نیّرمسعود سے گفتگو (2)


سوال: ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ یہ افسانے، رجحانات کی اس دھارا سے قدرے مختلف ہیں جو اردو افسانے میں جاری و ساری رہی ہے۔ آپ نے جن افسانہ نگاروں کو پڑھا ہے، تو آپ ان سے کس طرح Relate کرتے ہیں ؟ کون سی چیزیں آپ کو بھاتی ہیں، کون سے افسانہ نگار پسند آتے ہیں، کون سے نہیں آتے؟

نیّرمسعود: اب میرے جو پسندیدہ افسانہ نگار اردو کے ہیں، وہ یوں ہیں کہ سب سے زیادہ تو مجھ کو غلام عباس صاحب پسند ہیں۔ پھر حیات اللہ انصاری ہیں۔ اس کے بعد اپنے زمانے کے، یعنی جو معاصرین ہیں، ان میں بہت لوگ ہیں۔ انتظار حسین کا سب سے پہلے نام آئے گا۔ لیکن تاثر جن سے میں نے قبول کیا تو وہ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ غلام عباس کا ہونا چاہیے، اس لیے کہ میں نے اس طرح پڑھا ہے۔ جیسے کسی اُستاد کی چیز پڑھی جائے، اور اس طرح کہ گویا اس سے سیکھنا چاہیے، غلام عباس سے، کہ کہانی کس طرح بیان کی جائے۔ پھر باہر والوں میں کافکا اور پو اور ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی ہیں۔ تو ان میں بھی ایملی برانٹی اور دوستوئیفسکی کے بارے میں تو یہ محسوس ہوا کہ ان کی پیروی نہیں ہوسکتی، کسی بھی طرح سے ان کا اثر قبول نہیں کیا جاسکتا، ان کے ہاں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے کہ دوسرا اس کو اپنا سکے۔ کافکا اور پو کے ہاں نسبتاً یہ محسوس ہوا کہ ان کو گویا بطور درسی کتاب کے پڑھا جا سکتا ہے۔ تو اب جان کر ظاہر ہے کہ میں نے کوشش نہیں کی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا اثر مجھ پر پڑا ہوگا۔ اس لیے کہ ان کو پڑھ کر یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ اس طرح کا لکھا جائے کہ کچھ ان چیزوں کی جھلک آجائے اس میں۔ اچھا، خود عظیم بیگ چغتائی اور رفیق حسین، جن پر آپ نے بہت اچھا مضمون لکھ دیا ہے، ان کے ہاں مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ لوگ درس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے آدمی سیکھ سکتا ہے کہ افسانہ کس طرح لکھا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ باقاعدہ کوشش کسی کی پیروی یا نقّالی کی نہیں کی ہے، لیکن یہ چوں کہ ماڈل اپنے ذہن میں تھے، اس لیے ان کا اثر کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہوگا۔ کوشش بہرحال، جیسی سب کرتے ہیں کہ مختلف لکھا جائے، جیسے افسانے عام طور پر لکھے جارہے ہیں، ویسے نہ لکھیں۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ افسانے اچھے نہیں تھے۔ اس نظر سے بھی بہت افسانے پڑھے ہیں میں نے کہ کیسے نہ لکھا جائے۔ بلکہ زیادہ۔۔۔ حالاں کہ ذہن میں زیادہ توجہ اس پر رہتی ہے، لیکن افسانے بھی اور شاعری بھی، ان کو پڑھنے میں گویا ان کی خوبیوں سے زیادہ توجہ اس پر رہتی ہے کہ کیا چیز اس میں گڑبڑ ہوگئی جس کی وجہ سے افسانہ خراب ہوگیا، یا کس طرح اور بہتر ہو سکتا تھا۔ تو یہ منفی تعلیم تو خیر بہت سے افسانوں سے حاصل کی ہے، اور ماشاء اللہ آج کل بھی اس قسم کے افسانے لکھے جا رہے ہیں (ہنسی)۔ لیکن مُثبت اثر اگر کسی کا ہے تو وہ خاص طور پر ہمارے غلام عباس کا یقینا ہونا چاہیے۔ یا پھر اپنے اور پرانے لکھنے والوں میں مرزا رسوا ہیں جیسے۔ ان کا بھی مجھ کو یہی محسوس ہوا کہ آدمی اگر ان کو غور سے پڑھے تو پھر وہ اچھا لکھ سکتا ہے۔ زبان بھی اور واقعات کوبیان کس طرح کیا جائے۔ اصل تو یہی ہے کہ قصّہ بیان کرنا ہی اصل فن ہے، جو موضوع ہے اس کے لحاظ سے کون سا اسلوب اختیار کیا جائے۔ اس کی طرف میں نے زیادہ توجہ بھی رکھی۔ اب کچھ چیزیں جو ان لوگوں کی پیروی کا نتیجہ نہیں ہوں گی، کہ مثلاً اب اضافت کا استعمال تقریباً نہیں ملے گا آپ کو میری کہانیوں میں۔ واوِ عطف کا بھی استعمال بہت کم ملے گا۔ لیکن اس کو لازمہ نہیں بننے دیا کہ گویا اپنے اوپر دروازہ بند کرلیا کہ اضافت کسی صورت استعمال نہیں کریں گے۔ تو اضافتیں مل جائیں گی، لیکن بہت کم ملیں گی۔ محاورے سے بھی بہت عمداً گُریز کیا ہے، اور میرا خیال ہے کہ کوئی محاورہ نہیں ہے ان کہانیوں میں۔ لیکن ہوں گے ضرور۔ اس کی بہرحال کوشش کی ہے کہ کوئی ایسا محاورہ نہ ہو جیسے ’آگ برس رہی تھی‘، ’موسلادھار پانی برس رہا تھا‘ یہ محاورے نہ استعمال کیے جائیں۔ یہ مجھ کو ایک سستا نسخہ نظر آیا زبان میں تھوڑی سی اجنبیت پیدا کرنے کا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ افسانے اصلاً ترجمہ ہیں کہیں اور سے۔ ’مارگیر‘ پر تو باقاعدہ ڈاکٹر محمد عقیل نے خط لکھ کر پوچھا کہ یہ آپ نے خود لکھا ہے یا کہیں سے ترجمہ کیا ہے۔ تو وہ سبب وہی تھا کہ چونکہ اس میں محاورے نہیں تھے تو زبان تھوڑی سی اجنبی معلوم ہونے لگی۔ اور اضافت وغیرہ۔۔۔ مجھ کو یہ محسوس ہوا کہ فارسی آمیز زبان ہمارے افسانوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ بھی خیال غلط ہے، اضافت کے ساتھ بھی افسانہ لکھا جاتا ہے۔ لیکن مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ اضافتیں اور باقاعدہ ادبی زبان استعمال کی جائے گی تو افسانہ مجروح ہوجائے گا کسی طرح۔ یا پھر یہ سمجھ لیجیے کہ میں لکھوں گا تو افسانہ مجروح ہوجائے گا، یوں سمجھ لیجیے کہ افسانے کی کم زوری ہوگی۔ لیکن یوں اصولی طور پر میں اس کے خلاف نہیں ہوں کہ اضافت اور محاورے افسانے میں استعمال ہوں۔ بہت سی صورتوں میں ظاہر ہے کہ محاورے کے بغیر چارہ نہیں ہوگا، خاص طور پر اگر آپ مکالمہ لکھ رہے ہیں، اور وہ مکالمہ وقت کے کسی فریم کے اندر ہے، تب تو محاورہ ضروری ہے۔ لیکن ان موقعوں پربھی میں نے محاورے سے گریز کیا ہے۔ کچھ شاید یہ سبب بھی ہو جس کی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ یہ گویا کسی مخصوص زمان و مکان میں ان کہانیوں کو فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے سے اس طرح کا کوئی اشارہ میں نہیں دینا چاہتا کہ یہ فلاں زمانے کا آدمی کا بول رہا ہے۔

سوال: آپ نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا جو میں زبان کے سلسلے میں آپ کے مخصوص روّیے کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا۔ ایک سوال اور یہ سامنے آتا ہے کہ آپ نے اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں عظیم بیگ چغتائی کا نام لیا۔ ان کو بالعموم مزاح نگار سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی کہانیوں میں مزاح تو محاوروں سے بھی کم ہے۔ یا پھر عظیم بیگ چغتائی آپ کو کسی ایسے حوالے سے پسند ہیں جو ان کی اس شہرت سے مختلف ہے۔ بہرصورت، یہ بات وضاحت طلب ہے؟

نیّرمسعود: عظیم بیگ کے بارے میں ایک تو خیر یہی کہ ان کی شہرت ہو گئی مزاح نگار کی حیثیت سے، لیکن ان کی بہت سی کہانیاں ہیں اور ناول ہیں ’چمکی‘ ہے جیسے۔۔۔ تو چوں کہ وہ شگفتہ نگار تھے اور مزاح نگار تھے اس لیے ’چمکی‘ دل چسپ توبہت ہے، لیکن مزاحیہ کتاب بالکل نہیں ہے، مجھ کو خاصی ہولناک چیز معلوم ہوتی ہے اور بہت ہی سنجیدہ چیز ہے۔ میں اس کو اردو کے بہترین ناولوں میں تو ضرور ہی سمجھتا ہوں، اور اب یہ کہنے کی ہمت نہیں پڑتی ورنہ اس کو بہترین ناول بھی کہا جا سکتا ہے۔ تو وہ کسی طرح بھی مزاحیہ ناول نہیں ہے۔ ذاتی اسلوب میں، مصنف کے چوں کہ ایک طرح کی شگفتگی ہے تو مزاحیہ فقرے وغیرہ آ جاتے ہیں، سچویشن بھی کوئی مزاحیہ نہیں ہے۔ اچھا، ’سوانہ کی روحیں ‘ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اس میں تو مزاح کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ ’چاول‘ ان کا ایک افسانہ ہے جو ہر طرح سے بھیانک کہانی ہے۔ اس میں بھی مزاح نہیں ہے۔ اس طرح اور بہت سی ان کی تحریریں ہیں جو بالکل مشہور نہیں ہوئی ہیں، جو آج کل کے تجریدی افسانے کی قسم کی ہیں۔ بس یہ کہ ان کی چند چیزیں مشہور ہو گئیں جو مزاحیہ تھیں۔ اور مجھ کو تو یہ شبہ ہو رہا ہے کہ وہ شخص اصلاً مزاح نگار نہیں تھا۔ ’کھرپا بہادر‘ کا شروع کا حصہ میں نے پڑھا تو وہ بے حد مزاحیہ تحریر ہے، لیکن پوری پڑھ کے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مزاحیہ چیز نہیں ہے، خاصی سنجیدہ تحریر ہے۔ ’کولتار‘ بھی شروع مزاح سے ہوتی ہے لیکن بعد میں جا کر سنجیدہ اور سنگین ہوجاتی ہے۔ بلکہ ان کی بعض کہانیاں تجرید کے اس قدر قریب پہنچ گئی ہیں کہ لگتا ہے بلراج مین را کی لکھی ہوئی ہیں۔ بعض کہانیاں اس طرح کی ہیں۔ ’چغتائی کے افسانے‘ اور ’مضامین چغتائی‘ میں کئی چیزیں اس طرح کی ہیں۔ اور ’ساقی‘ میں ان کی جو چیزیں مختصر نثری تحریروں کے طور پر چھپی ہیں، وہ بھی بے حد منفرد ہیں۔ اصل میں یہ بے حد ذہین اور صلاحیت والے آدمی تھے عظیم بیگ۔ مگر چوں کہ مزاح نگار کی حیثیت سے شہرت ہوئی، تو انہوں نے مزاحیہ لکھنا بھی شروع کردیا۔ ایک اور ان کا ناول ہے، اس کا تو اب نام بھی لوگوں کو پتہ نہیں ہے، حالانکہ لاہور سے چھاپی تھی۔ امتیاز علی تاج نے۔ ’گورے کالے‘ کتاب کا نام تھا، جس میں یورپ سے ایک لڑکی کو بیاہ کے ایک رئیس زادہ لے آتا ہے، اور یہاں کے مسائل جو پیدا ہوئے ان کی کہانی ہے اور بہت اچھی کہانی ہے۔ اور مزاحیہ نہیں ہے۔ اور پھر یہ کہ کہانی بیان کرنے کا فن جن چند لوگوں کو ہمارے ہاں آتا ہے ان میں عظیم بیگ کا نام سرفہرست لانا ہوگا۔ یہی رفیق حسین کے ہاں بھی ہے۔ ان کے موضوعات سے کوئی بہت دلچسپی نہیں ہے مجھ کو اور نہ ان کو بہت اہمیت ہے۔ اصل چیز یہی ہے کہ جو قصہ ان کوبیان کرنا ہے، اس کو وہ کس طرح بیان کر رہے ہیں۔ اور خود بیان کرنے والے کا رویہ کیا ہے۔ تو ان لوگوں کے ہاں، کوئی بہت جذباتی تعلق اپنے کرداروں سے نہیں معلوم ہوتا ہے، یعنی تعلق ہوتا ہے، اس کا اظہار زیادہ نہیں کرتے ہیں۔ تو یہ چیز بھی مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے افسانہ نگار میں کہ وہ ظاہر کردے اپنا جذباتی تعلق کہ فلاں کردار سے مجھ کو بہت لگائو ہے اور فلاں کو میں بہت بُرا سمجھتا ہوں۔ ظاہر نہیں ہونا چاہیے، بیان میں پڑھنے والے کو یہ محسوس ہوجائے کہ یہ کردار ہم دردی کے قابل ہے یا قابل نفرت ہے۔ تو ان لوگوں کے ہاں مجھ کو یہ محسوس ہوا کہ یہ خود قاری کو بتاتے نہیں ہیں کہ یہ بہت بُرا کردار ہے۔ اس کا بھی مجھ پر کچھ اثر پڑا ہے۔ اس لیے کہ یہ ادا اچھی معلوم ہوئی ان لوگوں کی۔

سوال: دیکھیے ہم بھٹکتے بھٹکاتے افسانے کی تنقید کی طرف آنکلے۔ یہ مرحلہ سخت ہے۔ اور یہاں سے احتیاط کے ساتھ گزرنا ہو گا۔ آج کل تو افسانے کی تنقید بے حساب لکھی جا رہی ہے، خصوصاً آپ کے ہاں ہندوستان میں تو افسانے کی تنقید کا بہت کام سامنے آیا ہے، اور بہت معتبر اور مستند لوگوں نے بھی لکھا ہے۔ تو ایک ایسے افسانہ نگار کی حیثیت سے، جو خود نقّاد بھی ہے، آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟

نیّرمسعود: اب ظاہر ہے کہ جیسی تنقید ہونا چاہیے تھے ابھی تک ویسی نہیں سامنے آئی ہے۔ کچھ ہمارے ہاں افسانوی ادب کی تنقید کے اصول اور طریقۂ کار غیرہ ابھی ٹھیک سے معین نہیں ہوئے ہیں۔ شاعری پر تنقید زیادہ ہوئی ہے۔ وہ بھی ظاہر ہے کہ بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ تو افسانوی ادب پر ہمارے دوست مہدی جعفر نے کچھ شروع کی تھی تنقید، لیکن اب وہ میدان سے ہٹ گئے۔ ابھی تک تو شمس الرحمن فاروقی صاحب ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ سنجیدگی سے اور باقاعدگی سے فکشن کا مطالعہ کیا، حالاں کہ وہ اپنے کو فکشن کا آدمی نہیں کہتے ہیں۔ ان کو یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں فکشن کا ماہر ہوں، لیکن انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کو تو ہم فکشن کی باقاعدہ تنقید کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور لوگوں نے بھی لکھا ہے۔ بعض نے، ظاہر ہے، اچھا بھی لکھا ہوگا، لیکن فکشن کی تنقید میں نے پڑھی بھی نہیں ہے زیادہ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا سبب ہے اس کا، لیکن فکشن کی تنقید سے مجھ کو کوئی دل چسپی نہیں معلوم ہوتی۔

سوال: آپ کی ادبی و ذہنی سرگرمی کے دو دائرے ہیں، ایک تو آپ کے افسانوں کا، جس کے بارے میں ہم گفتگو کرتے آئے ہیں، دوسرے آپ کی علمی تحقیق، جس کا صرف سرسری حوالہ آیا۔ تو کیا یہ دو دائرے کہیں ملتے ہیں؟ یعنی آپ کی تحقیق، آپ کے افسانوں کی تعمیر یا بُنت سے کیا رشتہ رکھتی ہے؟ اس میں مدد دیتی ہے، یا حارج ہوتی ہے، یا لاتعلق رہتی ہے؟ کیا دونوں چیزیں کہیں جڑتی ہیں؟

نیّرمسعود: ہاں ! جڑتی ہیں اور مجھ کو تو یہ ایک دوسرے کو مدد دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اصل تو خیر یہ ہے کہ یہ دونوں چوں کہ بالکل الگ الگ چیزیں ہیں، تو یہ ایک دوسرے کی رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں، لیکن معاون بھی ہو سکتی ہیں۔ مجھ کو یہ معاون معلوم ہوتی ہیں۔ چوں کہ یہ سوال آپ نے بہت عمدہ کیا ہے، تو اصل یہ ہے کہ شروع میں، میں نے افسانے ہی لکھے، بچپن میں۔ وہ نہیں چھپوائے۔ بچوں کے رسالوں میں چھپے، بہت کہانیاں لکھیں اور اپنے نزدیک بہت اچھی لکھیں، لیکن ان کو چھپوایا نہیں، اور پھر کچھ دن بعد ان کو دیکھا تو وہ ظاہر ہے کہ بچکانی قسم کی چیزیں تھیں۔ اب بھی پرانے کاغذات میں دو کہانیاں خاصی طویل مجھ کو ملیں، جو پندرہ سولہ سال کی عمر کی ہوں گی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ ان کہانیوں کو چھپوا دینا چاہیے تھا، گویا اس عمر میں ان کہانیوں سے مطمئن ہونا چاہیے تھا۔ اب ظاہر ہے کہ ان کے چھپوانے کا کوئی سوال نہیں، کیوں کہ وہ بہت کچی کہانیاں ہیں۔ تو اس کے بعد جب پھر یہ غرّہ پیدا ہوا کہ میں افسانہ نگاری کر سکتا ہوں، تب کچھ لکھا وکھا۔ لیکن عین اس وقت تحقیق کے میدان میں گویا ڈھکیلا گیا مجھ کو۔ رجب علی بیگ سرور پر کام کیا۔ والد مرحوم تو محقّق تھے ہی، اور تحقیق کے اصول اور طریقۂ کار گویا ان سے پوچھے۔ تو اس میں ذمہ داری کا احساس یا جو کچھ بھی کہیے، بہت ہوتا ہے۔ تو چار پانچ سال تک رجب علی بیگ سرور پر تحقیقی کام کیا، اور ابھی اس پر ڈگری ملی بھی نہیں تھی کہ فارسی میں تحقیق شروع کر دی۔ فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کیا۔ تو یہ قریب آٹھ دس سال گویا، جب میرا خیال تھا کہ اب مجھ کو افسانہ لکھنا چاہیے وہ گزر گئے اس تحقیق میں۔ اس کے بعد پھر افسانہ نگاری شروع کی۔ تو اب گویا ذہنی تربیت یوں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری تربیت دوسری طرح کی ہوگئی، لیکن پھر افسانہ لکھنے میں مجھ کو ایک Relaxation کا سا احساس ہوا کہ اب آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں، جو جی چاہے گا ہمارا لکھیں گے، کوئی نہیں رُوک سکے گا۔ جب کہ تحقیق میں ظاہر ہے کہ ہر جملے کی جواب دہی آپ پر ہے، یہ آپ نے کیوں لکھا، یہ آپ نے کہاں سے لکھا، کس بنیاد پر لکھا، سند دیجیے، حوالہ دیجیے۔ تو ایک تو تحقیق کے بعد افسانہ لکھنے میں جو کشادگی کا اور آزادی کا تصور تھا، اس نے تو مجھ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ دوسری چیز یہ ہوئی کہ تحقیق میں آپ کو جو کچھ معلوم ہے مستند حوالوں سے، وہی آپ لکھ سکتے ہیں۔ تو اب اس میں ظاہر ہے کہ بڑی پریشانیاں ہوتی ہیں،کہ فرض کرلیجیے کہ رجب علی بیگ سرور پر لکھ رہا ہوں تو بعض بہت اہم چیزیں جو ان کی زندگی کے بارے میں لکھنا چاہیے، وہ نہیں معلوم ہیں اور اس لیے نہیں لکھیں گے، تو ایک طرح کی ناتمامی کا احساس ہوتا ہے تحقیق میں کہ یہ میں نہیں لکھ پایا۔ افسانہ لکھنے میں وہ ناتمامی کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اب افسانے میں اگر رجب علی بیگ سرور ہے میرا کردار، تو میرا جو جی چاہے گا، اس کی زندگی کے جس پہلو کو چاہوں گا اس پر لکھ دوں گا، نہیں چاہوں گا تو نہیں لکھوں گا، جس پہلو پر چاہوں گا تفصیل سے لکھوں گا، جس پر چاہوں گا مختصر لکھوں گا اس لیے کہ اس وقت گویا میدان کے بادشاہ ہیں ہم لوگ۔ تو اس لحاظ سے افسانے میں ایک آزادی اور روانی کا تصور جو ہوا اس نے فائدہ پہنچایا۔ مگر وہ رکاوٹ جو تحقیق کی ہوتی ہے، ایک پابندی ہوتی ہے کہ بس جتنی چیز معلوم ہے آپ کو صرف اسی پر لکھیے، اور اگر کسی شخص کی زندگی پر آپ لکھ رہے ہیں تو تحقیق میں بھی یہ مناسب طریقہ نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ بس یہی معلوم ہے اور اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں۔ اب جتنا آپ کو معلوم ہے، اس کو کچھ اس طرح ترتیب دے کر بیان کر لیجیے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس نہ ہوکہ آپ بالکل ہی کٹی پھٹی اور ادھوری داستان بیان کر رہے ہیں، یعنی اس میں ایک طرح کا اس طرح ربط لایا جائے کہ وہ مکمل معلوم ہو اور کوشش یہ کی جائے کہ جو چیز آپ کو نہیں معلوم، وہ نہیں بیان کی۔ اس کا نہ ہونا محسوس نہ ہو۔ تو جب تحقیقی مضمون میں اس طرح کی مشق گویا کرنا پڑتی ہے تو پھر افسانے میں یہ چیز بہت فائدہ دیتی ہے، کہ اب آپ کے پاس لاتعداد واقعات موجود ہیں، آپ واقعات کا انتخاب کیجیے اور ان پر افسانے کو قائم کیجیے۔ اس لحاظ سے مجھ کو تحقیق سے افسانے میں بہت فائدہ حاصل ہوا۔ اسی طرح افسانہ لکھنے کے بعد فرض کیجیے کہ اب تحقیق مضمون لکھنا ہے تو پھر وہی ہے کہ یہ رکاوٹ بھی بن سکتا ہے اور یہ مفید بھی ہوسکتا ہے۔ افسانے میں چوں کہ آپ نے واقعات چھانٹے لیکن بہرحال وہ واقعات تخلیقی ہیں، یہ نہیں کہ مکمل داستان حیات کسی کی بیان کررہے ہیں۔ تو تحقیق کر کے جب اُٹھیں گے تو جتنی چیزیں آپ کو معلوم ہو پائیں گی تو ان کو مرتب کرنے میں اب افسانہ مدد کرے گا۔ تو مجھے تو یہ محسوس ہوا کہ اگر افسانہ آپ سے لکھتے نہیں بن رہا ہے تو آپ ایک تحقیقی مضمون لکھ دیجیے تو پھر افسانہ اچھا لکھ سکیں گے(ہنسی) اورتحقیق نہیں ہو پا رہی تو افسانہ لکھ دیجیے، تحقیق اچھی ہوجائے گی۔ مجھے اس میں کسی قسم کی۔۔۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے چیزیں ٹکراتی ہوئی نہیں محسوس ہوئیں۔ اچھا یوں بھی یہ خیال غلط ہے کہ دو مختلف چیزیں آدمی ایک وقت میں اختیار نہیں کرسکتا۔ تمام لوگ کرتے ہی ہیں۔ قاضی عبدالودود تحقیق مضمون بھی لکھتے تھے اور برج بھی کھیلتے تھے۔ میرے والد صاحب کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور باغبانی کا بھی شوق تھا۔ تو جب باغبانی نہیں مخل ہو سکتی لکھنے میں، تو تحریر ہی کی ایک اور صنف کس طرح مُخل ہوگی؟ یہ بالکل غلط خیال ہے، ایک آدمی شاعر بہت اچھا ہے اور نثر بھی بہت اچھی لکھتا ہے تو لوگ تعجب کرتے ہیں، حالاں کہ یہ تو متوقع بات ہے، ہونا ہی چاہیے۔ جب آپ شاعر بھی اچھے بھلے ہیں تو آپ کو نثر بھی اچھی لکھنی چاہیے۔ یا یہ کہ کوئی سنجیدہ فلسفیانہ مضمون لکھتا ہے اس کی بعد وہ کچھ اور بھی لکھ سکتا ہے۔۔۔ ہم کچھ اپنے آپ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب یہ شخص گویا، مثلاً افسانہ اچھا نہیں لکھ سکے گا یا مزاحیہ تحریر نہیں لکھ سکے گا کیوں کہ وہ تو سنجیدہ اور فلسفیانہ لکھنے والا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ مفروضہ ہے۔ تو یہ دونوں کام ٹکراتے تو نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو مدد دیتے ہیں۔ مجھے تو تحقیق اور تخلیق میں کوئی تضاد نہیں محسوس ہوا۔ نہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص افسانے لکھنے لگا ہے تو اب یہ تحقیق اچھی نہیں کر سکے گا، اس کا مزاج اب جھوٹ کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ یہ فطری بات ہے کہ آپ افسانہ لکھ رہے ہیں تو آپ جھوٹ بولنے پر تُلے ہوئے ہیں اور تحقیق لکھیں گے تو سچی بات لکھیے گا۔

سوال: اگر افسانہ جھوٹ ہے اور تحقیق سچ تو جھوٹ اور سچ کے مابین جو ہوتی ہے، وہ افسانے کی تعبیر ہوگی، یہ بات تو طے ہے کہ آپ کے افسانوں میں ایک بھید ہے، اسرار ہے۔ اگر اس اسرار کی مابعد الطبیعاتی یا مذہبی تاویل کی جائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟

نیّرمسعود: اب یوں تو ظاہر ہے کہ بہت اچھا معلوم ہوگا کہ صاحب، جو میں نے نہیں لکھا، اس کی وہ تاویل کی جا رہی ہے۔

سوال: یہ سوال اس لیے پوچھا کہ کافکا کی بھی اسی طرح تفہیم کی گئی ہے۔ یعنی کئی تعبیروں میں سے ایک۔ یعنی اس کی جو تمام Anguishہے، اس کو مذہبی اصطلاحوں کے ذریعے حل کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی ایسا سلوک آپ کے افسانوں کے ساتھ بھی کیا جائے؟

نیّرمسعود: میں تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ انجام ان افسانوں کا ہونا ہے، لیکن جہں تک مابعد الطبیعات کا تعلق ہے تو اس علم سے، مجھ کو کوئی عار نہیں ہے اس کا اعتارف کرنے میں، کہ یہ علم بہت مجھ کو مشکل معلوم ہوا اور شوق کے طور پر میں مابعد الطبیعات کی ایک کتاب لے آیا تھا بہت پہلے، ترجمہ تھا لیکن میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ تو علمِ مابعد الطبیعات کیا ہے، اس کے بارے میں مجھ کو گویا کچھ نہیں معلوم۔ اب کچھ عناصر اس کے اس طرح سے آسکتے ہیں کہ وہ تقریباً ہر ایک کے ہاں آ جائیں گے۔ کوئی عام آدمی بھی کرے گا تو اس میں تھوڑا سا مابعد الطبیعاتی عنصر آسکتا ہے۔ میں نے خود اس کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح مذہبی عنصربھی۔۔۔ اول تو چوں کہ چیز شخصیت کا جزو ہے تو اس کی جھلک تو ضرور آئے گی۔ لیکن افسانوں کے وسیلے سے اس علم مابعد اطبیعات میں اضافہ کیا جائے، یا مذہب کی کوئی تاویل کی جائے، اس کی میں نے بالکل کوشش نہیں کی ہے۔ مگر یہ چیزیں۔۔۔ یہ سب کے ہاں ہوتی ہیں، یہ کوئی میری خصوصیت نہیں ہے۔ یہ اصل میں اوٹ پٹانگ پڑھنے کا بھی کچھ نتیجہ ہوتا ہے کہ کیا کیا چیزیں جھلکنے لگتی ہیں جو آدمی کوشش کر کے نہیں لاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ حقیقت، اب وہ بھی اس کو چاہے جو ہم لوگوں کی مشرقی تعلیم ہے اس کا نتیجہ سمجھیے کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ اور کوئی حقیقت مجّرد نہیں ہے، یعنی اس کے پیچھے اور اس کے بعد پورا ایک سلسلہ ہے، کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے جو ہمارے ذہن میں نہیں ہے۔ اب اگر مابعد الطبیعات کا بھی یہ مقصود ہے، تب آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں کوشش کر کے یہ چیز لاتا ہوں۔ لیکن اس کو مابعد الطبیعات کے طور پر، جیسے کہ میں نے عرض کیا مجھ کو واقفیت نہیں ہے اس علم سے، تو اس طرح تو میں نہیں لایا ہوں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ حقیقت کا ایک بہت ہی مُبہم اور پریشان کن تصور میرے ذہن میں رہتا ہے اور ایک طرح کا ربط گویا مجھ کو ہر چیز میں محسوس ہوتا ہے، اور کچھ اس میں واہمے بھی عجیب طرح کے ہیں، مثلاً یہ کہ فرض کیجیے کہ میں کہوں کہ آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو اس کا اثر یہ ہوا کہ فلاں جگہ فلاں واقعہ پیش آ گیا۔ تو بغیر ربط کے ممکن ہے اس میں کوئی ربط ہو، اور سلسلہ اس طرح جُڑتا ہو کہ دو بالکل غیر مربوط چیزوں کا، کہ وہ ایک چیز ہو تو دوسری چیز معلوم ہوجائے، جو ہم اپنی مصیبتوں کی وجہ سے نہیں سمجھ سکتے ہوں۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے۔ کچھ اس میں جو ضعیف الاعتقادی ہم لوگوں کے ہاں رہی ہے اس کا بھی دخل ہے، تو میں خود تو نہیں ہوں ضعیف الاعتقاد، لیکن ضعیف الاعتقاد لوگوں کو دیکھا بہت ہے، ان سے باتیں بہت کی ہیں۔ تو اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں مثلاً کہ بدھ کے دن سفر نہ کیجیے، وہ سفر مبارک نہیں ہوتا۔ تو یہ میرا عقیدہ نہیں ہے، لیکن یہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ممکن ہے بُدھ کے دن سفر کرنا بُرا ہو اور اس کا کوئی باقاعدہ سبب ہو۔ کوئی سلسلہ اس قسم کا ہو یا جو بدھ کے دن کو کسی نہ کسی مصیبت سے جا کے جوڑ دیتا ہے۔ اور اس میں اصل چیز جو ہو وہ بدھ کا دن ہو۔ لیکن اس کا تجزیہ کیا جائے، یہ مجھ سے ممکن نہیں ہے، اور نہ ابھی اس طرح گویا کوئی باقاعدہ مطالعہ بھی لوگوں نے کیا نہیں ہے۔ تو حقیقتوں کا ربط بیش تر جو ہے وہ ہم لوگوں کو نہیں معلوم۔ جو معلوم بھی ہے، وہ بھی عجب مبہم قسم کا ہے ورنہ یہ دو حقیقتیں ایک دوسرے سے بالکل بے تعلّق نہیں ہے کہ جو بیج آپ زمین میں بوئیں وہ بیس برس کے بعد درخت بن جائے اور اس سے بھی پھل کھائیں، تو بظاہر کیا تعلق کہ اتنا سا بیچ ہے اور اتنا بڑا درخت ہے۔ لیکن ہمارے علم نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ ہم کو سامنے کی بات لگتی ہے کہ ہم کو ہر مرحلہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ درخت بیج سے کس طرح بنا۔ لیکن جو شخص بالکل نہیں جانتا، اس کو آپ بتائیں کہ بیس سال پہلے ایک چھوٹی سی گول چیز زمین میں ڈالی گئی تھی، اور وہ یہ چھتنار درخت ہے، تو اس کو یہ نہایت ناقابل یقین بات معلوم ہوگی۔ تو حقیقتوں کا وہ سلسلہ جو چھوٹے سے بیج کو چھتنار درخت بنا دیتا ہے، وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن اس کے علاوہ اور بہت سے سلسلے ہیں جن کا ہم کو علم نہیں ہے، اور یہ ہم نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ حقیقت وقفے وقفے سے فلاں حقیقت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ لیکن یہ احساس تو آدمی کو ہوسکتا ہے کہ غالباً کوئی تعلق ہے۔ تو یہ مجھ کو بہت بچپن سے ایک وہم سا رہا ہے۔

سوال: بُدھ کے دن سفر تو مبارک نہیں، لیکن کیا بُدھ کے دن افسانہ لکھا جاسکتا ہے؟

نیّرمسعود: (ہنسی) افسانہ لکھتے ہوئے ہر دن بُدھ کا دن ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).