہیں۔ خبر مل جائے گی۔ پر نوید پٹھان نامی شخص کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کا نام ہے نوید اقبال عرف پپو بلڈر۔ نوید اقبال بھی ایک باڈی بلڈر تھا اور مہاراشٹر ہی کے شہر امراوتی کے پٹھان چوک کا رہائشی تھا۔ پچھلے منگل کو رات ایک بجے ایسوریا پٹرول پمپ کے باہر لگے اے ٹی ایم پر وہ جیسے ہی اپنی سائکل پر پہنچا وہاں پانچ لوگ آ دھمکے ۔ کچھ دیر تکرار ہوئی پھر پانچوں نے اس پر حملہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں سے اسے شدید زخمی کر کے فرار ہو گئے۔ نوید اقبال کو ہسپتال لے جایا گیا پر کچھ دیر بعد اس کی موت ہو گئی۔ صبح تک پتہ لگ گیا تھا کہ جھگڑا شہر کے ایک جمنیزیم کا تھا۔
اس جمنیزیم کو چلانے والے صاحب کا معاہدہ یکم اگست کو ختم ہو رہا تھا اور اگلا معاہدہ نوید اقبال سے ہو گیا تھا جو خود بھی قومی سطح کا باڈی بلڈر تھا۔ پرانے منتظمین نے اس معاہدے کو منسوخ کرانے کی کوشش کی پر ناکامی ہوئی اور بات جھگڑے سے ہوتی ہوئی قتل پر جا ٹہری ۔ تین دن پہلے پانچ میں سے دو قاتل گرفتار ہو گئے ہیں جس میں سے ایک بنیادی ملزم ہے اور دوسرا اس کا سہولت کار۔ بنیادی ملزم مسٹر انڈیا مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیت چکا ہے۔ اور جگر تھام کر بیٹھیے کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ نام ہے اس کا رحیم خان اور اس کا سہولت کار، ارے وہ بھی مسلمان ہے۔ اس کا نام ہے محسن خان۔
اب یہ نوید پٹھان والی کہانی کس نے بنائی۔ کس نے اسے مذہبی رنگ دیا اور کس نے پہلی دفعہ اسے سوشل میڈیا پر ڈالا، یہ تو میں نہیں جانتا پر فیس بک، ٹویٹر اور یو ٹیوب پر تمام مجاہدین لگاتار اس کو تبرک کی طرح بانٹ رہے ہیں۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہفتہ پرانی یہ کہانی آج کے تمام اخبارات میں بھی موجود ہے۔ صحافت کے معیار کا جنازہ جلد ادا ہو جائے تو اچھا ہے۔ مردہ خراب ہو رہا ہے۔ اور تو اور فیس بک پر “ہم نوید پٹھان کے لیے انصاف چاہتے ہیں” کا صفحہ بھی معرض وجود میں آ گیا ہے۔ ہزاروں لوگ وہاں تشدد پسند “ہندووں” کو ہر رنگ اور ہر نسل کی مغلظات سے نواز رہے ہیں۔ کیا انہیں بتایا جائے کہ ان ہندووں کے نام رحیم خان اور محسن خان ہیں یا تماشہ دیکھا جائے۔ شیری رحمان جو خود صحافت سے وابستہ رہ چکی ہیں وہ بھی “نوید پٹھان” کے ہولناک قتل پر ٹویٹ کر بیٹھی ہیں تو آدمی اب کس سے شکوہ کرے۔ اور اب اس ٹویٹانہ مقابلے میں ہمارے مقتدر صحافی، دانشور اور سیاستدان بازی لیجانے میں مصروف ہیں۔ ہما شما کا ذکر ہی کیا۔
ایک پرانے دوست نے جب فیس بک پر اسی طرح کا کمنٹ کیا تو رہا نہ گیا۔ انہیں حقیقت بتائی۔ حضور پی ایچ ڈی ہیں۔ استاد ہیں۔ بچوں کو زیور تعلیم سے سجاتے ہیں۔ تحقیق کی دنیا کے آدمی ہیں پر جواب کیا ملا۔ سنیے۔
“تو پھر کیا ھے۔ گائے کے معاملہ میں سینکڑوں لوگوں کو ھندو غنڈوں نے قتل کر دیا ھے”
میں نے کہا ” نہیں سر۔ آپ شاید لاکھوں کہنا چاہتے ہیں”
تس پہ ارشاد ہوا
“ جناب آپ خود انڈ ین پریس میں سرچ کر لیں۔”
اس پر چڑ کر پہلے تو میں نے کہا
“ اوہو۔ وہاں تو کروڑوں نکل آئے ہیں۔ ہاں پاکستان میں ہم نے نہ کسی کو کبھی مارا ہے نہ بھٹی میں جلایا ہے نہ جبری مسلمان کیا ہے۔ ہم تو شریف لوگ ہیں۔ اصل غنڈے تو سرحد پار ہیں”
پھر سوچا کہ کہیں درست ہی نہ ہو۔ تھوڑی انٹرنیٹ پر مارا ماری کی تو تمام رپورٹس کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔ پھر عرض کیا
“ویسے ریسرچ یہ کہتی ہے کہ گاو کشی کے معاملے پر 2010 سے 2017 تک 25 مسلمان قتل ہوئے۔ یعنی فی سال کوئی 3 سے 4 لوگ ۔۔۔۔ باقی آپ کا جو دل کرے۔”
اب دیکھیے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ کہنے لگے
“ سر اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ھمارے ھاں سب ٹھیک ھے۔ غلط بہر حال غلط ھے۔ لیکن ہندوؤں کی غنڈہ گردی بہر حال بہت بڑھ گئ بے”
اب جب بات ہندو سے چل کر ہندو پر ہی آ رکی تو میں نے کان لپیٹنے میں عافیت جانی۔ پر حضور اگر غنڈہ “ہندو” ہے تو دہشت گرد ” مسلم” کیوں نہیں ہے۔ آپ کے پاس جواب ہو تو بتائیے گا کہ حج کا ثواب آپ کی نذر کروں۔ باقی نوید پٹھان کے لیے انصاف مانگنے سے فرصت مل جائے تو ہزارہ کے مرتضی، سرور، آصف اور رخسانہ کے لیے بھی کوئی بات کر لیجیے گا جنہیں اسی دن مستونگ میں گولیوں سے بھونا گیا۔ بس ایک مسئلہ ہے، انہیں ہندووں نے نہیں مارا، مسلمانوں نے مارا ہے۔ تو کیا خیال ہے، ان پر بات کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے چپ ہی رہیں۔ اور ہاں ہندوتوا مردہ باد۔ ہندو غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ یہ ہے دہشت گرد انڈیا کا اصل چہرہ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
- ست رنگی جھیل کے کنارے سے - 03/01/2024
- میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں - 14/08/2023
- کیا تم مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہو - 04/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).