نیّرمسعود سے گفتگو (1)


آصف فرّخی: نیّرصاحب! اردو افسانے میں آپ کا ورودِ مسعود نہایت خوش گوار اضافہ ہے جس پر میں اکثر حیرت بھی کرتا ہوں۔ آپ اردو اور فارسی کے ممتاز عالم اور محقّق ہیں، برصغیر کے علمی حلقوں میں آپ کا نام جانا پہچانا ہے۔ افسانہ نگاری آپ کے لیے کچھ ذریعۂ عزّت نہیں رہی ہوگی۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ افسانے لکھنے کی طرف مائل کیسے ہوئے؟

نیّرمسعود: آصف صاحب! ذریعۂ عزت تو استادی اور عالم جو آپ کہہ رہے ہیں تو نہ عالم ہوں میں اور نہ وہ ذریعۂ عزت ہے، اور نہ افسانہ نگاری ایسی چیز ہے جس کو کہا جائے کہ ذریعۂ عزت نہیں ہے۔ یہ ایک آدھ اور لوگوں نے بھی لکھا۔ اصل میں، جو کچھ بھی میں نے لکھا وہ کوئی عزّت وزّت حاصل کرنے کے لیے نہیں لکھا بلکہ ایک شوق سے لکھا۔ افسانے کا شوق مجھ کو بالکل بچپن ہی سے تھا۔ جو کچھ میں نے پڑھا تو افسانے کا زیادہ مطالعہ ہوا۔ اب اسی سلسلے میں، چوں کہ ہمارے گھر میں کتابیں علمی اور تحقیقی زیادہ تھیں تو ان کا مطالعہ بھی رہا، لیکن اصل شوق، جو ذاتی تھا، وہ افسانے ہی کا تھا۔ تو یہ پڑھتا رہا اور اردو کے جو اچھے افسانہ نگار تھے ان میں قریب قریب سبھی کو پڑھا ہے، جن کو بھی ہماری عمر کے لوگ پڑھتے تھے۔ پھر یہ جب جدید افسانے شروع ہوئے اور ان میں ابہام اور تجرید والا معاملہ تھا جس پر بحثیں ہوتی رہیں، یہ مجھ کو پسند نہیں آیا۔ اور افسانے لکھتا پہلے بھی تھا، مگر یہ کہ وہ اچھے نہیں ہوتے تھے تو ان کو چھپوایا نہیں، تلف کردیا۔ بعد میں جب ’شب خون‘ نکلنا شروع ہوا، فاروقی صاحب سے دوستی ہوئی، ان سے بھی گفتگو ہوتی تھی اس موضوع پر۔ تو میں بھی میرا یہ کہنا تھا کہ اس طرح کا تجریدی افسانہ جو سمجھ ہی میں نہ آئے کہ افسانہ نگار کیا کہہ رہا ہے، یہ نہیں ٹھیک ہے۔ یعنی یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں، ان الفاظ کا مطلب کیا ہے۔ اب اس مطلب کا کیا مطلب ہے، اس پر چاہے بحث ہو۔ لیکن جو بات کہی جارہی ہے وہ کم سے کم صاف طور پر واضح ہونی چاہیے۔ کچھ اس خیال سے، اور شوق تو پہلے بھی تھا، ایک آدھ افسانہ لکھا۔ ’سیمیا‘ بلکہ پہلے لکھا تھا، لیکن وہ پورا نہیں ہوا تھا اس لیے ’نصرت‘ پہلے چھپ گیا۔ ’نصرت‘ اصل میں ایک خواب تھا۔ ’نصرت‘ جو ہے وہ پورا تقریباً خواب کا واقعہ ہے۔ اور یہ جو لڑکی اس میں دکھائی ہے، یہ بھی تھی بچپن میں۔ ہم کھیلتے تھے ساتھ۔ تو خیر، وہ الگ ایک دلچسپ قصّہ ہے اس خواب کا بھی۔ تو بیچ میں یہ ہوگیا تو’نصرت‘ پہلے لکھ گیا ورنہ اصلاً ’سیمیا‘ پہلے شروع کیا تھا۔ اور خوب اتنا تھا کہ فاروقی صاحب پر یہ ظاہر کیا کہ یہ میرا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ ترجمہ ہے۔ خیر، فاروقی صاحب نے اس کو پسند کیا، چھاپ دیا۔ اتنے عرصے میں ’سیمیا‘ بھی مکمل ہوگیا۔ یہ بھی لکھ لیا۔اس کے بعد بہت وقفے وقفے سے چند افسانے سب ملا کے یہ گیارہ لکھے۔ پابندی سے نہیں لکھ رہا ہوں۔ لیکن محرک گویا۔۔۔ اصل محرّک توبس اپنی خواہش ہے کہ یہ میرا شوق ہے افسانے لکھنے کا۔

سوال: ان افسانوں کی فضا اور زبان اور ان کے کردار، وہ اردو کے اور افسانے، بلکہ اردوافسانے کی جو مرکزی دھارا ہے، اس سے خاصے مختلف نظر آتے ہیں۔ یعنی آپ نے خود ایک قاری کے طور پر دیکھا کہ پہلے واقعیت پسند افسانہ لکھا جارہا تھا پھر تجرید اور علامت کا دور دورہ تھا اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ کہانی پھر واپس آرہی ہے۔ مگر آپ کے افسانے اس قسم کے رجحانات سے اور درجہ بندیوں سے بالکل الگ نظر آتے ہیں۔ تو صاحب یہ کیا طلسم ہے؟

نیّرمسعود: اب اس میں کوئی بہت ہی منظم کوشش تو نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جیسی سب کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم ذرا دوسروں سے مختلف لکھیں، تو اب خالص حقیقت پسندی کا زمانہ تو نہیں رہا، اور تجرید اور سخت ابہام، یہ ذاتی طور پر مجھ کو پسند نہیں تھا۔ تو میں نے یہ سوچا کہ ان دونوں کے بیچ کی کوئی چیز ہو، حقیقت موجود تو ہو اس میں لیکن بالکل عُریاں حقیقت کے طور پر نہ ہو۔ اچھا، فضا کا جو ذکر آپ نے کیا، تو اصل میں اس فضا سے میں تھوڑا پریشان سا رہتا ہوں، اس لیے کہ مجھ کو خود یہ فضا دُھندلی دھندلی سی معلوم ہوتی ہے جو میں نہیں چاہتا تھا۔ لیکن وہ کسی طرح آ جاتی ہے، اور اس میں ایک، گویا خواب ناک سی کیفیت معلوم ہوتی ہے، گویا خواب کا بیان ہورہا ہے۔ یہ میری شعوری کوشش بھی نہیں ہے، نہ یہ بہت اچھی بات معلوم ہوتی ہے مجھ کو۔ مگر یہ کہ لوگ اس کو بھی پسند کرتے ہیں، میں اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ اب جو اس خواب ناکی کے علاوہ اگر فضا ہے، تو اس میں زیادہ ہاتھ زبان کا ہے۔ زبان کی طرف میں نے واقعی بہت توجہ کی۔ اس لیے کہ اردو نثر کے زوال کی مجھ کو بہت شکایت ہے۔ آپ سب کو محسوس ہورہا ہوگا کہ نثر کو ایک تخلیقی چیز کی طرح برتنے کی طرف توجہ کم ہوگئی ہے، خاص طور پر ہمارے جو نوجوان لکھنے والے ہیں۔ چند لوگ ہیں، ہمارے قمر احسن ہیں جیسے، ان کی زبان بہت مضبوط ہے، خود آپ کی زبان ہے، حسین الحق ہیں، ورنہ نئے لکھنے والوں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبان پر قابو نہیں ہے۔ تو سب سے زیادہ کوشش جو میں نے کی، وہ زبان ہی تھی کہ دُرست رکھنے کی اور جو بات کہنا ہے اس کے لیے کس قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اب اس کا اثر کسی طرح پڑا ہوگا جو ظاہر ہے کہ آپ لوگ، نقّاد لوگ زیادہ سمجھ سکتے ہیں کہ زبان کا کیا اثر افسانے کی فضا وغیرہ میں ہے۔ کچھ سبب یہ بھی ہے کہ میرے خود بھی خیالات بہت واضح نہیں ہیں، مُبہم سے ہیں، تو جب الفاظ جب ان کو ادا کرتے ہیں تو ایک طرح کا دُھندلاپن سا اس میں آتا ہے، اور وہ فضا دوسری معلوم ہوتی ہے۔ ورنہ فضا حقیقتاً تو یہی جو ہماری آس پاس کی زندگی ہے، وہی فضا ہے اس میں بھی، کردار بھی وہی ہیں۔ کہیں کہیں یہ شُبہ ہوتا ہے کہ یہ شاید کسی اور زمان و مکان کی کہانیاں ہیں، لیکن اس میں ظاہر ہے کہ وہ اسی زندگی ہی سے لی گئی ہے۔ اب یہ کہ محلِ وقوع مثلاً ’سیمیا‘ کا اور ’مارگیر‘ کا، وہ شہر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ دقّت یہ ہے کہ اگر شہر کی فضا وہ نہیں ہے تو کسی اور ایسی جگہ کی فضا بھی نہیں ہے جس سے میں واقف ہوں کہ بتا سکوں کہ یہ فلاں جغرافیائی علاقے کا واقعہ ہے۔ تو جو آپ کو نئی یا نامانوس سی فضا محسوس ہوتی ہے، اس کا سبب اصل میں یہ ہے کہ خود میرے ذہن میں بھی وہ فضا۔۔۔ میری پہچانی ہوئی نہیں ہے۔

سوال: افسانوی ادب میں ایسی فضا جو نامانوس ہو، اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ Tolkien نے بالکل ایک تخئیلاتی جغرافیہ ہی تخلیق کیا ہوا ہے اور اس میں دریا اور پہاڑ اور بستیاں ہیں جن کا روئے زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ یا پھر ایک جغرافیہ ہمارے ہاں داستانوں کا ہے، کہ ان میں نام الگ سہی، مثلاً طلسم اور دربند وغیرہ۔ مگر کلچر بہت آسانی کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔ اس سے بالکل مختلف صورت حال یہ ہے کہ ہمارا 30ء اور 40ء کے زمانے کا افسانہ ہے کہ ایک بہت ہی واضح سماجی اور سیاسی سیاق و سباق رکھتا ہے۔ آپ کے ہاں ویسے سیاق و سباق نظر نہیں آتے، ان معنوں میں کہ زمان و مکان میں ان کہانیوں کو کس مقام پر رکھا جائے۔ اس بارے میں وہ کہانی خود کوئی سُراغ نہیں دیتی؟

نیّرمسعود: ہاں ! یہ میں نے کوشش کی ہے کہ باقاعدہ طور پر یہ بتایا نہ جائے، اور اسی وجہ سے ناموں کے استعمال سے بہت گُریز کیا ہے میں نے۔ اب اس وقت یاد تو نہیں آرہے، لیکن میرا خیال ہے کہ بمشکل تین چار نام ان سب کہانیوں میں آئے ہوں گے۔ شہروں کا نام بھی شاید ایک آدھ جگہ آہی گیا ہو۔ مذہب کا حوالہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے جیسے ’سیمیا‘ میں قبرستان کا ذکرنہیں کیا گیا، اس کے لیے مُردہ میدان کا لفاظ استعمال کیا، کہ واضح طور پر یہ نہ معلوم ہوکہ یہ مُسلم قبرستان ہے۔ تو یہ تو میں نے کوشش کی کسی زمان و مکان کے خانے میں وہ فِٹ نہ ہوسکیں۔ لیکن یہ نہیں کوشش تھی کہ وہ ان زمان ومکان سے ماورا، یا الگ ہٹ کر کوئی چیز ہو۔ اصل یہی ہے کہ وہ ہیں تو ہمارے ہی زمان و مکان، مثلاً ’اُوجھل‘ ہے تو ’اُوجھل‘ کو Place کیا جا سکتا ہے میرے گویا لڑکپن کا جو زمانہ تھا، اس وقت کی فضا اس میں ہے۔ ’عطر کافور‘ میں بھی ہے، لیکن اس کی پہچان کی جو چیزیں ہیں ان کا ذکر کرنے سے گُریز کیا ہے میں نے عمداً۔ تو پھر وہی ایک طرح کی دُھندلاہٹ سی آگئی ہے کہ واضح طور پر معلوم نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کی کوشش میں نے کی، اور اس میں واقعی محنت بھی کرنا پڑی کہ بالکل واضح طور پر آپ نشان دہی نہیں کرسکتے کہ یہ 1920ء یا 40ء کے آس پاس کے لکھنؤ کا قصّہ ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ کہ میرے ذہن میں وہ زمانہ رہتا تو ہے، بس اس کو بتانا نہیں چاہتا ہوں کہ یہ فلاں زمانے کا قصّہ ہے۔

سوال: آخر اس نہ بتانے کی وجہ کیا ہے ؟ لوگ بتانے پر اتنی محنت نہیں کرتے جتنی آپ نہ بتانے پر کرتے ہیں ؟

نیّر مسعود(ہنسی): بھئی یہ ذرا ٹیڑھا سوال ہے۔ بتانے میں ایک طرح سے ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ آپ نے شروع میں عالم والم کہا، تو عالم تو نہیں لیکن تحقیق سے مجھ کو سروکار رہتا ہے، تو محقّق کی کچھ ذمّہ داریاں ہوتی ہے۔ اگر کوئی حوالہ آپ نے زمان و مکان کا دے دیا تو پھر اصولاً ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیئے آپ کے افسانے میں، جو اس حوالے کے خلاف ہوجائے۔ بہت سیدھی سی مثال ہے کہ فرض کیجیے،اگر آپ 20ء کا قصہ لکھ رہے ہیں تو پھر ساری چیزیں آپ کو ایسی رکھنا ہیں جو 20ء کی ہوں، ایسی نہ ہوں جو20ء میں نہ ہوں، اور 25ء میں آئی ہوں۔ تو وہ ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اور یہ ایک طرح کی احتیاط پسندی ہے جو تحقیق کی وجہ سے طبیعت میں پیدا ہوئی۔ آپ اس کو سہل انگاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ (ہنسی)۔ یہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے میں نے کیا کہ خاص طور پر زمان و مکان کا حوالہ نہیں دیتا۔

سوال: اگر گریز کی وجہ سے آپ کی کہانیوں کی ایک خصوصیت یہ مُتعین ہوئی ہے کہ ان کا رشتہ جدید افسانے کے ساتھ ساتھ، کہانی کے اس اسلوب سے بھی جا ملتا ہے جسے آپ فنٹاسی کہہ سکتے ہیں، یا رومانوی مُصنفوں کا جو اسلوب تھا جس کی ایک شکل ہوفمین کے ہاں یا ایڈگر ایلن پو کے ہاں ملتی ہے۔ آپ کی کہانیوں کا یہ رشتہ بہت مضبوط نظر آتا ہے؟

نیّرمسعود: جی ہاں ! بس اس میں بھی کوئی بہت شعوری کوشش تو نہیں ہے۔ فنٹاسی تو میں بالکل لکھنا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ اور ان کہانیوں میں بھی فنٹاسی ان معنوں میں نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ اس طرح کے واقعات تو ہماری زندگی میں پیش نہیں آتے۔ یہاں تک کہ مثلاً ’مارگیر‘ کا قصہ بھی، جو بعض لوگوں کو بہت زیادہ فنٹاسی معلوم ہوتا ہے، اس میں کوئی ایسی غیر حقیقی بات یا حقیقت کے منافی بات میں نے نہیں رکھی۔ ’سیمیا‘ میں بھی کوئی ایسی بات۔۔۔ مثلاً یہ عملِ سیمیا ہے، تو یہ عمل ہوتا تھا۔ میں نے نہیں کیا، میں نے تو خیر منشی میڈی لال کی ایک کتاب تھی ’مجموعۂ علمیات نادرہ‘ اس میں یہ عمل پڑھا تھا سیمیا کا۔ ہاں اس سلسلے میں ایک دل چسپ بات جُملہ معترضہ کے طور پر بتادوں، جو فوراً کہنے میں بڑی سنسنی خیز معلوم ہوگی۔ ’سیمیا‘ میں نے لکھا تھا قریب بارہ برس کی عمر میں۔ اور اس وقت اس کی وہی حیثیت تھی جو بارہ برس کا ایک بچّہ لکھے گا کہ ایک آدمی تھا،اوراس نے ایک کتّا پالا تھا، اور اس کو سیمیا کا شوق ہوا، اور اس میں کتّے کو استعمال کیا لیکن اس عمل کے دوران کتّا پاگل ہوگیا تھا اور اس آدمی کو کاٹ لیا، اور جب آدمی نے اپنے عمل سے پانی برسایا تو اس پانی کے برسنے کے اثر سے اس پر وہی سگ گزیدگی کا دورہ پڑگیا اور وہ مرگیا۔ تو یہ کہانی میں نے بہت پہلے بچپن میں لکھی تھی۔ وہ بعد میں بہت تفصیل کے ساتھ ’سیمیا‘ کی صورت میں اب بالکل ظاہر ہے کہ دوبارہ لکھی۔ اُس کا پتہ بھی نہیں کہ اب کہاں وہ بچکانی کہانی۔ اس دوران آپ کا سوال بالکل بھول گیا کہ کیا پوچھا تھا آپ نے (ہنسی)۔ جُملہ معترضہ میں یہ بڑی خامی ہوتی ہے۔

سوال:سوال یہ تھا کہ آپ کی کہانیوں میں جدید افسانے سے زیادہ پوکی ٹیلز Tales کا جو اندازہ ہے، اس سے خاصا قریبی رشتہ پایا جاتا ہے؟

نیّرمسعود: ہاں ! (ایڈگر ایلن) پو کا اثر تو ہونا چاہیے اس لیے کہ پو مجھ کو بے حد پسند ہے، اور چوں کہ اس کے ہاں بھی ایک طرح سے بالکل حقیقت نگاری واضح طور پر نہیں ہے۔ اس کا اثر کچھ تو غیر شعوری طور پر پڑا ہوگا مجھ پر۔ اور پھر وہی بات کہ افسانے کو بالکل ایک حقیقی واقعے کی طرح بیان کرنا چوں کہ پسند نہیں تھا مجھ کو، اس لیے ناگزیر تھا کہ اس میں Taleوالی کیفیت آ جائے، کوئی کیفیت تو آنا ہی تھی۔ کچھ ظاہر ہے کہ اس طرح کی ٹیلز وغیرہ پڑھی ہوئی ہیں اور پسند بھی ہیں، تو وہ انداز آ گیا ہو۔ ویسے میری کوشش تو یہی رہتی ہے کہ وہ کچھ حکایت قسم کی چیز نہ معلوم ہو، اور مجھ کو خود اب بھی محسوس نہیں ہوتا کہ اس طرح کی ٹیلز کا انداز ہے، لیکن ظاہر ہے کہ پڑھنے والے محسوس کرتے ہیں اور وہ زیادہ مُستند ہیں لکھنے والے کی اپنی رائے کی بانسبت کہ کہانی میں یہ چیز ہے، اور وہ چیز نہیں ہے۔ زیادہ مُستند وہ ہے جو پڑھنے والا محسوس کرتا ہے۔

سوال: آپ کی کہانیوں کی فضا بعض دفعہ رُکی رُکی سی اور بند بند سی معلوم ہوتی ہے جس سے بعض لوگوں کو یہ گُمان گزرتا ہے کہ یہ کہانیاں خاصی Morbid ہیں۔ تو کیا خود آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی کہانیوں میں Morbidity ہے؟

نیّرمسعود: Morbidity۔۔۔ اب اس سے قطعِ نظر کہ آپ یہ اچھے معنی میں استعمال کررہے ہیں یا بُرے معنی میں استعمال کررہے ہیں، لیکن Morbidity غالباً ہے ان کہانیوں میں۔ کچھ تو میں خود جانتا ہوں اور کچھ آدمی کو اپنے بارے میں خوش فہمیاں ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ نہیں ہے، تو بھی ہوتی ہے۔ تو Morbidity ہے، صاحب۔ اب برا ہو یا بھلا ہو، یہ انشاء اللہ رہے گی بھی آخری افسانے تک۔ (ہنسی)۔ اب برا بھی نہیں معلوم ہوتا تھوڑا سا Morbid ہونا۔ بالکل صحت مند افسانہ کون سی اچھی چیز ہے؟ اس کے لیے اور اصناف موجود ہیں، آپ لکھیے، لیکن افسانے میں تھوڑا سا Morbidity، اور پیچیدگیاں اور پریشانیاں جو ہیں، وہ سب آ جائیں تو کیا حرج ہے؟ لیکن یہ کہ اس کی نشان دہی آپ کریں یا کوئی اور کرے، تو میں دل چسپی سے اس کو سُنوں گا۔ اس لیے کہ جیسا میں نے عرض کیا، مجھ کو خود زیادہ علم نہیں ہے، بس یہ احساس ضرور ہے کہ Morbidity ہے افسانے میں کسی حد تک۔

سوال: بھئی دیکھیے، Morbid کا لفظ ’مریضانہ‘ کے معنی میں تو نہیں استعمال کیا ہے۔۔۔؟

نیّرمسعود: نہیں ! اگر آپ کریں بھی تو اس پر اعتراض تھوڑی ہے مجھے۔ مریضانہ اگر ہے کسی آدمی کا مزاج، تو کیوں نہ وہ اس کو ظاہر کرے؟

سوال: ہم اس لفظ کی وجہ سے اُلجھ سے گئے، Morbid کا لفظ کچھ ان کہانیوں کی اس خاصیت کے لیے پوری طرح مناسب نہیں ہے۔ آپ نے کہاکہ آپ کی یہ تمام کہانیاں آپ کے بچپن میں اور اس زمانے میں Rooted ہیں، تو جس شہر کا نام آپ نے نہیں لیا، کہی پس منظر میں سے، دُھند سے اس کی عمارتیں، حویلیاں اور دالان، محراب اور منبر جھلکتے ہیں۔۔۔؟

نیّرمسعود: ہاں ! وہ تو جھلکے گا، ظاہر ہے۔۔۔

سوال: اور یہ جھلکتا ہوا شہر لکھنؤ سے بہت ملتا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔؟

نیّرمسعود: ہاں ! ہاں۔۔۔

سوال: تو ان کہانیوں میں Morbidity سے زیادہ، ایک Decadentشہر کی Decadentجھلک ہے۔۔۔؟

نیّرمسعود: Decadence؟ اب میں پھر وہی عرض کروں گا کہ یہ جھلک اگر آپ کو محسوس ہورہی ہے تو مجھے اتفاق تو کرنا ہی پڑے گا، کیوں کہ میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ نہیں صاحب، جھلک نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ فرضی بات کہہ رہے ہیں یا غلط بات کہہ رہے ہیں۔ تو اب یہ کہ میں نے اس کو جھلکانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جس فضا میں افسانے قائم ہوئے ہیں وہ اسی شہر کی فضا ہے، اور اس شہر سے مجھ کو دل چسپی بھی، علاوہ اس کے کہ وہ وطن ہے میرا، کچھ ہے یہ عجیب و غریب شہر، یوں بھی اس سے دل چسپی مجھ کو بہت ہے۔ اور تماشے بھی بہت یہاں دیکھے، زوال وغیرہ کے۔ میں تو پیدا ہی ہوا ہوں تو یہاں کا معاشرہ زوال پذیر ہوچکا تھا، اور اس کے بعد اور بھی زیادہ زوال اس میں ہوتا گیا۔ محراب سے گویا مجھ کو کچھ ذاتی طور پر عجیب سی کیفیت ہے کہ مجھ کو بڑی خیال انگیز معلوم ہوتی ہے۔ علامت میں اس کو نہیں کہوں گا، کیوں کہ علامت ولامت نہیں ہے وہ کسی چیز کی، لیکن اس میں ایک بڑی کیفیت ہے۔ ہر محراب میں کئی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ کچھ اس کا سبب غالباً یہ بھی ہے کہ واشنگٹن ارونگ کے الحمرا والے افسانے مجھ کو بہت پسند تھے اوراس میں محراب کا ذکر بار بار آتا ہے۔ یوں بھی محراب کی صفت بھی یہ ہے کہ پوری عمارت مٹ جائے گی، محراب اپنی ساخت کی وجہ سے باقی رہ جاتی ہے۔ تو لکھنؤ میں تنہا کھڑی ہوئی محرابیں ایک زمانے میں بہت تھیں، اب تو کم ہیں۔ اور اس طرح کے مکان بہت دیکھے میں نے، اور آپ کو وقت ملے گا تو نکلیے گا میرے ساتھ، تو آپ دیکھیے گا کہ ایک محراب ہے اور کئی فرلانگ اِدھر اُدھر چھوٹے بڑے ٹکڑے دیواروں کے لکھوری اینٹیں کے، جن کو آپ غور سے دیکھیں تو پوری اس حویلی کا نقشہ ذہن میں آجائی گا کہ وہ کیسی ہوگی۔ اور پھر فطری طور پر یہ خیال آتا ہے ذہن میں کہ کس طرح جب اس کی اصل شکل ہوگی تو کیسی ہوگی اور اس کے رہنے والے کیسے ہوں گے۔ اور چوں کہ میں واقف ہوں بھی، لکھنؤ میں ہی رہتا ہوں، اور اپنے بزرگوں سے یہ سب واقعات سنے بھی ہیں۔ پرانی عمارتوں کے نقاشے کچھ خود دیکھے، کچھ سُنے۔ کچھ تاریخ اودھ سے مجھ کو دل چسپی ہے۔ تو وہ سب چیزیں جو پس منظر میں تھیں اور وہ چیزیں جو میرے سامنے آئیں اور میرے سامنے ختم ہوئیں، یہ سب پھر آ کر مُجتمع ہوجاتی ہیں محراب، دالان، راہداری اور ایسی باتوں میں تو ان کا ذکر آتا بھی ہے، اور ان کے ساتھ ان کے پس منظر میں جو ساری چیزیں موجود ہیں، تو وہ لکھنے میں تھوڑی بہت جھلک۔۔۔ جھلکنا تو میں نہیں کہوں گا، اصل میں یہ عجیب چیز ہے آصف صاحب! آپ نے تو خیر محسوس کیا ہوگا اس کو کہ بہت سی چیزیں ایسی ہوسکتی ہیں جو آپ بیان نہ کریں افسانے میں، اور پڑھنے والے کو محسوس ہوکہ یہ اس میں بیان کی گئی ہے۔ یہ موجود ہے کہ نہیں، وہ تو الگ چیز ہے کہ آپ نے اشارہ دے دیا اور پڑھنے والے کا ذہن متحرک ہوگیا، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے دو چیزیں بیان کی ہیں، اور پڑھنے والے کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے ان کے انسلاکات میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز بھی بیان کی ہے جو حقیقت میں بیان نہیں کی گئی ہے۔ خود اپنے افسانوں میں، میں نے دیکھا، بعض لوگوں نے ذکر کیا کہ ایسی چیزیں دیکھی ہیں جو میں نے نہیں لکھیں۔ مثلاً نسوانی جسم کی خوشبوئیں۔ تو یہ شاید دو جگہ ہی لکھا ہے۔ اسی طرح قدموں کی آہٹ۔ یہ بھی دو جگہ ہے اور بس۔ لیکن شبہ یہ ہوتا ہے کہ ان کہانیوں میں بہت ہے ان چیزوں کا ذکر۔ تو وہ اصل ذکر گویا کاغذ پر نہیں آیا ہے، لیکن لکھنے والے کے ذہن میں وہ ہے۔ تو یہ کسی پراسرار طریقے سے، میں نے دیکھا کہ یہ پڑھنے والوں پر بھی عیاں ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی میں نے کوشش نہیں کی۔ اچھا، اب اس کو آپ ایک طرح کا کاروباری راز سمجھ لیجیے کہ بہت سی چیزوں کا ذکر عمداً نہیں ہے۔ پوری داستان کبھی تو میرے ذہن میں نہیں تھی اور کبھی ذہن میں تھی مگر میں نے لکھی نہیں۔ مثلاً ’اوجھل‘ کے لیے جتنا لکھا تھا، سب شامل کردیتا تو اس کا قریب دس گنا افسانہ تھا یہ۔ جن چیزوں کا صرف ذکر ہے، مثلاً عورتوں سے اس کی ملاقاتوں کا، تو یہ سب تفصیل سے لکھا تھا۔ اس کے بعد کو ہٹا دیا۔ ’وقفہ‘ میں باپ کا جو حال ہے، تو باپ کی پوری کہانی میرے ذہن میں ہے۔ وہ میں نے لکھی نہیں تھی مگر میرے ذہن میں ہے۔ باپ کی شادی، اس بچے کی پیدائش، ماں کس وقت مری، کس طرح مری، ماں کے مرنے کے بعد باپ کا کیا حال ہوا، یہ سب ذہن میں ہے لیکن اس کا بیان نہیں کیا گیا ہے۔ بیان صرف اتنا رکھا ہے ’وقفہ‘ میں کہ باپ جہاں بیٹھتا ہے، اس کے اُوپر چھت سے ایک آرائش لٹک رہی ہے، تو کیوں لٹک رہی ہے، کیا ہے، یہ میں نے بھی نہیں بتایا، لیکن پڑھنے والے کو کچھ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کچھ ہے، اس کے پیچھے کوئی کہانی ہے۔ تو وہ کہانی میرے ذہن میں تو صاف ہے۔ اسی طرح ’عطر کافور‘ میں ماہ رخ سلطان کی گویا پوری کہانی اپنے ذہن میں ترتیب دے لی تھی، اور غرقاب دوشیزہ جو ’سیمیا‘ میں ہے، وہ تو پوری لکھی بھی تھی جو بعد میں نکال دی تھی۔ تو اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ محض میرا وہم ہے یا اس میں حقیقت ہے، میرا خیال ہے کہ جب ایک چیز کو وجود میں لے آیا جائے، اس کے بعد اس کو ہٹا دیا جائے، تب بھی اس کا وجود کسی نہ کسی صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔ مثلاً آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اس صوفے پر۔ یہاں سے ہٹ جائیں گے تب بھی کسی حد تک، بہت ہی مبہم یا موہوم سا آپ کا وجود یہاں رہے گا۔ یعنی اِس صوفے میں، اور اُس صوفے میں جس پر کوئی شخض نہیں بیٹھا ہے، ابھی وہ بن کر آیا ہے فرنیچر کی دُکان سے، اس میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے اس فرق کو الفاظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا، لیکن محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو میں نے یہ سوچا، تجربے ہی کے طور، کہ آیا افسانے میں بھی یہ ممکن ہے کہ نہیں کہ ایک کہانی ہم پوری بنالیں اور اس کو بیان نہ کریں، اشاروں میں بھی نہ بیان نہ کریں، یہ نہیں کہ مُلخّص طور پر ذکر کردیا اس کا، اور پڑھنے والے کو محسوس ہوکہ کوئی کہانی موجود ہے، اور اس کے ذہن میں بھی کہانی بن جاتی ہے چاہے بہت ہی مُبہم قسم کی ہو۔ تو یہ مجھ کو احساس ہوا کہ اس چیز میں کامیابی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ میں خود کوئی بہت کامیاب نہیں رہا، لیکن اس طرح کی کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہے، غیر ادبی مثال ہے لیکن بہت دلچسپ ہے۔ ایک خاتون تھیں جنہیں کھانا پکانے کی مہارت تھی۔ تو انہوں نے جو کھانا تیار کیا تو آدھ پائو گھی جس ہانڈی میں پڑنا تھا، اس میں کوئی ڈھائی کیلو ڈالا، اور ہانڈی پکانے کے بعد اس میں سے اتنا نکال لیا کہ سَتاس میں وہی رہا آدھا پائو۔ لیکن اس ہانڈی کی کیفیت وہی تھی جیسے بہت عمدہ اور خاصگی کھانا ہوگیا۔ تو یہ چیز کسی حد تک افسانے میں بھی۔۔۔ شاعری میں تو بہت یہ چیز کام آئے گی، لیکن افسانے میں کسی حد تک یہ چیز کام کرتی ہے کہ اگر جو واقعہ آپ بیان کررہے ہیں، اس کے مختلف جو ضمنی واقعات ہیں، اگر انہیں آدمی اپنے ذہن میں ترتیب دے لے یا لکھ بھی لے، اور اس کے بعد نکال لے۔ اب یہ نکالنا ذرا ہمت کا کام ہوتا ہے۔ اس میں، میں نے ہمت سے کام لیا۔ اپنی کسی بھی تحریر کو تلف کرنا اچھا نہیں معلوم ہوتا، لیکن کاٹا میں نے خوب بے دھڑک ہے، اور یہ سب افسانے اصلاً اس سے بہت زیادہ طویل تھے۔تو اس کی وجہ سے وہ چیز تھوڑی بہت آ گئی ہوگی کہ جتنا بیان کیا جارہا ہے اس کے علاوہ بھی اس میں کچھ اور موجود ہے، اور کسی وجہ سے لکھنے والے نے بیان نہیں کیا۔ اور اصل دقّت جو مجھ کو پیش آتی ہے، وہ اسی میں آتی ہے کہ کیا چیز رکھی جائے اور کیا نہ رکھی جائے، اور کیا بیان کیا جائے، اور اس سے کم اہمیت کی نہیں بلکہ زیادہ ہی اہمیت کی بات یہ ہے کہ کیا نہ بیان کیا جائے۔

سوال: اس کچھ بیان کردینے اور کچھ چھوڑ کر بھی اس کے لیے گنجائش رکھنے سے بعض مرتبہ آپ کی کہانیوں میں ناول کی سی کُشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ آس سی بندھتی ہے کہ لکھنے والا ناول کی طرف لے جائے گا، اور کہانی کو Follow-up کرے گا۔ بعض دفعہ آپ کہانی کو ایسے مقام پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جہاں وہ ابھی نقطۂ عروج پر نہیں پہنچی ہے، اور لگتا ہے کہ اپنے بیان کے لیے کچھ اور وُسعت طلب کررہی ہے؟

نیّرمسعود: ہاں ! اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ڈرامائی خاتمے سے مجھے نہیں معلوم کیوں، بچپن ہی سے چڑ تھی۔ یہ بات ہے کہ افسانے کا انجام ڈرامائی نہ ہونا چاہیے، تو اگر ڈرامائی نہ ہونا چاہیے تو یہ محسوس نہ ہوکہ بس اب افسانہ ختم ہوگیا، کچھ نہیں رہا۔ کچھ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ خواہش سی رہتی ہے کہ یہ افسانہ اور لکھیے، یا اس سلسلے کا اور افسانہ لکھا جائے۔ ناول لکھنے کا ارادہ تو نہیں کیا، نہ آئندہ شاید لکھوں گا اس لیے ناول کھنا مجھ کو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اور کم سے کم میں غالباً بالکل نہیں لکھ سکوں گا ناول۔ لیکن افسانوں میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ محسوس ہو کہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا افسانہ، بلکہ اس کے جس حصّے کا بیان کیا جارہا ہے صرف وہ مکمل طور پر حصّہ ختم ہوگیا۔ خود ’سیمیا‘ میں اس طرح کی کوشش کرکے۔۔۔ ویسے افسانے اس ترتیب سے لکھے نہیں گئے، لیکن ’سیمیا‘ کے افسانوں میں شروع سے آخر تک ایک طرح کا ربط ہے کہ ایک شخص کی داستان ہے جو سلسلہ وار بڑھ رہی ہے۔ بلکہ محمود ایاز صاحب نے تو مجھ کو یہ لکھا کہ آپ انہیں افسانے کیوں کہہ رہے ہیں، یہ تو ایک مکمل کتاب ہے۔ لیکن میرا یہ ارادہ یہ نہیں تھا کہ اس کو ناول کی طرح لکھوں،بلکہ سب افسانے ایک دوسرے سے مربوط ہوں۔ چناں چہ آخر میں جب ’مسکن‘ لکھا تو اس کو اس موڑ پر ہی گویا ختم کردیا جہاں سے ’اوجھل‘ شروع ہوا تھا۔ وہیں ختم ہوگئی وہ کہانی۔ کچھ اپنی یہ کم زوری بھی ہے کہ نیا پلاٹ ذرا مشکل سے سوجھتا ہے۔ بلکہ پلاٹ تو اصل میں سوجھتا ہی نہیں اچھا مجھ سے، کچھ دُھندلا سا خاکہ اس کا ذہن میں آتا ہے۔ تو اس میں یہ آسانی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے کی کوئی کہانی ہے تو اس میں سے کوئی چیز نکال کر اس کو آگے بڑھادیا جائے۔ لیکن اصلاً اس بات کی کوئی بہت کوشش میں نے نہیں کی ہے کہ کہانیاں پڑھنے میں یہ محسوس ہو کہ نامکمل ہیں، ابھی کچھ اور بھی کہنا ہے۔ اب اس کو کم زوری بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح سے ختم نہیں کرپاتا ہوں افسانہ جیسے یہ معلوم ہو کہ اب بالکل ختم ہوگیا ہے افسانہ یہاں پر۔ کچھ نہ کچھ ناتمامی کا احساس رہتا ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).