ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں۔۔۔


\"wisiپیار میں اکثر پریمی پہلے جھگڑا کرتے ہیں مگر پھر آہیں بھرتے ہیں، لتا منگیشکر کا یہ گانا میاں صاحب کو پتہ نہیں کتنا پسند آیا کہ انہوں نے اٹھا کر اقبال ظفر جھگڑا کو گورنر پختون خوا لگا دیا۔ اچھے  دہی بھلے کھلانے پر نوازشریف کو صدارت دان کرتے تو سب نے دیکھا۔ لیکن مچھلی کے چپل کباب کھلانے پر پشاوری ممبر اسمبلی  کو وزارت ملنے کا اتنا ذکر نہ ہو سکا۔

کپتان کو الیکشن سے عین پہلے اس کے چاہنے والوں نے قلابازی لگوا دی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم سے کپتان بچ بھی گیا اور سہہ  بھی گیا، بظاہر ٹھیک بھی ہو گیا، بس اتنا ہوا کہ دھاندلی پر اس کی سوئی اٹک گئی، اس مسئلے پر پورا سال حکومت کو آگے لگائے رکھا کہ اسے بتایا جائے کہ مسلم لیگ نون کے ووٹ ستر اسی لاکھ سے ایک دم ڈبل ہو کر ڈیڑھ کروڑ کیسے ہو گئییے۔ یہ تو سیدھی سیدھی دھاندلی ہے۔

کسی نے کپتان کو یہ بتانے کی زحمت نہ کی کہ پشاور ویلی کے پانچ اضلاع میں مسلم لیگ نون کے ووٹ بنک میں تین سے چار سو فیصد تک اضافہ ہوا۔ اتنے اضافے کے باوجود مسلم لیگ نون کپتان کے سونامی میں بہہ گئی۔ پشاور ویلی کے پانچ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی دو سیٹ ہی لے سکی۔ یہ دو عدد ایم پی اے بھی خوار ہی پھر رہے ہیں، پختون خوا نوازشریف کی ترجیحات میں دور دور تک شامل نہیں ہے۔

وادی پشاور، مالاکنڈ ڈویژن، جنوبی اضلاع اور ہزارہ۔۔۔ یہ پختون خوا کی پرانی سیاسی تقسیم ہے۔  وادی پشاور میں اکثریت لینے والا ہی حکومت بناتا ہے۔ مسلم لیگ نون پشاور ویلی سے اے این پی کو ساتھ ملاتی تھی، خود ہزارہ سے اکثریت لاتی تھی اور جنوبی اضلاع مالاکنڈ ڈویژن سے جو مل جاتا اس پر صبر شکر لیا کرتی تھی۔ پشاور کی وزارت اعلیٰ کا راستہ پشاور وادی کے پانچ اضلاع سے ہی جاتا ہے۔ جہاں پر سیاسی لحاظ سے مسلم لیگ نون ایک بڑا سا صفر ہی ہے۔

\"jhagra\" دو ہزار تیرہ کے الیکشن می وادی پشاور سے مسلم لیگ نون کے ووٹ بنک میں جو اضافہ ہوا اس کی ایک وجہ تو امیر مقام کا اپنے گروپ سمیت مسلم لیگ نون میں آنا بھی تھا۔ اصل وجہ اس اضافے کی جھگڑا صاحب کی محنت ہی تھی، کارکنوں سے ان کا رابطہ اچھا تھا۔ ان کی عزت کی جاتی ہے وہ آسانی سے میڈیا اور اپنے لیگی ورکروں کو دستیاب ہو جایا کرتے تھے۔

جھگڑا صاحب کی مقبولیت سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ الیکشن کی سیاست کے بھی ماہر ہیں۔ اگر وہ کونسلر کی سیٹ پر الیکشن لڑیں تو گھڑمس مچا دیں گے مخالفین کو دانتوں پسینہ آ جائیے گا لیکن جیت کر ہرگز انہیں بدمزہ نہیں کریں گے۔ ناظم کی سیٹ پر وہ بڑے اطمینان سے تیسری یا چوتھی پوزیشن پر قناعت کر لیں گے۔ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑتے ہیں، ہارتے ہیں پھر لڑتے ہیں، پھر ہارتے ہیں، آئندہ لڑیں گے اور پھر ہاریں گے۔

جھگڑا صاحب اس کے باوجود بھی ہارتے رہے ہیں کہ جب وہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر کھڑے ہوتے تو صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر مسلم لیگ نون کے امیدوار کی پیپلز پارٹی بھی حمایت کیا کرتی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب مسلم لیگ نون اور پی پی حالت جنگ میں رہا کرتی تھیں۔

جھگڑا صاحب کے کچھ کمالات ہیں جو ان کے لیڈر کو پسند ہیں۔ ایک تو پارٹی سے ان کی غیر متزلزل وابستگی۔ دوسرا پشتو ہندکو ایک ہی روانی سے بولنا، نوازشریف اور جھگڑا صاحب آپس میں پنجابی ہندکو میں گپ شپ کرتے ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جس سرور پیلس میں نواز شریف نے جلاوطنی کاٹی وہ پیلس جھگڑا صاحب ہی کی نگرانی میں بنا تھا۔ جھگڑا صاحب اس تعمیراتی کمپنی میں انجنیئر ہوا کرتے تھے اور تب سعودیہ میں رہتے تھے۔

جھگڑا صاحب کی سسرال مہمند ایجنسی کی ہے تو وہ قبائل سے اچھی طرح واقف ہیں۔ خیبر ایجنسی کے کچھ بہت ہی اہم گھرانوں سے ان کے بڑے مضبوط تعلقات ہیں۔ انہی تعلقاات کو نبھاتے ہوئیے جھگڑا صاحب ایک بار مردانہ وار چوھدری نثار سے بھی جھگڑ چکے ہیں۔

فاٹا کے حوالے سے اس وقت اہم فیصلوں کا وقت قریب ہے۔ ایسے میں گورنر ’’ان کا‘‘ نمائندہ ہوتا تو بہت اچھا تھا۔ کافی حد تک میاں صاحب کا موڈ بھی یہی تھا کہ ’انہی‘ کا نمائندہ گورنر بنا لیا جائیے۔ پھر ہوا یہ کہ مریم نواز نے سیدھا سیدھا ایک ہی سوال پوچھا کہ آئندہ پختون خوا میں سیاست کرنی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کرنی تھی جب کرنی ہے تو پھر وادی پشاور اہم ہے۔ یہاں سے مسلم لیگ نون کے پاس جھگڑا صاحب ہی پہلوان ہیں۔

انہیں میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ گورنری ملنے کے بعد جھگڑا صاحب کی کسل مندی بھی دور ہو جائیے گی اور ورکر بھی چارج ہو جائییں گے۔ مسلم لیگ نون الیکشن موڈ میں جا چکی ہے۔ اب اس کے تمام فیصلے اگلے الیکشن کے ہی تناظر میں ہوں گے۔ جس کو اپنا دل خوش کرنا ہے وہ شوق سے مصطفی کمال کی پریس کانفرنس پر اسٹیبلشمنٹ کو لتاڑتا رہے۔ کسی کو اگر سیاست سمجھنی ہے تو بس اتنا کر لے کہ یہ پتہ کرے کہ گورنر پنجاب کراچی میں کب سے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

بس اتنا جان لیں کہ نوازشریف نے ایسے ہی نہیں جھگڑا کر لیا ہے۔ کچھ سوچ کر ہی انہیں گورنر بنایا ہے۔ محبوب خزاں نے کہا تھا

حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں

ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments