یورپ اور ترکی کی مثالیں میرے کس کام کی


کبھی کبھی تو من کرتا ہے کہ پاکستان سے اٹھ کر بمعہ پورا گاؤں اٹھ کر ترکی چلا جاؤں یا پھر یورپ۔ جہاں کی عظیم کہانیاں اور کامیابیوں کے قصے ہمیں سنائے اور پڑھائے جاتے ہیں اور دل کی حسرت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بس چلتا تو ملک عزیز پاکستان کو کسی کامیاب ریاست میں ہی ضم کردینا چاہیے، سرحدیں ملیں یا نا ملیں لیکن کبھی یہ خیال بالکل ہی نہیں آیا کہ خود کو تبدیل کرنے کا سوچنے کی بجائے تبدیل ہونے کی تگ و دو کروں۔ ترک کی جمہوریت ہو یا اسلامی حکومت کا قیام ان کے جتنے بھی کارناموں میں ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم خوش قسمت قوم میں سے ہیں اور ہم پھر پاگلوں کی طرح خوشی خوشی جھوم جاتے ہیں۔ ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو مغرب کو قبلہ بنائے پھر رہا ہے اور ان کا ایمان اسلام کو چھوڑتا ہوا مغرب کی قانونیت اور جمہوریت پر اٹکا ہوا ہے، اس کی ترقی کی مثالیں روزابہ کی بنیاد پر پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ رونا دھونا آج کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے سے چلا آرہا ہے۔ انگریز ہمیں چھوڑ کر جا چکے لیکن ہم انہی مثالوں اور شاندار ماضی میں گم ہوئے جا رہے ہیں۔

ترکی کی کامیاب حکومت پر اور مغرب کی کامیاب جمہویت پر ہم ٹسوے بہائیں یا خوشی خوشی جھومیں لیکن حقیقی خوشی اس وقت نصیب ہو سکتی ہے جب وہ نظام اسے آپ چاہیں خلافت، جمہوریت، آمریت یا کوئی اور نام دے دیں۔ اب نہ تو ترکی ہمارے ملک کے مسائل حل کرنے میں اتنی دلچسپی رکھتا ہے اور نہ یورپ و امریکہ اور سعودی عرب۔ یہاں ہم صرف اور صرف پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق دیوانے بنے پھرتے ہیں۔

ٹھیک ہے امت سے محبت کرنی چاہیے لیکن سب سے پہلے تو اسلام نے اپنے قرب و جوار کو ترجیح دی ہے۔ کہیں اگر عشر زکوات دینے کا حکم ہے تو اس میں اپنے قریبی رشتے دار یا ہمسایوں کو مصارف بتایا گیا ہے۔ لیکن ہم اپنی قوم کے لیے صرف مثالیں پیش کرنے کو کامیابی کا زینہ سمجھ بیٹھے ہیں لیکن اپنے وطن کی اگر کوئی اچھائیاں ہیں انہیں جان بوجھ کر بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے ہمارے مذہبی، مسلکی یا سیاسی نظریات کی توہین ہوتی ہے اور جو خرابیاں ہیں ان کو اپنے تئیں بدلنا ہی نہیں چاہتے بس سب اپنی اپنی دانشورانہ تبصروں پر یقین کیے ہوئے ہیں۔

کرپشن کے حوالے سے ہماری یہ صورتحال ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہمیشہ اس ہوس نا مراد میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہے اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت کا حاکم بھی اپنے خاندان سمیت اس مہان پاپ کے چکر سے خود کو بچانے کی تگ و دو میں ہے۔ دلچسپ یہ بھی سن لیں پانامہ پیپرز میں صرف ایک وزیراعظم یا ان کے کاندان کا نام نہیں آیا تھا بلکہ 259 پاکستانیوں کا نام آیا تھا۔ نواز شریف صاحب اس لیے مشہور ہوئے وہ وزیراعظم تھے اور عمران خان کے لیے ایک اہم مسئلہ بھی تھے ورنہ باقی اڑھائی سو افراد تو کسی کام کے نہیں سمجھے گئے۔

ہم نے اجتماعی طور پر ہی ہمیشہ بدلنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں ہر دور مین ناکام ہوئے جس کسی نے انفرادیت کو قبول کر کے خود کو بدل لیا اور اگر استقامت پہ رہا یقین کیجیے اس نے بنیاد ضرور ڈال دی ہے۔ لازم ہے کہ اس کی انفرادیت سے اس کے خاندان، ساتھی یا کولیگ متاثر ضرور ہوئے ہوں گے اور یہ تبدیلی مستقبل مییں ایک نا ایک دن ضرور کام آئے گی۔ جس ترکی کی مثالیں روزانہ پڑھنے کو ملتی ہیں تو ان کی اس جمہوریت تک پہنچتے ہوئے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر گیا اور بالآخر وہ کامیاب ہوئے اور ترک قوم کے چند لوگوں سے پیدا ہونے والی تحریک جس کا وجود پہلی عالمی جنگ 1914ء میں مٹا دیا گیا تھا اس تحریک نے مصطفی کمال کے سیکولرازم کو اپنے ملک سے ختم کیا اور ساتھ میں آمرانہ نظام کے بھی ٹکڑے کر کے پھینک دیے۔

ایک سال پہلے جب ترک فوج نے دوبارہ شب خون مارنے کی جسارت کی تو ترک قوم نے ہی اپنی فوج کو اپنے زور بازو سے روک کر فوج کو تنبیہہ کردی کہ دوبارہ بادشاہت کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا زیادہ عرصہ نہیں تو کم از کم ایک صدی تک تو ترک فوج دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گی۔ مغرب کی تاریخ جہاں اس نے دنیا پر قابض ہونے کی کوشش کی تو وہیں علم و تحقیق کو بھی جاری رکھا لیکن ہمارا علم اب بھی صرف انگریزی زبان پر اٹکا ہوا ہے۔

مغرب کی موجودہ ترقی کا موازنہ کیا جائے تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی ترقی ہوئی۔ خیر یہ سب مثالیں دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم تو آئے روز قانون توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری تعلیم، صحت، روزگار، رہن سہن سب ایک طبقاتی تقسیم ہے۔ جبکہ مغرب، ترکی اور ترقی یافتہ ممالک میں سب کو برابری دی جاتی ہے۔ حکومت نے لاہور، کراچی، اسلام آباد میں سڑکوں پر سو، سو میٹر پر کچرے کے ڈبے لگائے ہوئے ہیں لیکن ہم عادتاً سڑکوں پر کچرا پھینکنے، سگریٹ کے ٹوٹے دالنے، پان تھوکنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر فاتح دیبل کی طرح اپنے قانون کو لتاڑتے ہوئے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔

رشوت ہمارا نصب العین بن چکا ہے لینے میں بھی دینے میں بھی اس طرح کے روزمرہ کے اور کافی معاملت ہیں جن میں ہم کرپشن کرتے ہیں اور ذاتی طور پر جانتے بھی ہیں انہیں درست کریں نا کریں کشمیر، افغانستان، ترکی، شام وغیرہ کو آزاد کرانے شدت سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ورنہ حکمران اور سیاستدان تو صرف اپنے اپنے نعروں کے لیے ہمیں سردی، گرمی میں چوک چوراہوں میں اپنے اپنے اقتدار کے لیے دھرنے اور احتجاجوں پر لگائے رکھیں گے اور ہماری آنکھیں نم ہوجائیں گی یورپ اور ترکی کی کامیابیوں پر۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).