ہم چھٹی اور ہڑتال کا بہانہ کیوں ڈھونڈتے ہیں؟


ہم لوگ کام نہ کرنے کے شیر ہیں۔ سال کے دن تین سو پینسٹھ ہوتے ہیں۔ باون اتوار تو سیدھے سیدھے نکل گئے۔ اس کے بعد تیوہاروں کی چھٹیاں ہیں، عیدیں اور مختلف قومی دن شامل کیے جائیں تو بیس چھٹیاں الگ سے وہ ہو گئیں۔ رمضان میں تقریباً ہر جگہ ہاف ڈے رہتا ہے، پندرہ وہ نکال لیجیے۔ سال کی تیس چھٹیاں عموماً ہر تنخواہ دار آدمی کو ملتی ہیں، کوئی پوری نہیں بھی لیتا پھر بھی چلیے بیس لگا لیتے ہیں۔ یہ ہو گئیں 107 چھٹیاں۔ اب بات ہو جائے فرلو کی، جو ہر آفیشل چھٹی کے ساتھ مارے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد عیدوں پر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر منگل بدھ اور جمعرات کی عید ہے تو سمجھیے پچھلے جمعے سے اگلے اتوار تک پورے دس دن کی چھٹیاں کرنا ہمارا اخلاقی حق ہے۔ بڑی عید پر پانچ دن کر لیجیے۔ تئیس مارچ، چودہ اگست یا مئی کی یکم تاریخ کو اگر سوموار پڑ گیا تو پھر ایک لانگ ویک اینڈ اور تیار ہے۔ بہت محتاط ہو کر فالتو چھٹیوں کا حساب لگایا جائے تو کم از کم دس مزید جمع کر لیجیے، 117 چھٹیاں وہ ہیں کہ جو بالکل نارمل حالات میں کی جاتی ہیں۔

سکولوں، عدالتوں اور بعض دیگر اداروں کو دیکھا جائے تو ہفتہ اتوار دونوں دن بند ہوتے ہیں۔ یعنی باون چھٹیاں اور ملا لیجیے۔ اب یہ ہو گئیں 169 چھٹیاں۔ سمجھیے آدھا ملک سال میں ایک سو ستر چھٹیاں تو بڑے آرام سے کرتا ہے۔ اس کی عادت ہماری گھٹی میں یوں پڑتی ہے کہ دوران تعلیم گرمیوں اور سردیوں میں تقریباً تین ماہ کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ وہ تین ماہ بچے کو اس حد تک کاہل بناتے ہیں کہ باقی نو مہینے اکثر وہ سکول نہ جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے ہیں۔ یہی رویہ بڑے ہوتے تک ہڈیوں میں بیٹھ چکا ہوتا ہے۔ ذرا یہ نوے دن بھی ملائیں تو معلوم ہے کیا ٹوٹل آتا ہے؟ 259… اب پورے سال میں سے یہ سب خرابات نکال دیجیے تو 106 دن کے لیے بچے کالج یا سکول جاتے ہیں۔ جو قوم سال میں ساڑھے تین ماہ پڑھنے پر یقین رکھتی ہو اس کا رویہ نوکریوں میں کیا ہو گا، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس مزاج کی جڑیں بہت دور تک جاتی ہیں۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے، فراغتے و کتابے و گوشئہ چمنے، یا پھر بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست، کھائیں گے گھی سے چاہے جائیں جی سے وغیرہ وغیرہ۔ کتاب ہو، فراغت ہو اور کسی باغ کا ایک پرسکون گوشہ ہو، زندگی میں اور کیا چاہئے۔ بابر جو کچھ کرنا ہے یہیں کر لو، دنیا میں دوبارہ نہیں آ سکو گے۔ تیسری کہاوت جو گھی والی ہے اس کا مطلب یہ سمجھ لیجیے کہ چاہے باقی ہر جگہ سے ہاتھ جتنا مرضی تنگ ہو عیش و عشرت میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے وہ سلسلہ رواں رکھنا ہے، بھلے موت آ جائے۔ تو یہ سب باتیں آج کی نہیں ہیں۔ مغل جب حکومت کرتے تھے تو کیا لاہور اور کیا دلی، ‘ست دن تے اٹھ میلے، گھر جاواں کیہڑے ویلے‘ کا حساب ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ شہد اور دودھ کی نہریں بہتی تھیں، لوگ ادھار بھی اٹھاتے تھے لیکن کام کرنا پسند نہیں تھا۔ کیا مرزا غالب، کیا یگانہ، کیا جوش صاحب، ادب کے بڑے بڑے جغادری بھی سرکار کے آگے دست سوال دراز رکھتے تھے، وجہ کیا تھی، وہی سمجھنا کہ یہ فاقہ مستی کبھی نہ کبھی رنگ لائے گی۔

کاہلی اور سستی کبھی رنگ نہیں لاتی کجا یہ کہ پوری قوم اسی رنگ میں رنگی جائے۔ موجودہ حالات بڑی حد تک ہماری آرام پسندی کا شاخسانہ ہیں۔ کالج کے دنوں میں کسی طلبا جماعت سے تعلق رکھنے والے جب ہڑتال کرانے آتے تھے تو کلاس روم کے باہر سے دس بندوں کا ایک گروپ سٹرائیک کے نعرے مارتا ہوا گزرتا تھا اور دو ڈھائی ہزار لوگوں کا ادارہ فوری طور پر تمام سرگرمیاں بند کر دیتا تھا۔ کیا ٹیچر کیا بچے، سبھی خوش ہو جاتے تھے، سوال یہ ہے کہ گھر جا کے کرنا کیا تھا؟ آرام؟ کتنا آرام کرنا ہے بھائی، 106 دن میں سے بھی ہڑتالیں ڈالی جائیں تو ساٹھ ستر دن کی پڑھائی کیا اکھاڑ لے گی؟

ہو گا یہ کہ جو پروڈکٹ وجود میں آئے گا وہ بات بات پر ہڑتال، چھٹی، جلوس یا سٹرائیک کے بہانے ڈھونڈے گا اور چونکہ مزاج شریف میں آرام کوٹ کوٹ کے بھرا ہو گا اس لیے ہر منزل پانے کے لیے یہی رستہ ناپا جائے گا۔ اس وقت لوگوں کو سڑک پر نکالنا کتنا آسان ہے، آئے دن کے مظاہروں میں ہم سبھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ فرسٹریشن نہیں ہے، اس کی وجہ وہ سوچ ہے جو ہمارے دماغ میں پک چکی ہے کہ سیدھا طریقہ کبھی بھی مناسب نہیں ہوتا، جو ہو گا “سٹرائیکس” یا عدم تعاون کی دوسری شکلوں سے حاصل ہو گا۔

کاروباری برادری یہ سب کچھ نہیں چاہتی۔ جو اپنی جیب سے پیسہ لگاتا ہے اور کاروبار شروع کرتا ہے وہ دن رات اسی کی دھن میں ہوتا ہے۔ تاجر ایک ڈرا سہما ہوا سا ایسا پرندہ ہوتا ہے جس کا رنگ پرواز سے پہلے ہی زرد ہوتا ہے۔ وہ چھٹیاں کم سے کم کرنے کی ترکیبیں سوچتا ہے، وہ سوچتا ہے کام کیسے بڑھایا جائے، کاروبار کیسے پھیلائے جائے اور اس سب سوچ کے درمیان کہیں پتہ بھی کھڑکتا ہے تو وہ چوکنا ہو جاتا ہے۔ مکمل الرٹ ہو کر دوبارہ کام شروع کرتا ہے۔ اگر یہ پتے بار بار کھڑکیں تو پھر وہ سیزن شروع ہوتا ہے جسے مندی کا سیزن کہا جاتا ہے۔ جس میں تجارت کے توازن سمیت ہر چیز کا ستیاناس ہوتا ہے۔ معیشت موجودہ دور کے ہر سیاسی نظام کی سردار ہے۔ مالی حالات پتلے ہوں تو کوئی سا بھی نظام ہو عوام یکساں تنگ رہیں گے۔ لیکن یہ بات ہم پندرہ کروڑ نوکری والے نہیں سمجھ سکتے۔ یہ معاملہ انہیں چار پانچ کروڑ تاجروں کو سمجھ آتا ہے جو ایک ایک کاروباری دن کی قدر جانتے ہیں۔ ان میں سے چند اگر ن لیگ کا ساتھ دیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی سمجھی جائے گی کہ اس جماعت پر کاروباری طبقہ نسبتاً زیادہ اعتماد کرتا ہے۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کا نمبر آتا ہے۔ باقیوں کی جہاں تک بات ہے تو کیا ایک تجارت کار کبھی ایسی جماعت کو ووٹ دے سکتا ہے جو ہر الیکشن میں تین چار سیٹیں حاصل کرتی ہو یا جو اسمبلیوں میں آنے کے علاوہ زندگی کے ہر ہنگامے پر یقین رکھتی ہو؟ ایسا نہیں ہوتا۔ تاجر بھی کبھی سٹوڈنٹ رہے ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہڑتالوں کا چسکا اگر ایک بار پڑ جائے تو ہر کام اسی راستے سے نکالا جاتا ہے۔

وکلا برادری کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے لیکن وہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں۔ ابھی جسٹس افتخار والے کیس میں ان کا جذبہ قابل دید تھا، دیگر معاملات میں بھی ان کے سرکردہ راہنما زلفِ پریشاں لیے نظر آتے تھے لیکن تا بہ کہ، جاننے والے جان گئے کہ یہ دوڑ سراب کے پیچھے ہے، جو باقی ہیں وہ آج بھی ہڑتال پر ہیں۔ منتخب وزیر اعظم سے استعفی لینے کی خواہش سر آنکھوں پر لیکن قانون دان ہی اگر ہڑتال کریں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ جمہوری طریقے سے یہ سب کام اسمبلیوں کے اندر رہتے ہوئے کیے جا سکتے ہیں۔ کل کو بس یہ ہو گا کہ اس تمام ڈی سٹیبلٹی کے بعد جب مہنگائی بڑھے گی تو الزام پھر سسٹم پر آئے گا… سسٹم چلتا کتنے دن ہے؟ سال کے 106 دن؟ افسوس یہ ہے کہ ایک برس میں اتنے دن بھی کوئی منتخب حکومت ٹک کر کام نہیں کر سکتی۔

دھیرج حضور والا دھیرج، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں ڈائس پر جوتے رکھے جائیں، بلوں کی کاپیاں پھاڑی جائیں، سڑکوں پر انصاف کے کھرے نکالے جائیں اور ٹیکسٹائل والوں کی طرح سارے تاجر ہی بنگلہ دیش، سری لنکا یا نیپال بھاگ جائیں تو بسم اللہ، جب معیشت ہی تگڑی نہیں رہنی پھر اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے۔

بشکریہ : روز نامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain