ایدھی کے پنگھوڑے کے ”حرامی“ بچے


چند دن پہلے فیصل ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کا انٹرویو آپ ہم سب پر پڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے پنگھوڑے میں ڈالے گئے بچوں کے متعلق ایک دل دکھا دینے والی ہولناک حقیقت بتائی۔ عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ تمام نوزائیدہ بچے جنہیں پنگھوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے، رشتہ مناکحت سے باہر پیدا ہوتے ہیں اور گناہ چھپانے کے لئے انہیں اپنانے سے انکار کر کے چپ چاپ ایدھی کے پنگھوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن فیصل ایدھی بتاتے ہیں کہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ برا ہے جو ہم میں سے کچھ زیادہ نیک لوگ سمجھ رہے ہیں۔

فیصل ایدھی بتاتے ہیں کہ جب حمل ٹھہرا ہو اور طلاق ہو جائے، تو ایسے میں ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کرانا عام ہے۔ لیکن اگر حمل کی مدت زیادہ ہو تو اسقاط حمل کی آپشن باقی نہیں رہتی کیونکہ اس میں ماں کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ رویہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ بچے کو پیدائش کے بعد یا تو قتل کر دیا جاتا ہے، یا اسے ایدھی کے پنگھوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے اور ماں باپ اس گوشت کے لوتھڑے کو بھلا کر اپنی نئی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ فیصل صاحب کے اس چونکا دینے والے بیان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بچے کی ذمہ داری سے ماں جان چھڑانا چاہتی ہے۔ پیدائش کے بعد باپ کے حوالے نہ کرنے کی وجہ شاید انتقامی جذبہ ہوتا ہو، یا پھر ماں باپ دونوں ہی بچے کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہوتے ہوں۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو، ایسے بدقسمت بچوں کا نصیب یہی ہوتا ہے کہ وہ کچرا کنڈی میں پھینک دیے جائیں یا ماں کے دل میں انسانیت کی کچھ رمق باقی ہو تو ایسے بدنصیب بچے کو ایدھی کے پنگھوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اس کی ولدیت میں عبدالستار ایدھی کا نام لکھا جاتا ہے۔

جب عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا، تو ایکسٹرا نیک لوگوں کی طرف سے ان کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ اس میں ایک بڑا الزام یہ بھی تھا کہ ”ایدھی حرامی بچوں کو پالتا ہے۔ ان بچوں کو جینے کا حق نہیں ہے“۔ آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ ایدھی تو ایسا فرشتہ تھا جو ہر ذی روح کو گلے سے لگاتا تھا، اسے بھی جسے اس کے اپنے نکاح یافتہ ماں باپ مار ڈالتے ہیں۔

ایدھی سینٹر ایسے بچے بھی لیتا ہے جنہیں لینے کو کوئی دوسرا ادارہ تیار نہیں ہوتا۔ حتی کہ سرکاری ادارے بھی ایسا کرنے سے دامن چراتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی معذور بچے ہوتے ہیں جنہیں ان کے اپنے ہی مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ بسا اوقات تو یہ بچے اتنی ذہنی صلاحیت بھی نہیں رکھتے کہ نجاست سے خود کو صاف ستھرا رکھ سکیں یا خود سے کچھ کھا پی بھی سکیں۔ ایدھی ان کو بھی قبول کرتا ہے۔ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ”ایسے ایبنارمل جن کو کوئی نہیں لیتا ان کو ایدھی لیتا ہے۔ ہم کسی کو انکار نہیں کرتے۔ اگر ہم منع کریں گے تو یہ سڑکوں پر مر جائیں گے۔ ایدھی سینٹر زندہ یا مردہ کسی بھی انسان کو لینے سے انکار نہیں کرتا ہے اور ہر ایک کو قبول کرتا ہے چاہے جیسی بھی حالت ہو“۔

گزشتہ دنوں عین رمضان میں ایدھی سینٹر لاہور میں رکھے گئے ایسے ہی دو بچوں کی ویڈیو وائرل ہوئی اور ویڈیو بنانے والی اوور ایموشنل قسم کی خاتون نے ایدھی سینٹر کو چندہ نہ دینے کی اپیل کی۔ محترمہ نے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ بلی کا بچہ کہیں سے لے کر آئیں تھی اور اسے نہایت پروٹوکول کے ساتھ رکھا اور ماشا اللہ اب نہایت صحت مند ہے، مگر یہاں ایدھی سینٹر میں انسان کے بچوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان خاتون کی رائے یہ تھی کہ ایدھی سینٹر میں ان بچوں کی حالت کتے سے بھی بدتر ہے، باہر سڑکوں پر پڑے بھکاری بھی زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان بچوں کو یہاں رکھنے سے بہتر ہے کہ ان کو مار ڈالا جائے۔

کیا یہ محترمہ اس انسانی ہمدردی کے جذبے سے مغلوب ہو کر ایدھی سینٹر سے ان معذور بچوں کو اپنے گھر لے گئیں تھیں؟ بلکہ یہ معذور بچے تو ایک طرف، کیا وہ یہاں سے کسی نارمل ذہنی حالت رکھنے والے بچے کو بھی گود لینے کے لئے تیار ہیں؟ ہم جیسے لوگ بلی کا بچہ تو پال سکتے ہیں، مگر ایسے انسانی بچوں کو پالنا جنہیں سب ٹھکرا چکے ہوں، ایدھی کا ہی کام ہے۔ اس ویڈیو کی ٹائمنگ بھی اہم ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہوتا ہے جب لوگ زکوۃ، صدقات و خیرات کے پیسے فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔ اس مہینے میں ویڈیو لانا خاص طور پر نیت پر شبہات پیدا کرتا ہے۔

کاش ان خاتون کو یہ خیال آ جاتا کہ بچوں کو مار ڈالنے کی بجائے ان جیسی درد دل رکھنے والی خواتین ان کو اپنے گھر لے جا سکتی ہیں اور زیادہ اچھی زندگی دے سکتی ہیں۔ کیا ان کے لئے انسانی بچوں سے زیادہ اہم بلی ہے؟

ان خاتون نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ بچوں کو بہت بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے۔ اگلے دن ہم خاص طور پر اسی سینٹر گئے اور وہاں بچوں سے ملے۔ بچوں کے چہروں پر خوف نہیں تھا۔ کچھ کے چہرے پر تجسس تھا اور کچھ کے چہرے پر خوشی۔ جب بچے کو ایسے ماحول میں رکھا جائے جہاں مار پیٹ ہو رہی ہو، تو ایسی خوشی چہرے پر دکھائی دینا ممکن نہیں ہے۔

ادھر ہدایت اللہ نامی صاحب نے ہمیں سینٹر کا وزٹ کرایا اور کسی بھی جگہ جانے سے ہمیں نہیں روکا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں صرف دو شہروں میں بچوں کی مستقل رہائش کا انتظام ہے، کراچی اور ملتان میں۔ باقی سینٹروں میں بچوں کو پولیس یا عام افراد لے آتے ہیں۔ ان کو عارضی طور پر چند دن وہاں رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد کراچی یا ملتان کے سینٹر میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کی مستقل رہائش کا انتظام ہوتا ہے۔

آپ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ سینٹر کی حالت واقعی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ دیواروں پر سے رنگ اترا ہوا ہے، پلستر جھڑا ہوا ہے، بس سر چھپانے کو ایک چھت، کھانا، ادویات، صاف ستھرے کپڑے اور خیال رکھنے کو خادم مہیا کیے گئے ہیں۔ ملتان اور کراچی کے مستقل سینٹروں میں سکول بھی ہوں گے اور وہاں ان بچوں کے بڑا ہونے پر ان کی شادیاں بھی کرائی جاتی ہیں۔ ہمارے ائیرکنڈیشنڈ کمرے اور نرم بستروں والی سہولت ایدھی نہیں دیتا ہے۔ لیکن ایدھی کے محدود وسائل کو دیکھتے ہوئے کیا یہ بھی بہت بڑی چیز نہیں ہے؟ اگر ہمارا دل اتنا ہی دکھ رہا ہے تو کیا ہم ایدھی سینٹر کو اس کی حالت سدھارنے کے لئے کچھ رقم نہیں دے سکتے ہیں؟ اور ادھر کی حالت پر اتنے ہی دکھی ہیں کہ آنسو نکل رہے ہیں تو کیا ہم زیادہ نہیں تو ایک کمرے کی حالت درست کرنا اپنے ذمے نہیں لے سکتے ہیں؟ ہماری قوم کی فطرت بھی عجیب ہے۔ ہم خود کچھ کرنے سے انکاری ہوتے ہیں اور جو لوگ کچھ کر رہے ہوتے ہیں ان پر تنقید کے تیر برساتے ہیں۔

اس ایدھی سینٹر میں ماں باپ اور رشتے داروں سے محروم بچوں کے چہرے پر ہمیں مسکراہٹ تو دکھائی دی، لیکن ان کی آنکھوں میں جھلکتا وہ خوف جو مار پیٹ اور جسمانی تشدد کی علامت ہوتا ہے، کہیں دکھائی نہ دیا۔ ایک جنیاتی نقص ‘Microcephaly’ کے شکار بچے اور بڑے، جنہیں عرف عام میں ”دولے شاہ کے چوہے“ کہا جاتا ہے، اس سینٹر میں راضی خوشی لئے جاتے ہیں۔ ایک نوجوان ایسا بھی تھا جس کے دونوں بازو ہی نہیں تھے۔ اس کے کھانے پینے اور اسے نجاست سے صاف رکھنے کا کام کون کرتا ہو گا؟

ایدھی ہمارے ملک کا ایک مایہ ناز ادارہ ہے۔ جو کام کرنے سے حکومت انکاری ہے، ایدھی وہ کام محبت اور خلوص سے کرتا ہے۔ آپ اس ادارے کو اپنی زکوۃ اور خیرات بھی دیں، اپنے فالتو کپڑے بھی اسے دیں اور اپنے بچوں کے وہ کھلونے بھی اس ادارے کو دیں جن سے وہ اکتا چکے ہیں۔ آپ کے بچوں کے ٹوٹے پھوٹے کھلونے بھی اس ادارے کے یتیم و یسیر بچوں کے لئے ایک بہت بڑا خزانہ ہیں۔ آپ کو دوسری دنیا میں تو جو بھی اجر ملے گا وہ ملے گا، ممکن ہے کہ آپ کے دیے ہوئے یہی چند روپے کسی دن آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے سڑک سے ہسپتال لے جا کر اس کی زندگی بچانے کا سبب بن جائیں۔

ختم شد

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar