پلاسٹک کا مسواک ہولڈر


گذشتہ چار سال سے کراچی میں ایک عالمی کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایک تجارتی میلہ ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کے ناشرین اپنے سٹال لگاتے ہیں اور کتابیں بیچتے ہیں۔

راقم کو گذشتہ سال پہلی دفعہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور کیا روح پرور نظارہ تھا۔ سیکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے اس سال غیر ملکی پبلشر خال خال ہی نظر آئے لیکن اپنے ساتھ وہ جو مال لے کر آئے وہ قابل دید تھا۔

ایران کے پبلشر ہمیں فارسی اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے۔ سعودی عرب کے پبلشر عربی اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے اور ہمارے اپنے پیارے پاکستان کے پبلشر اردو اسلامی کتابیں بیچ رہے تھے۔ ہندوستان سے آنے والے کچھ ناشرین میڈیکل کالجوں کے کورس کی کتابیں بیچ رہے تھے (آپ ہندو بنیئے سے اور توقع بھی کیا کرسکتے ہیں؟ )

صرف چھوٹے بچوں کے لیے ہزاروں کتابیں ایسی تھیں جن میں انہیں اچھا مسلمان بچہ بننے کے آسان نسخے سمجھائے گئے تھے۔ درجنوں کمپیوٹر پروگرام برائے فروخت تھے جنہیں استعمال کر کے آج کے چھوٹے بچے کل کے مجاہد اور مومن بن سکتے ہیں۔ اگر تاریخ میں دلچسپی ہے تو اسلامی فتوحات کی رنگ برنگی اٹلس خرید لیں۔ اگر عورت ہیں اور صحت ٹھیک نہیں رہتی تو بیماری کے دوران اسلام کے احکامات کے بارے میں کئی جلدیں ہیں۔ اور ڈیجیٹل تسبیحاں اور الیکٹرانک قرآن تو اتنے تھے کہ کراچی کا ایکسپو سینٹر بقعہ نور لگتا تھا۔

بیچ بیچ میں کچھ نادان پبلشر شاعری اور ناول جیسی لغویات بھی بیچنے کی کوشش کر رہے تھے وہاں بھی مرحوم اشفاق احمد کے نورانی ادب کی بکری زیادہ تھی۔ لیکن سب سے زیادہ رش لینے والا آئٹم نہ کوئی کتاب تھی نہ کوئی اسلامی کمپیوٹر گیم۔ امت مسلمہ کے لیے منفرد ایجاد کے نام سے متعارف کی جانے والی یہ معرکۃ الارا ایجاد پلاسٹک کا مسواک ہولڈر تھا۔ جی ہاں۔ صدیوں سے بھٹکتی ہوئی یہ امت اس مخمصے میں تھی کہ اپنی مسواک کہاں رکھی جائے۔ اب یہ مسئلہ حل کر دیا گیا اور پلاسٹک کا کور ڈھکنے کے ساتھ ایجاد کر لیا گیا ہے۔

اس منفرد ایجاد کے لیے لگائے گئے اشتہاروں میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی تھی وہ عام طور پر اپنے ایٹم بم اور جوہری میزائلوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں چشم تصور میں وہ دن دیکھ رہا تھا جب نوجوانان اسلام ایک ہاتھ میں جوہری میزائل اور دوسرے ہاتھ میں پلاسٹک ہولڈر لیے کافروں کے چھکے چھڑا دیں گے۔

اتنی دیر میں ایک بزرگ نوجوان دکان دار کو مشورہ دیتے سنائی دیے۔ میاں اگر یہ پلاسٹک کور سبز رنگ میں بنوا لو تو سیل اور بھی بڑھ جائے گی۔ نوجوان نے مودب طریقے سے جواب دیا کہ جب اللہ کا دھندا کرتے ہیں تو منافع کا نہیں سوچتے۔ منافع کا اللہ خود سوچتا ہے سبحان اللہ۔

تو ظاہر ہے کہ اللہ کا دھندا کرنے والا کوئی دوسرا اگر آپ کو جان سے مار دے تو کم ازکم یہ موت اس سے تو بہتر ہے جو کسی ایسے کے ہاتھوں آئے جو اللہ کا دھندا نہ کر رہا ہو؟

2010۔ 02۔ 10


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).