ننکانہ کی عدالت، نیک نیت تفتیش اور مغویہ کا بیان


کسی حد تک صاف رنگت، تیکھے نقوش اور حرکات و سکنات میں جوانی کا جوش۔ نوعمر لڑکی خوبصورت تھی۔ آنکھوں میں تھکن، وحشت اور بے زاری کے ملے جلے تاثرات تھے۔ وہ خالص دیہاتی انداز میں فرش پر بیٹھی تھی۔ میں نے کہا ”بولو، کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘ اُس نے بولنے کے لئے لب کھولے تو مجھے اس کے انداز میں ناگواری کی جھلک دکھائی دی۔ اس نے طوطے کی طرح بولنا شروع کیا ”میں گھر میں اکیلی تھی کہ انور اندر داخل ہو گیا۔ مجھے اکیلی دیکھ کر اُس نے پستول نکال لیا۔‘‘ جو کہانی اس نے سنائی، مجھے اُس کا علم تھا کیونکہ میں کیس فائل میں اُس کا بیان پڑھ چکا تھا۔ لڑکی کا انداز چغلی کھا رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ کمرہ عدالت میں ایک کونے میں اس کے ماں باپ فرش پر اور ساتھ کرسی پر پولیس کا ASI بیٹھا تھا، جو اِس کیس میں تفتیشی افسر تھا۔ بیان لکھواتے ہوئے لڑکی کبھی کبھار اُس طرف دیکھتی جیسے اُن سے کہہ رہی ہو کہ دیکھو میں نے آپ کی مرضی کا بیان دیا ہے۔ میں ایک مجسٹریٹ کی حیثیت سے یہ بیان لکھ رہا تھا۔ مجھے احساس تھا کہ قانون کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کو تسلی کرنی چاہئے کہ گواہ اپنا بیان بغیر کسی بیرونی دبائو کے دے رہا ہو۔

لڑکی کی کہانی ختم ہوئی تو میں نے عدالت کی طرف سے سوال کیا۔ آواز دھیمی رکھی تاکہ اس کے ماں باپ یا تفتیشی افسر نہ سن سکیں۔ ”کیا تمہیں علم ہے کہ تمہارے بیان کی وجہ سے انور کو دس سال قید ہو جائے گی؟‘‘ میری بات سن کر وہ اپنی جگہ سے یوں اُچھلی جیسے بجلی کا شاک لگا ہو۔ اچانک وہ کھسک کر میرے بہت قریب آ گئی اور سرگوشی کے انداز میں بولی ”وے اڑیا۔ اونوں بچا دیویں۔ او، بے قصور اے۔‘‘ میں نے اپنے تاثرات میں کسی تبدیلی کے بغیر دوسرا سوال کیا ”اگر وہ بے قصور ہے تو تم اُس پر اغوا اور زنا کے الزام کیوں لگا رہی ہو؟‘‘ جواب میں اُس نے اپنے ماں باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”پیو اپنی پگ مرے پیراں وچ رکھدا اے تے ماں جُنڈے پٹدی اے‘‘ (باپ اپنی پگڑی میرے پائوں میں رکھ دیتا ہے اور میری ماں میرے بال کھینچتی ہے) میں نے یہ جواب بھی درج کر دیا اور پھر کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے بعد فائل تفتیشی افسر کو تھما دی جو میری طرف خوں آشام نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

ایک گھنٹے کے بعد تھانے کے SHO میرے پاس آئے۔ میں نے اُنہیں بیٹھنے کے لئے کرسی پیش کی تو انہوں نے کہا ”سر! یہ آپ کی پہلی پوسٹنگ ہے۔ آپ کو پولیس کے کام کا زیادہ تجربہ نہیں۔ آپ نے بلا وجہ ہمارا کیس خراب کر دیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ”وہ کیسے؟‘‘ انہوں نے کہا ”سر! جوانی میں لڑکیوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے وہ گھر سے بھاگ کر شادی کر لیتی ہیں۔ ماں باپ کے لئے مشکل وقت آتا ہے۔ وہ لوگوں کے طعنوں کا کیا جواب دیں۔ وہ اغوا کا پرچہ کرواتے ہیں۔ ہم لڑکی برآمد کرکے ماں باپ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لڑکا گرفتار ہو جاتا ہے۔ لڑکی کے خاندان والوں کی عزت بچ جاتی ہے۔‘‘

اُس کی بات سن کر میں نے پورے تحمل سے پوچھا ”اور اس بے گناہ لڑکے پر اغوا اور زنا کا مقدمہ چلتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟‘‘ ” سر! یہ اُس کی قسمت ہے۔‘‘ اس نے بے زار لہجے میں کہا۔ پھر مزید وضاحت کی ”اگر وہ اچھا وکیل کر لیں تو عدالت میںکہانی کا جھوٹ نظر آ جاتا ہے۔ بس ایک دو سال کی خواری ہوتی ہے۔‘‘ میں خاموش رہا۔ SHO صاحب کب جان چھوڑنے والے تھے۔ پھر بولے ”سر! ہمارے دیہاتی کلچر میں خاندان کی ناک کٹ جائے تو قتل ہو جاتے ہیں۔‘‘ میں سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُنہوں نے وضاحت کی تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔

”سر! آج آپ کے لکھے ہوئے بیان کی وجہ سے یہ لڑکی قتل ہو جائے گی۔‘‘ میں خاموش رہا۔ وہ دوبارہ بولے ”سر! ہم نے نیک نیتی سے اچھے مقصد کی خاطر کیس بنایا ہے۔‘‘ میں پھر بھی خاموش رہا۔ میری پریشانی دیکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا۔ ”سر! اگر آپ اجازت دیں تو ہم کسی دوسری تحصیل میں کسی اور مجسٹریٹ سے دوبارہ بیان کروا لیں؟‘‘ مجھے غصہ آ گیا۔ ”تم نے ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کا سوچا بھی کیسے۔‘‘ میں چیخا۔ SHO صاحب دم دبا کر بھاگ گئے۔ جاتے ہوئے اُن کا ادھورا جملہ سنائی دیا ”سر ! اس لڑکی کی زندگی…‘‘

اِس لڑکی کا انجام کیا ہوا۔ یہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا۔ آج یہ واقعہ اس لئے یاد آیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میڈیا میں زیر بحث ہے اور یہ کیس فوجداری نظام عدل (Criminal Justice System) میں تفتیش کار، پراسیکیوٹر اور عدالت تینوں کی الگ الگ ذمہ داری نمایاں کرتا ہے۔ شروع تفتیش کار سے کرتے ہیں۔ اُسے سب سے پہلے تسلی کرنی چاہئے کہ جرم ہوا بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے نظام میں چونکہ پولیس مدعی کے ساتھ اشتراک سے مقدمہ درج کرتی ہے، لہٰذا عملی طور پر جرم کو ثابت کرنے کے لئے تفتیشی افسر گواہی کا انتظام بھی کرتا ہے۔

دوسرے مرحلے میں تفتیشی افسر کی مرتب کی ہوئی رپورٹ کا پراسیکیوشن برانچ میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا اُس نے اپنی ذمہ داری صحیح طور پر نبھائی ہے؟ کیا شہادت درست طور پر اکٹھی کی گئی؟ کیا جرم کو ثابت کرنے کے لئے شہادت میں کوئی مصنوعی اضافت تو نہیں کی گئی؟ کیا جو شہادت فائل پر آئی ہے اُس کے بارے میں ملزم کو موقع دیا گیا کہ وہ اُسے رد کر سکے؟ کیا ملزم کی پیش کردہ شہادت نظر انداز تو نہیں کی گئی۔ تفتیش کے دوران ملزم کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اگر اُسے تفتیش کار کی نیت پر شبہ ہو تو وہ تفتیش تبدیل کروا سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ سہولت ہر ملزم کو ملتی ہے اور جرم کی جو بھی نوعیت ہو تفتیش ملزم کی درخواست پر تبدیل ہو سکتی ہے۔

تیسرے مرحلے میں پراسیکیوشن برانچ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شہادت فائل میں آئی ہے وہ اِس قابل بھی ہے کہ جرم ثابت ہو سکے۔ اگر پراسیکیوشن برانچ کو اعتماد نہیں ہوتا تو کیس واپس کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اِس مرحلے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اِس کے لئے ڈسٹرکٹ اٹارنی کا دفتر ہے جو مکمل آزاد اور کسی کے ماتحت نہیں ہوتا۔ تفتیش کرنے والوں کی اِس دفتر سے جان جاتی ہے۔

نیب کے قانون میں بھی پراسیکیوٹر کی منفی رپورٹ کسی کیس کو سرد خانے میں ڈال سکتی ہے۔ قانون میں اِس قسم کے تحفظات ضروری سمجھے گئے کیونکہ تفتیش کار اگر ایسی شہادت کو نظرانداز کر دے جو ملزم کو بے گناہ ثابت کرتی ہو، تو انصاف کا خون اس مرحلے پر ہی ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی یہ اصول طے کیا ہوا ہے کہ اچھی تفتیش کے بغیر انصاف کا حصول ناممکن ہے۔ جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ کے بارے میں قانونی ماہرین نے میڈیا پر تبصرے کیے ہیں۔ نظام عدل میں دلچسپی رکھنے والے، مندرجہ بالا تسلیم شدہ اصولوں کی روشنی میں جے آئی ٹی کی تفتیش کے معیار بارے خود جانچ کر سکتے ہیں۔

قارئین یقیناً اُس لڑکی کے انجام کے بارے میں فکرمند ہوں گے۔ وہ کیس، تفتیش کے مرحلے پر ہی خارج ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ تفتیش کار کی بدنیتی اور شہادت گھڑنے کے عمل کو پکڑ لیا گیا تھا۔ یہ واقعہ 1979ء کے دوران ننکانہ صاحب تحصیل میں پیش آیا۔ SHO صاحب کی وارننگ کی وجہ سے میں لڑکی کی زندگی کے بارے میں فکرمند تھا۔ اسی وجہ سے اس کیس کا ذکر مرحوم رائے منصب سے کیا جو ایک خوش لباس اور خوش اطوار عوامی نمائندے اور وکیل تھے۔ اُن کی کوشش سے والدین نے اُس لڑکی کی شادی اُسی لڑکے سے کر دی جسے تفتیش کار نے ملزم قرار دیا تھا۔

بشکریہ: روز نامہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood