یہ سالی جمہوریت کرتی کیا ہے؟


پڑھی لکھی پاکستانی مڈل کلاس کے دائرے میں رہنے والے شاید 90 فیصد، یا اس سے بھی زیادہ مڈل کلاس کو اک معاشی درجہ گردانتے ہیں۔ یہ معاشی نہیں، معاشرتی رویہ ہوتا ہے۔ اس پر بات پھر کبھی سہی، فی الحال تو کہنا یہ ہے کہ پڑھی لکھی پاکستانی مڈل کلاس کی ایک خوفناک اکثریت منافع سونگھتے ہوئے کارپوریٹ میڈیا پر آنے والی خبروں کو ”صادق“ اور ان کو پھیلانے والے لقمانوں کو ”امین“ خیال کرتے ہیں۔ یہی صادق اور امین پڑھی لکھی مڈل کلاس کو مختلف ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے بھگائے پھرتے ہیں، اور صاحبان دولے شاہ کے چوہوں کی طرح بھاگے پھرتے ہیں۔ آجکل کی موجود ٹرک کی بتی کا نام ہے: ”نواز شریف یا مسلم لیگ نون کی حکومت کے جانے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ “ اسی فقرہ کو اک مختلف زاویہ سے دیکھیں تو بات یہ بنتی ہے کہ منتخب شدہ موجودہ وزیر اعظم اور پارلیمان میں اکثریتی جماعت کو پرانے کھلاڑیوں کی نئی چال سے نکال باہر کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ سیاسی تسلسل جائے، تو جمہوریت کی بنیادوں میں پانی نہیں، تیزاب پڑتا ہے۔

سیاسی تسلسل پر مبنی جمہوریت کرتی کیا ہے، ذرا ملاحظہ تو کیجے، مہربانو:

دنیا کی پانچ پرانی جمہوریتوں میں سے چار نارڈک یورپئین ہیں، جبکہ اک آسٹریلیا کا حصہ ہے۔ ان میں ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ اور ڈنمارک شامل ہیں۔ ناروے میں 1814 سے مسلسل سیاسی تسلسل ہے۔ آئس لینڈ میں سیاسی تسلسل 930، جی آپ نے ٹھیک پڑھا، یہ سنہ 930 عیسوی ہی ہے۔ سویڈن میں سیاسی تسلسل 1544، نیوزی لینڈ میں 1835 اور ڈنمارک میں 1849 سے ہے۔ ان پانچوں ممالک کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے، اور معیشت کی سالانہ قومی پیداوار 1393 ارب ڈالر ہے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی بیس کروڑ اور معیشت کی سالانہ قومی پیداوار صرف 284 ارب ڈالر ہے۔

اور سنئیے کہ دنیا کے 25 امیر ترین ممالک میں سے 19 جمہوریتیں ہیں۔ دنیا کے 25 محفوظ ترین ممالک میں سے 23 جمہوریتیں ہیں۔ دنیا کے دس بہترین پاسپورٹ، تمام کے تمام جمہوری ممالک کے ہیں۔ دنیا کی بہترین 50 یونیورسٹیاں تقریبا تمام جمہوری ممالک میں ہیں۔ دنیا کے 97 فیصد تخلیقی پیٹینٹس جمہوری ممالک میں بسنے والے تخلیق کاروں کے ہیں۔

پاکستان، بخدا، سیاسی تجربات کی بھینٹ نہ چڑھتا تو آج دنیا میں کسی مقام پر ہوتا۔ 1971 سے تو چلیں پہلے چھوڑ دیتے ہیں کہ زخم بہت گہرے ہیں۔ 1971 کے بعد کے 46 سالوں میں سے 38 سال طاقتور جفادریوں کی سیاسی چالوں اور ہیراپھیریوں کی نذر ہو گئے۔ بہت سادہ سے بات ہے کہ ان سیاسی آئن سٹائنوں کے ترکیبات میں کچھ وزن ہوتا تو پاکستان آج سے بہت بہتر اور بہت آگے ہوتا۔

موجودہ حکومتی پارٹی نے ایک کروڑ، اڑتالیس لاکھ، چوہتر ہزار ایک سو چار ووٹ لیے۔ پیپلز پارٹی اور پیپلز تحریک انصاف کے مشترکہ طور پر ایک کروڑ، پینتالیس لاکھ، اکانوے ہزار ایک سو بہتر ووٹ ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں 55 فیصد ووٹرز نے رائے کا حق استعمال کیا، اور کل چار کروڑ، اڑتالیس لاکھ، انسٹھ ہزار تین سو تیرہ ووٹ ڈالے گئے۔ ان سب کی رائے کو اپنی 45 سالہ زندگی میں ریاستی عہدوں پر بیٹھے تین افراد کی مرضی کے تابع کیسے دیکھ لوں؟ دیکھ سکتا شاید اگر انہی، تین، پانچ، سات اور سترہ افراد کے 1977 سے لے کر آج تک کے کیے گئے سیاسی فیصلوں میں سے خیر برآمد ہوتے ہوئے دیکھی ہوتی۔ سیاسی معاملات کے غیرسیاسی فیصلوں سے نہ پہلے خیر برآمد ہوئی، نہ اب ہوگی۔ کبھی نہ ہو گی۔

خلجان کے مارے عمومی پاکستانی نوجوان، جو اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیویوں کے زیورات، اور پُرکھوں کی جائیدادیں بیچ کر پاکستان سے یورپ کی جانب بھاگنے کی کرتے ہیں، اور ان میں آج کل اکثریت ایک انقلابی رہنما کے آس پاس انقلاب، تبدیلی اور نئے پاکستان کی امید میں ہے، تو ان سے کہنا یہ ہے کہ بجائے پرانے کھلاڑیوں کی نئی چالوں پر بغلیں بجانے کے، اپنے رہنما، اپنی جماعت سے ان کے مالی و پیشہ وارانہ معاملات پر بازپرس کی روایت ڈالیں اور جماعت کی حکمت عملی پر تنقیدی شعور کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ باقی تمام تو کرپٹ، ذہنی غلام، پٹواری وغیرہ ہیں، تو آب زم زم میں دھلے سیاسی کارکنان سے ہاتھ باندھ کر مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے دودھ میں دھلے رہنمانان گرامی سے سوالات پوچھئیے کہ جناب 2014 کے دھرنا تماشہ میں انگلی سے لے کر، ایک سیاسی و پارلیمانی مسئلے کو ایک دوسرے فورم پر لے کر جانے میں کیا عمرانی، اوہ معذرت، لقمانی ہے؟ عمرانیات و لقمانیات میں زیادہ فرق باقی رہا نہیں ویسے۔

میڈیائی اور مڈل کلاس کے لقمانوں سے کہنا یہ ہے کہ سیاسی تسلسل، جمہوریت کے خیمے کا درمیانی ستون ہے جناب۔ آئین و قانون میں منتخب شدہ اکثریتی جماعت اور اس کے وزیر اعظم کو منتخب کرنے یا اس کو نکالنے کا اک طریقہء کار ہے۔ اس کے علاوہ تمام طریقے غیرآئینی اور غیر قانونی ہیں۔ تاویلات آپ جو مرضی ہے بھلے پیش کرلیں، مگر سیاسی تسلسل کے بغیر جمہوریت بے معانی ہے۔ تسلسل نہیں ہوگا، تو صاحبو، زیور اور جائیدادیں بِکتی رہیں گی، آپ ”ڈنکیاں“ لگا کر یورپ جاتے رہیں گے۔ کچھ رستے میں مارے جائیں گے۔ کچھ اپنی ماؤں کی عمروں کی خواتین سے پیپر میرج کرکے یورپی شہریت حاصل کریں گے۔ وہاں کے شہری بن جانے کے بعد اک بات کہیں گے: یہ سالی جمہوریت کرتی کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).