ہمارے معاشرے میں کوئی برائی نہیں ہے


ہم بہت معصوم قوم واقع ہوئے ہیں۔ اب تو ہماری معصومیت اس انتہاء پر پہنچ چکی ہے جہاں ہم اپنی برائیوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ اگر کبھی کوئی قسمت کا مارا ہمیں ہماری برائی بتانے کی کوشش کرے تو ہم آگے سے اسی میں دس برائیاں نکال کر اس کا منہ بند کروا دیتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر بھی ہمارا یہی حال ہے۔ آپ کسی معاشرتی برائی کے بارے میں بات کر کے دیکھ لیں لوگ اس کو کبھی پسند نہیں کریں گے۔ آپ کو دنیا کے وہ مسائل بتائیں جائیں گے جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے گزشتہ کالم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا۔ میری غلطی بس اتنی تھی کہ مجھے ایچ ای سی لاہور ریجنل کیمپس کے ویٹنگ ہال میں انسانوں اور بلی کے بچے کی ایک ساتھ موجودگی کچھ کھٹک رہی تھی۔ ٹھیک ہے انسان سماجی جانور ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جانوروں کے ساتھ ہی رہنا شروع کر دے۔ اور ایک ایسا ادارہ جو ملکی ہائیر ایجوکیشن کا ذمہ دار ہے اس کی انتظار گاہ میں بلی کا ہونا ایک بڑی لاپرواہی سمجھا جانا چاہئے۔ کمرے کے وسط میں چوکیدار بھی بیٹھا تھا لیکن اس نے اس بلی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا تھا۔ اگر اس بارے میں لکھا جا رہا ہے تو لوگوں کو بُرا کیوں لگ رہاہے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے؟

میرے اس آرٹیکل میں دوسرا ذکر ایچ ای سی لاہور ریجنل آفس کے گیٹ پر موجود بوڑھے چوکیدار کا تھا۔ میں جیسے ہی گیٹ کے قریب اپنے والد کے انتظار میں کھڑی ہوئی، اس چوکیدار کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ وہ مجھے مسلسل دیکھتا رہا جب تک کہ میرے والد نہ پہنچ گئے اور میں ان کی گاڑی میں بیٹھ نہ گئی۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے مجھے کوفت ہو رہی تھی اور میرے نزدیک اس کا یہ دیکھنا کسی ہراسمنٹ سے کم نہیں تھا لیکن ہمارے معاشرے میں اگر کوئی عورت اس ہراسمنٹ کے خلاف بولے تو اسے ہی مورد الزام ٹہرا دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو کہا جاتا ہے کہ جی میں آپ کو کیا کہہ رہا ہوں؟ ارد گرد سے دس پندرہ لوگ تماشہ دیکھنے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ بے چاری عورت چپ کر جاتی ہے۔ اب سوشل میڈیا نے سب کو بولنے کی آزادی دی ہے۔ اکثر بہادر لڑکیاں سوشل میڈیا پر ایسے شریف تاڑو مردوں کے بارے میں بولتی ہیں۔ آگے سے انہیں جو کمنٹس دیے جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ بطور قوم ہماری ذہنیت کیسی ہے۔

میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ میرے آرٹیکل چھپنے کی دیر تھی کہ ایسے ایسے کمنٹس آنے لگے کہ میں چکرا کر رہ گئی۔ مزے کی بات یہ کہ یہ سب کمنٹس مرد حضرات کی طرف سے آ رہے تھے۔ بعض مرد تو اس بوڑھے چوکیدار کے دیکھنے کی توجیہ دے رہے تھے کہ شاید آپ کی شکل اس کی بیٹی یا پوتی سے ملتی ہو جس سے ملے اسے عرصہ گزر گیا ہو وہ اس وجہ سے آپ کو دیکھ رہا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ آپ آج سے اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کے ساتھ گھر سے باہر جانا چھوڑ دیں کیونکہ ہمارے معاشرے سے زیادہ محفوظ معاشرہ تو دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ اگر جائیں بھی تو اپنے ساتھ ایک موڑھا لے کر جائیں۔ جہاں آپ کے گھر کی خاتون کو ایسے کوئی مرد دیکھ رہا ہو فوراَ سے پہلے اس مرد کے قریب موڑھا رکھ کر خاتون کو بٹھائیں اور مرد سے کہیں جی بھر کر دیکھ لو۔ کیا پتہ اسے آپ کی خاتونِ خانہ میں اپنی کوئی گمشدہ پوتی یا بیٹی نظر آ رہی ہو۔

ایسے کمنٹس کرنے والے مرد وہ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عزت صرف ان کے گھر میں بیٹھی خواتین کی ہی ہیں ۔ بات جب دوسری عورتوں کی آتی ہے تب انہیں پاکستان کسی جنت سے کم نظر نہیں آتا۔ ایک ایسی جنت جس میں جب عورتیں اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو دو چار لڑکے اسے اس کی منزل تک چھوڑ کر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ وقتا فوقتا ذو معنی فقرے بھی اچھالتے رہتے ہیں۔ اب فقرے ہی تو ہیں۔ اس پر برا منانے کی کیا بات۔ غلطی تو لڑکی کی ہی ہے۔ وہ گھر سے نکلی ہی کیوں؟ نہ نکلتی۔ عورت کا تو مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہوتا ہے۔

 اگر معاملہ دیکھنے دکھانے یا فقرے اچھالنے سے آگے بڑھ جائے تب بھی عورت کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے جی آپ سج سنور کر نکلی تھیں اب چاہے وہ بے چاری شرعی برقعے میں ہو۔ بعض مردوں نے میرے کپڑوں کو موردِ الزام ٹھہرایا حالانکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ میں نے کیا پہنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود میرے کپڑوں پر اعتراض کرنا انہوں نے ضروری سمجھا۔ ایک عورت نے برقع پہنا ہو، نقاب کیا ہو، صرف سر پر دوپٹہ لیا ہو یا بے شک مِنی سکرٹ میں ہو، کسی مرد کو کسی عورت کو دیکھنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ مردوں کے نامہ اعمال کسی عورت کے نامہ اعمال سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ کبھی یہ جواز نہیں دے سکتے کہ وہ عورت سج سنور کر آئی تھی تو میرا دیکھنا تو بنتا تھا۔ میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد حضرات عورتوں کو تو فٹا فٹ مقدس ہستیوں کی مثالیں دے دیتے ہیں اپنی دفعہ انہیں حضرت یوسف کیوں یاد نہیں آتے؟ ان مردوں کو بس عورت کا برقع کیوں نظر آتا ہے؟ کیوں یہ اپنے اعمال عورتوں کے برقع میں چھپانا چاہتے ہیں؟

کالم کا اختتام: اگر معاشرے میں آپ کو کوئی برائی نظر آئے بے شک وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو اس کے بارے میں بولیں تا کہ وہ برائی ختم ہو سکے۔ اگر آپ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے تو کم از کم ان کا ساتھ دیں جو یہ ہمت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا معاشرہ بدلے گا اور ہم ایک ترقی یافتہ قوم کہلائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).