وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوم سکتا


اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ جائے تو الگ بات ورنہ شیخ رشید اور ہارون رشید میں زیادہ فرق نہیں‘ خواہشات کی بنیاد پر پیش گوئیاں کرنا اور ایک ہی ”سورس“ سے الٹی سیدھی باتیں سن کر آگے بیان کرنا سب سے بڑی قدر مشترک ہے۔ دونوں کو ڈیوٹی سونپی گئی ہے کہ عمران خان کے دائیں بائیں رہیں۔ فواد سے فردوس تک کئی سیاسی مسافر نیا پاکستان بنانے کے لئے تحریک انصاف کے خیمے میں گھس گئے۔ اس کے باوجود فرزند راولپنڈی اور پنڈی والوں کے خود ساختہ ترجمان کا اپنا ہی مقام ہے۔ ان دونوں کو نظر آ رہا ہے کہ شریف خاندان کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی یا ہونے والی ہے‘ ہارون رشید کو تو یہ مرض 90ءکی دہائی کے اوائل سے لاحق ہے جبکہ شیخ رشید اس عارضے میں 1999ءکے مشرف مارشل لاءکے بعد مبتلا ہوئے۔
ان عقل مندوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر معاملہ اتنا ہی سادہ تھا تو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ میں سے 2 سینئر ترین ججوں کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے سے 3 ججوں نے فوری اتفاق کیوں نہ کیا؟ جے آئی ٹی بنی اور جس طرح سے بنی وہ سب کے علم میں ہے۔ پھر اس کی رپورٹ بھی انہی خطوط کے مطابق آئی جو ماسٹر مائنڈ کے اپنے تیار کردہ تھے۔ یعنی پورے خاندان کو ہی مجرم قرار دے دیا گیا۔ تین رکنی بنچ میں سماعت کے دوران بھی ججوں کے ریمارکس کے حوالے سے واضح نظر آ رہا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا۔ کوئی شارٹ آرڈر مگر نہیں آیا اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جو کسی بھی وقت سنایا جا سکتا ہے۔ فیصلہ محفوظ کرنے کے حوالے سے آزاد تجزیہ کاروں کی غالب اکثریت اسی خیال سے متفق ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کنفیوژن اب بھی موجود ہے۔
مسلم لیگی حلقے ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی قابل ذکر تعداد بھی اس تمام مسئلے کو سول ملٹری کشمکش کے تناظر میں ہی دیکھ رہی ہے۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں کہ پاک بھارت تعلقات ‘ افغان ایشو‘ امریکہ کے ساتھ معاملات ہی نہیں بلکہ سی پیک سمیت کئی اور کلیدی امور پر بھی نواز شریف فوجی قیادت کی سوچ سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والے نواز شریف اپنی حکومتوں کی دو مرتبہ برطرفیوں اور …. جلا وطنی کاٹنے کے باوجود سدھرے نہیں۔ 2013ءکے الیکشن میں اقتدار کا ہما تیسری بار ان کے سر پر آ بیٹھا تو ایک ہی سال کے اندر چھٹی کرانے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔ گیم عام انتخابات سے قبل ہی جنرل پاشا نے شروع کر دی تھی جب ق لیگ کا کچومر نکال کر تحریک انصاف کو سپلائی کیا گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ چودھری برادران روتے پیٹتے آرمی چیف جنرل کیانی کے دربار میں حاضر ہوئے اور ثبوت بھی پیش کئے۔ جنرل کیانی نے دونوں کو ’گولی‘ کرا دی۔ 2013ءکے انتخابات میں مطلوبہ نتائج نہ مل سکے تو 2014ءکے بدنام زمانہ دھرنے ترتیب دے کر وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کے لئے مجبور کیا گیا۔ عمران خان کے مطابق منصوبہ میں جج صاحبان بھی شامل تھے۔ ہر طرح کی دھونس اور دنگے کے باوجود استعفیٰ نہ لیا جا سکا تو عارضی صلح نامہ طے پا گیا۔ دھرنوں کے دل و جان سے معاون 5 بڑے افسر ریٹائر ہو گئے۔ جنرل راحیل شریف کی پوزیشن مضبوط ہو گئی مگر فریقین کے دل صاف نہ ہو سکے۔ جنرل راحیل شریف نے آئی ایس پی آر کے ٹویٹر اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خود کو اس قدر پروجیکشن دلوائی کہ سول حکومت کہیں دب کر رہ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کنٹرولڈ نجی ٹی وی چینلوں پر زیادہ تر چھچھورے اور غیر صحافی اینکروں کے ذریعے شریف خاندان کی مسلسل کردار کشی کی جائے ۔یہ نہایت مضحکہ خیز صورتحال تھی کہ اشتہارات اور دیگر مفادات کے لئے حکومت کے آگے لیٹنے کو فخر تصور کرنے والے کئی ادارے وزیراعظم ہی نہیں خواتین سمیت ان کے پورے خاندان کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ گالیاں تک دی جاتی رہیں۔ حکومت اور آزاد میڈیا ہی نہیں بلکہ عوام کی بڑی تعداد بھی واقف تھی کہ یہ سب کون کرا رہا ہے ۔وزیراعظم نے مجبوری یا حکمت عملی کے تحت صبر کی پالیسی اختیار کی مگر تعلقات میں مزید کڑواہٹ گھل گئی۔ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو توسیع کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ منصوبہ یہی تھا کہ توسیع حاصل کر کے سول حکومت کا مزید بینڈ بجایا جائے۔ اسی دوران پانامہ لیکس اور ڈان لیکس وغیرہ کے معاملات بھی سامنے آ گئے۔ وزیراعظم نواز شریف ٹس سے مس نہ ہوئے تو دھرنا ٹو اسلام آباد لاک ڈاﺅن کے نام سے ترتیب دیا گیا ۔یہ بھی سچ ہے کہ اس دوران جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم سے براہ راست ملاقات میں استعفیٰ طلب کیا تھا مگر ان کی مراد بر نہ آئی۔
دھرنا ٹو کا منصوبہ حکومت نے سول ادارے استعمال کر کے لپیٹ ڈالا۔ جنرل راحیل شریف رخصت ہو گئے۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے پانامہ کیس سماعت کے لئے منظور کر لیا۔ کیس کی سماعت کے دوران کئی دلچسپ ریمارکس سامنے آئے۔ کبھی یوں لگا کہ تمام درخواستیں خارج کر دی جائیں گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی کا تاثر اس وقت یکسر ختم ہو گیا جب ڈان لیکس کی رپورٹ کو فوجی ترجمان نے مسترد کر کے گویا حکومتی رٹ ہی ختم کر ڈالی۔ سول حکومت ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی کی جانب سے بھی شدید ردعمل آیا تو متنازعہ ٹویٹ واپس لے لیا گیا۔ یہ کسی کی فتح یا شکست نہیں تھی بلکہ ایک صائب فیصلہ تھا مگر ایک فریق نے اسے ہزیمت تصور کیا۔ پانامہ کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کیسے بنی ‘اس میں سپریم کورٹ کے حکم سے ہی مگر غیر سویلین افسران کا رول کیا تھا ‘یہ سب باتیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے ساتھ مفتوحہ میڈیا کو بتا دیا گیا کہ خبریں کس انداز میں چلانی ہیں ۔ ایک موقع پر فوجی ترجمان نے یہ کہہ کر جے آئی ٹی رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ ٹیم میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان نے اپنا کام نہایت دیانتداری سے سر انجام دیا۔ بہرحال اب عدالتی فیصلے کا انتظار ہے اس کے بعد ہی حالات کے اگلے دھارے کا تعین ہو سکے گا۔ ایسی ٹھوس اطلاعات موجود ہیں کہ اس تمام گھڑمس کے دوران وزیراعظم کو ایک بار پھر مستعفی ہونے کا پیغام دیا گیا‘ یہ بھی کہا گیا کہ آپ استعفیٰ دے کر اپنے خاندان کے کسی فرد کے سوا جس کو بھی وزیراعظم بنائیں گے اسے قبول کر لیا جائے گا۔ حکومت اور اسمبلیاں مدت پوری کریں گی۔ وزیراعظم نواز شریف ہی نہیں ان کے زیرک اتحادیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جیسے ہی استعفیٰ دیا مزید مطالبات آ جائیں گے اور یہ سلسلہ ان کی سیاست اور پارٹی کے بے توقیر انداز میں خاتمے تک جاری رہے گا۔ سو لڑ کر مرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اسی لئے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے حوالے سے جاری کردہ خبر میں وزیراعظم نے واضح کہہ دیا کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی قبول کریں گے‘ محاذ آرائی نہیں چاہتے مگر استعفیٰ کسی صورت نہیں دیاجائے گا۔
سو اب منظر کچھ یوں ہے کہ عدالتی فیصلہ وزیراعظم کو لے ڈوبا تو اسے جوڈیشل 58 ٹوبی قرار دینے کی گنجائش بن جائے گی۔ آئندہ کسی بھی وزیراعظم کو پرانے بلکہ پاٹے پرانے کیس میں عدالت طلب کر کے چھٹی کرا دی جائے گی۔ شاید نواز شریف نہیں چاہتے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام جائے کہ ان کی ممبری ہی نہیں وزارتیں اور وزارت عظمیٰ تک کسی بھی وقت عدالتوں کے ذریعے ختم کرائی جا سکتی ہے۔ یقینا یہ پیغام اسٹیبلشمنٹ کی بغل بچہ جماعتوں کے لئے نہیں پیپلز پارٹی وغیرہ کے لئے ہے جو اس وقت ڈٹ کر وزیراعظم کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید سندھ کی حد تک کوئی ڈیل بھی ہو گئی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے وزیراعظم سے بدترین منظر نامے کے بارے میں پوچھا تھا ‘تو جواب ملا ”دیکھا جائے گا“۔
عدالتی فیصلے پر پورے ملک کی نظریں ہیں اب تو خود حکومتی حلقوں کی خواہش ہے کہ اعلان جلد از جلد ہونا چاہیے۔ فرض کریں کہ وزیراعظم نااہل ہو جاتے ہیں ایسی کسی صورت میں یقینی طور پر پارٹی توڑنے کی کوشش بھی ساتھ ہی کی جائے گی۔ اگر ایم این اے اور ایم پی اے زیادہ تعداد میں لوٹے ہو گئے تو مسلم لیگ (ن) کو 2018ءکے انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر کسی حد تک پنجاب کو تحریک انصاف کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی تو مقابلہ بہرطور ن لیگ سے ہی ہو گا۔ تو کیا عمران خان کی پیش گوئیوں کے مطابق نواز شریف کو اڈیالہ جیل کی سیر کرائی جائے گی۔ نہیں معلوم ایسا کچھ ہو گا یا نہیں مگر اتنا ضرور اندازہ ہے کہ نااہل نواز شریف ‘ کمزور اور کونے سے لگے وزیراعظم سے زیادہ ”خطرناک“ ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاست اگر اسٹیبلشمنٹ کی چالوں اور عدالتی فیصلوں سے ختم ہونے لگتی تو اب تک کئی ایک تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے جا چکے ہوتے۔ مانے بغیر چارہ نہیں کہ نواز شریف نے بہت بڑی غلطیاں کیں‘ پارلیمنٹ کو نظر انداز کیا‘ ارکان اسمبلی تو کیا وزراءتک کو دھتکارا گیا ‘پارٹی تنظیم سازی پر سرے سے توجہ نہیں دی گئی۔ خوشامدی ٹولے کے نرغے میں رہے پنجاب حکومت نے بھی عوام کو براہ راست ریلیف دینے کے اقدامات کرنے کے بجائے میگا پراجیکٹس پر توجہ دی۔ ارکان صوبائی اسمبلی اور وزراءکو دوسرے ‘تیسرے درجے کے شہری تصور کیا گیا۔ بلدیاتی انتخابات کرانے کے بعد پارٹی اور حکومت مضبوط کرنے کے سنہری موقع کو گنوا دیا گیا۔ سرکاری محکموں سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکا نہ ہی گڈ گورننس کے مناظر دیکھنے کو ملے مگر انہیں ایڈوانٹیج ہے تو یہی ہے کہ دیگر جماعتوں کی حکومتوں کی کارکردگی اس سے بھی گئی گزری رہی۔ ہر شعبے میں دوست دشمن کی پہچان کئے بغیر ابن الوقتوں کو نوازا جاتا رہا ہے ۔ایسی پوری چارج شیٹ پیش کی جا سکتی ہے ویسے تو یہ غلطیاں قابل معافی نہیں مگر زمینی حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوم سکتا بس یہی ایک چیز ہے جو کسی بڑے سے بڑے دھچکے کی صورت میں بھی شریفوں کے حق میں جائے گی۔ محاذ آرائی تو ہو گی کیونکہ طاقت کا پورا کنٹرول اب شاید اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ سٹیٹسمین شپ کا مظاہرہ کون کون کرتا ہے؟۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).