بچے پیچھے چلے جائیں


بات ہور ہی تھی جمہوریت کی، اس کے ارتقا کی، اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی اور اس کے مستقبل کی۔ بولنے والے وجاہت مسعود اور سننے والا یہ خاکسار۔ بات ہو جمہوریت کی اور اس میں عوام کا ذکر نہ آئے، یہ ناممکن ہے۔ عوام کی بات ہوئی تو چلتے چلتے میگا پراجیکٹس پر جاپہنچی اور پھرحضرت نے تعلیم کا ذکر ایسے چھیڑا کہ میری دکھتی رگ ہی چھیڑ دی۔ میری کیا یہ ہر اس ذی شعور کی دکھتی رگ ہے جو قوم کو جہالت کے اندھیروں سے بہت دور علم کے نور سے منور دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک عرصے سے خاکسار اپنی اس رائے کا اظہار کرتا چلا آرہا ہے کہ ہماری قوم کے 95فیصد مسائل کا حل تعلیم ہے اور تعلیم کی جب میں بات کرتا ہوں تو تربیت کے عنصر کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ علم کی لیکن جب بات ہوتی ہے تو ایک طبقے کو حفظ قرآن اور درس نظامی سے آگے کچھ نہیں سوجھتا، جیسے آنکھوں پر پٹی باندھے کولہو کا بیل۔ سوچنے اور سوال کرنے کو جہاں گستاخی قرار دیا جاتا ہے، بخدا کائنات کے سربستہ راز ان سوالوں کے محتاج ہیں جن کے جواب تلاش کرنے میں سائنسدان آج بھی جتے ہیں۔

امی نے بچپن میں ایک کہانی سنائی تھی، کھیت میں بندھے بیل کو کسی بھلے مانس نے کہا چور تمھیں چوری کر کے لے جانے آئے ہیں۔ بیل نے کہا مشقت کرنی ہے اور چارہ کھانا ہے، کھیت بدل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ انسان کی بصیر ت لیکن اس سے مختلف ہے، جو صوفیا بیان کرتے ہیں، وہ معلم انسانیت ﷺکی بات یاد دلاتے ہیں ’علم مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے ملے حاصل کرلو‘۔ اس میں مدرسے اور مسجد کی کوئی قید نہیں۔ اس سے بھی واضح اور واشگاف ہدایت’ علم حاصل کرو، چاہے تمھیں چین جانا پڑے ‘۔ چین کو مگر ہم نے دہریہ قرار دے رکھا ہے۔ کوئی غور نہیں کرتا کہ چین میں کون سے دین کا علم ہے؟ عقل والے لیکن جانتے ہیں کہ چین سے علم و عمل کے جو سوتے پھوٹے ہیں انہوں نے امریکہ جیسی سپر پاورکو بھی لرزہ براندم کر رکھا ہے۔ عصر حاضر کے عظیم صوفی خواجہ شمس الدین عظیمی جب علم کی بات کرتے ہیں تو فرماتے ہیں’ بلاشبہ دین کو قوم کے لئے بھول بھلیاں بنانے والے لوگ ’ظالم اور سرکش‘ ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے کہ خالق نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور زندہ رہنے کے لئے وسائل عطا کئے ہیں ‘۔ وسائل کے بارے میں خالق کائنات اپنی کتاب میں بارہا تحقیق اور تفکر کی بات کرتا ہے۔ تحقیق اور تفکر کے بارے میں کتا ب اس سے کہیں زیادہ آیات بیان فرماتی ہے جس قدر نما ز کے لئے۔ سورة نحل کی آیت نمبر 13 ’یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اس نے تمھارے لئے پیدا کی ہیں ان میں نشانی ہے ان کے لئے جو غور و فکر (یعنی تحقیق ) سے کام لیتے ہیں‘۔ لیکن ہم ہیں کہ ہر ایجاد کو مسلم اور غیر مسلم کے ترازو میں تولتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس اورمذہب (چاہے کوئی بھی ہو)، سائنس اور قرآن یا سائنس اور صوفی ازم مختلف چیزیں ہیں۔ نہیں! ہرگز نہیں، ظالم اور سرکش ہیں وہ لوگ جنہوں نے علم کو محدود طرزوں میں قید کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علم خالق کائنات کی ایک صفت ہے اور خالق کائنات کی ذات لامحدود، لامحدود کی صفت محدودیت کی حدوں میں کیسے قید کی جاسکتی ہے۔ ممکن نہیں، اور جنہوں نے علم کو محدود کرنے کی کوشش کی تاریخ آج ان کے نام تک نہیں جانتی۔ ان مسلم سائنسدانوں کی تحقیق آج کے جدید علم کی بنیاد ہے جنہوں نے کتاب کے حکم کے مطابق رنگ برنگی چیزوں میں تفکر کیا اور مخلوق کے لئے بے شمارراحتوں کے در کھلے۔ سائنسدانوں کو میں ولی اللہ کہنا پسند کرتا ہوں کہ یہ قدرت کے راز کھوجتے ہیں اور مخلوق کو بتاتے ہیں کہ ان کے خالق نے ان کے لئے کیا کیا نعمتیں اور راحتیں پید اکر چھوڑی ہیں۔ تحریر کی طوالت کا ڈر نہ ہوتو ان مسلمانوں کے کارنامے شمار کروں جوعلم کی تلاش میں کمر بستہ ہوگئے۔ عبدالمالک اصمعی، جابر بن حیان، محمد بن موسیٰ الخوارزمی، یعقوب بن اسحاق الکندی، ابوالقاسم عباس بن فرناس، ابوالنصر فارابی، ابن سینا اورا ن جیسے کئی اور، کائنات کو تسخیر کرنے کی راہوں پر جو چلے اور پھر علم کا نور ان پر ایسا برسا کہ آج بھی انسانیت ان کی عظمت کے گن گاتی ہے۔

افسوس کہ مسلمان نے علم سے منہ موڑ لیا اورپھر ہر نئی ایجاد مسلم اور غیر مسلم کے ترازو میں تلنے لگی۔ آج کون ہے جو یہ کہے کہ جدید علوم کے ذریعے میدانوں اور فلک بوس پہاڑوں کا سینا چیر کربنائی گئی سرمئی سڑکیں مسلمان ہیں یا کافر، آپریشن تھیٹر میں مریض کا سینہ چیر کر اس کے درد کی دوا کرنے والے نشتر کا مذہب کوئی بتا سکتا ہے؟کل تک تصویر کو بت پرستی کہنے والے آج کافر سکرینوں پر دین کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ سائنس کی حقانیت اور کتاب کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دین کے نام پر زندگی میں کسی بھی نئی چیز کو بدعت کہنے والے آج اونٹوں پر سفر کرنے کی بجائے غیر مسلموں کی بنائی گئی شاندار مرسڈیز گاڑیوںا ور جہازوں میں سفر کیوں کرتے ہیں۔ ہر گھر میں موجود ائر کنڈیشنر کیا کسی ملا کی ایجاد ہیں۔ چند منٹ کے لئے بجلی اگر چلی جائے تو ہماری جان پر بن آتی ہے، کیوں ہم نہیں سوچتے کہ یہ بجلی کس کی ایجاد ہے، بجلی سے روشن بلب ایجاد کرنے والے نے کتنے روزے رکھے، کتنے حج کئے، کتنی زکوٰة دی یہ کوئی نہیں پوچھتا لیکن یہ سب چیزیں ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔

آج سے پچاس سال پہلے کون یہ تصور کرسکتا تھا کہ دنیا کے مشرق میں بیٹھا ایک انسان ہاتھ میں پکڑے چھوٹے سے موبائل کی بدولت پل بھر میں دنیا کے مغرب میں بیٹھے ایک دوسرے فرد کو ایسے دیکھ اورسن سکتا ہے جیسے اپنے سامنے بیٹھے انسان کو۔ کیا یہ سب سہولتیں کسی وظیفے کا نتیجہ ہیں؟ ہر گز نہیں! اللہ کے قوانین میں نہ تو کوئی تبدیلی ہوتی ہے نہ تعطل۔ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کے بغیر، خالق کائنات نے ایک اصو ل عنایت کر دیا ہے کہ رنگوں سے بھری اس دنیا میں تفکر (تحقیق) کرو اور جو اس حکم پر عمل کرتے ہوئے علم کی راہ پر چل پڑا دنیا اس کے لئے تسخیر کر دی گئی۔ خالق کائنات نے کہیں بھی یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ دنیا کی ایجادات اور سہولتیں صرف مسلمانوں کے نام پر رجسٹرڈ کردی گئیں ہیں اور اس پر صرف مسلمانوں ہی کا حق ہے۔ مگر افسوس! آج ہماری توجہ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں اور میگا پراجیکٹس پر تو ضرور ہے لیکن جو اصل میگا پراجیکٹ ہے اس پر بات کرنے کا رودار کوئی نہیں۔ تعلیم ہماری ترجیح نہیں رہی تو اقوام عالم میں عزت اور وقار کی امید ہم کیسے کر سکتے ہیں۔

تعلیم کے نام پر جو کچھ ہم اپنی نسلوں کو دے رہے ہیں اس کا نتیجہ معاشرتی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ دن پہلے ایک دوست نے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو بھیجی جس میں قرآن کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا سات آٹھ برس کا معصوم بچہ مولوی صاحب (معاف کیجئے گا ان کو استاد کہنے کا یارا نہیں مجھ میں) کے تھپڑوں کی بارش کی زد میں ہے۔ واہ سبحان اللہ! کانٹوں کی فصل بو کر پھولوں کہ مہک کی تمنا دنیا میں صر ف ہم ہی کر سکتے ہیں۔ جس کھیت کی آبیاری ہم تشدد سے کر رہے ہیں وہاں امن و آشتی اور ترقی کے پھول کھلیں گے یہ امید کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ قدرت اللہ شہاب یاد آئے جن کی کتاب میں مسجد نبوی میں بچے کوڈانٹنے والے اس کرنل کا ذکر ہے جسے اس جرم کی پاداش میں مدینہ چھوڑ کر پاکستان واپسی کا حکم ملا۔ ہائے ہائے !وہ سہانا وقت، جب اللہ کے حبیب ﷺکا سر سجدے میں تھا اور ایک معصوم کندھوں پر سوار ہوا۔ سجدہ اس قدر طویل ہوا کہ صحابہ کرام کو فکر لاحق ہوئی۔ یہ تھی وہ توجہ، وہ پیار، وہ فکر، وہ شفقت جس نے حق کے لئے سر کٹانے والے کربلا کے مسافر پیدا کئے، جنہوں نے رہتی دنیا کو حریت فکر کا درس دیا۔ لیکن ہم ہیں کہ مسجد میں نماز کے وقت با آواز بلند فرماتے ہیں ”بچے پیچھے چلے جائیں“۔ یاد رکھئے جو قوم اپنے بچوں کو پیچھے دھکیل دیتی ہے اس کے نوجوان زندگی کی دوڑ میں کبھی آگے نہیں نکل سکتے اور جس قوم کے نوجوان زندگی کے دوڑ میں پیچھے رہ جائیں اس کے بزرگ زندگی کے جھمیلوں سے نمٹنے کی بصیرت کھو دیتے ہیں اور جس قوم کے ساتھ یہ سانحہ ہو جائے پھرغربت، جہالت، پسماندگی اور ذلت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).