عوامی نمائندوں کی نا اہلی: ماضی کے جھروکوں سے


پاکستان میں عوامی نمائندوں اور سیاستدانوں کی عدالتی یا ریاستی جبر سے نا اہلی نیا معاملہ نہیں۔ بدقسمتی سے اپنی تاریخ پر نظر نہ ہونے کے باعث ہمارا دائروں میں سفر جاری ہے۔ عوامی نمائندے اور مقبول و مضبوط سیاستدان ہمارے مقتدر حلقوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ قیام پاکستان کے آغاز سے ہی عوامی نمائندوں کی قانونی نا اہلی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں جنرل ایوب خان کے زیر صدارت پہلے مارشل لا کے قوانین کا مطالعہ بہت دلچسپ اور ضروری ہے۔

جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگاتے ہی ابتدائی کام یہ کیا کہ تمام سیاسی اور نمائندہ قومی، صوبائی اور لوکل اداروں کو ختم کر کے سیاسی جماعتوں بشمول سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ ان ابتدائی کاموں میں سے ایک بڑی تعداد میں نامی گرامی سیاستدانوں کو مارشل لا کی مخالفت اور دفاع پاکستان کے خلاف کام کرنے کے جرم میں گرفتار کرنا بھی تھا۔ 1959 میں جنرل ایوب خان نے اپنے فرمان کے ذریعے ایبڈو کا قانون نافذ کیا جو Elected Bodies Disqualification Order کہلاتا تھا۔

ایبڈو کے تحت وہ تمام سیاستدان دسمبر 1966 (سات سال کے لئے) تک نا اہل قرار پائے جن کو کبھی نہ کبھی دفاع پاکستان، خارجہ امور یا قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں ریاستی پروانہ جاری کیا گیا ہو یا اس جیسے دیگر قوانین کے تحت سزا دی گئی ہو۔

ایبڈو کےمطابق جس سیاستدان کو بھی ایبڈو کے تحت نوٹس ملتا اس کے لئے ’’اختیار‘‘ تھا کہ دسمبر 1966 تک سیاست، سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن لڑنے سے رضاکارانہ علحدگی اختیار کر لے اور سزا سے بچ جائے۔ اگر وہ یہ رضاکارانہ علحدگی اختیار نہ کرتا تو ایبڈو قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہوتی۔ اس کارروائی کے لئے صدر ایوب نے اپنی مرضی کے تین ٹریبونل بنائے جن کی سربراہی ہائی کورٹ کا جج کرتا اور دو ممبران میں سے ایک آرمی افسر جبکہ ایک سول بیوروکریسی میں سے ہوتا۔ ان ٹریبونلز کی مدد کے لئے ان کوائری کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو آرمی افسران پر مبنی ہوتیں۔

حسن ظہیر نے ہربرٹ فیلڈمین، جس نے ایوب خان کے دور حکمرانی کی مفصل تاریخ تین جلدوں میں لکھی ہے، کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایبڈو قانون کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان کے 78 چوٹی کے سیاستدان الیکشن لڑنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نا اہل قرار پائے اور دوسری اور تیسری صف کے 6000 کے قریب سیاسی قائدین اور کارکنان بھی اس قانون کی زد میں آئے۔ اس قانون کا خاص نشانہ مشرقی پاکستان بنا اور وہاں کی سیاسی تنظیموں بشمول عوامی لیگ پر پابندی لگی اور سیاسی راہنماؤں کو قید کیا گیا۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی، سابق وزیر اعظم پاکستان کو 1962 میں اسی قانون کے تحت پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے ’’جرم‘‘ میں کراچی سے گرفتار کیا گیا اور نا اہل قرار دیا گیا۔

1962 میں اپنی مرضی کا آئین بنا لینے اور اپنی نگرانی میں الیکشن کروا لینے کے بعد جب بالواسطہ منتخب ہونے والی اسمبلی وجود میں آئی تو مشرقی و مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے ایک سیاسی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے بنایا۔ اس اتحاد کو فرنٹ، یعنی تحریک، کا نام اس لئے دیا گیا تاکہ یہ سیاسی جماعت قرار پا کر ایبڈو کی زد میں نہ آئے تاہم آمریت زدہ ملکوں میں قانون، آئین اور عدالتیں آمر کی لونڈیاں ہوتی ہیں، ایوب خان نے صدارتی فرمان کے ذریعے ایبڈو میں ترمیم کر کے سیاسی تحریک کو بھی سیاسی جماعت کے معنی میں شامل کر لیا اور اس تحریک پر بھی پابندی لگا دی۔

سیاست اور سیاستدان ہر قسم کی آمرانہ چکی سے پس کر پھر میدان عمل میں واپس آ جاتے ہیں۔ ایوب نہیں رہا، سیاست آج بھی باقی ہے۔ تاہم جرنیلی ہتھکنڈے آج بھی زندہ ہیں۔ ملکی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہوتا ہے کہ آج بھی کچھ عناصر آئین کے آرٹیکل 184(3) سے وہی کام لینا چاہتے ہیں جو جنرل ایوب خان آج سے 60 سال قبل ایبڈو سے لیا کرتا تھا۔ دائروں کا سفر جاری ہے جسے ہم ہر دور میں انقلاب اور احتساب کے نام پر سنتے چلے آئے ہیں۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi