کیا ہزارہ کمیونٹی کا قتل کوئی معنی نہیں رکھتا؟


بچپن کے دنوں میں جب ہم دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا کوئی پروگرام بناتے تو ہم سب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ جس فلم کی پوسٹر پر بہت زیادہ آگ ہو گی اور مار دھاڑ والی فلم ہوگی وہی فلم دیکھیں گے کیونکہ ہمیں اس وقت کہانی تو سمجھ نہیں آتی تھی اس لیے مرنے مارنے والی فلمیں دیکھ کر خوش ہو جاتے تھے۔

مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے ہم فلمیں تو آگ والی اور مار دھاڑ والی پسند کرتے تھے لیکن ہماری سوچ بالکل مختلف تھی ہم دوسری اقوام سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ساتھ کوئٹہ شہر کے ہر کونے میں نہ صرف ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے بلکہ کرکٹ اور فٹبال بھی کھیلنے کےلیے جاتے تھے ہم سب ایک گلدستے کی مانند رہتےتھے جہاں نفرت اور خوف کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

یہی وہ وقت تھا کہ جب ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی دوسرے برادر اقوام کی طرح کھیل کے میدانوں میں اپنا لوہا منوایا اور کئی ایسے نامور کھلاڑی پیدا کیے جنہوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں میڈلز حاصل کرکے ملک کا نام روشن کیا۔

ہر تعلیمی ادارے میں سبھی اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء و طلبات کے ساتھ ساتھ ہزارہ کمیونٹی کی بھی ایک بڑی تعداد پڑھنے کے لیے جاتی تھی اور انہی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر کسی نے آرمی میں بطور آفیسر شمولیت اختیارکر لی تو کوئی استاد، انجینیر، تو کوئی ڈاکٹر بن گیا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا میرے شہر میں رہنے والوں کی سوچ میں بھی تبدیل آتی گئی۔ گلدستے میں لگے پھول سب ایک دوسرے سے جدا ہوتے گئے اور یوں محبت کی جگہ اب نفرتوں نے لے لی۔

سوشل میڈیا پر ہزارہ نسل کشی کے حوالے سے عالمی مہم کے بارے میں علم ہوا۔ کیونکہ میرا تعلق بھی اسی قوم سے ہے تو میری ذمہ داری بھی زیادہ بنتی یے کہ اس کا حصہ بنوں۔
گذشتہ بیس سالوں میں ہزارہ قوم کے ساتھ جو ہوا اس سے قطع نظر کہ کس نے کیا، میڈیا کیوں خاموش رہا اور کس کی سرپرستی میں یہ سب کچھ ہوا۔ آج تک ان سارے واقعات کے پس پردہ عناصر کیوں گرفتار نہیں ہوئے؟

مگر میرا سوال ہر باشعور انسان اور ہر پاکستانی سے یہ ہے کہ جن جن جوانوں کا خون ناحق شہر کے ہر گلی و ہر کوچے میں بہایا گیا، کیا فرق یے اس ہزارہ جوان کے خون میں جو محاز جنگ میں وطن کی خاطر شہید ہوا اور دوسرا بھائی روڑ پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوا؟ کیا فرق ہے اس ہزارہ جوان کے پسینے میں جس نے بین الاقوامی مقابلوں میں میڈلز حاصل کرکے قوم کا نام فخر سے بلند کیا ہو جبکہ اس کا والد کسی دھماکے میں شہید ہوا؟

ہزارہ قوم کی پوری سات لاکھ آبادی دو محلوں کے صرف چند کلو میٹر کے ایرے میں محصور کردی گئی ہے، جو اب چاروں طرف سے فورسز کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ نہ روزگار کر سکتے ہیں نہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے جاسکتے ہیں۔ جہاں ہم پر تعلیمی دروازے بند ہوئے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہماری معاشی قتل عام بھی جاری ہے لیکن سب سے زیادہ تکلیف دینے والی بات یہ ہے کہ علاج کے سلسلے میں دوسرے شہر تو دور کی بات یے ہم کوئٹہ شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی نہیں جا سکتے ہیں۔

روز جب صبح کو میں گھر سے نکلتا ہوں تو ان جوانوں کے گھر راستے میں پڑتے ہیں جن کے گھر اعزازات سے بھرے پڑے ہیں۔ تو دوسری طرف ان زخمیوں اور بے سہارا لوگوں کا گھر دیکھتا ہوں جو یہاں مختلف حادثات میں بے گناہ مار دیے گئے ہیں۔ جب ہزارہ قبرستان پہنچتا ہوں تو ایک طرف ان جوانوں کی قبریں ہیں جو آزادی سے لے کر اب تک وطن عزیز کے لیے اپنی جان نچھاور کر چکے ہیں تو دوسری طرف ان بے گناہ انسانوں کی جو دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ پھر بھی مجھے یہ احساس کیوں دلایا جارہا یے کہ دوسرے مجھ سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور ہزارہ کمیونٹی کا قتل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا؟

اب تو لوگوں کی سوچ اتنی زیادہ تبدیل ہوچکی یے کہ سوشل میڈیا پر کتنی ہی اہم اور معلوماتی چیز کیوں نہ ہو مگر لائیک اور شیئر وہ ویڈیوز یا تصاویر ہوتی ہیں جس میں ہر طرف آگ ہی آگ نظر آئے۔ پہلے ہمیں نادانی کی وجہ سے کہانی سمجھ میں نہیں آتی تھی اب سمجھ آ رہا ہے کہ یہاں بھی سبھی کو آگ اور مار دھاڑ والی خبریں پسند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).