جہانگیر ترین کے اربوں کے تحائف


سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین نااہلی کیلئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل سے اہم تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے پوچھا ہے کہ لندن میں بنائے گئے ٹرسٹ، آف شور کمپنی، اس کے شیئرز ہولڈرز، بینیفشل مالک، کمپنی کب بنی، کتنے سرمائے سے بنی اور سرمایہ باہر کیسے بھیجا گیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے دائر درخواست کی سماعت کا آغاز کیا تو درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے عدالت کو بتایاکہ آف شور کمپنی بنانے، اثاثے چھپانے، زرعی آمدن پر ٹیکس نہ دینے، ایس ای سی پی میں شوگرملوں کے حصص خریدنے میں غلط بیانی اور اننچاس ملین کا قرض معاف کرانے پر جہانگیر ترین کی نااہلی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ کیا کسی پارلیمنٹرین کی نااہلی کیلئے کوئی کیس متعلقہ فورم کے بغیر براہ راست سپریم کورٹ میں لایا جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر آج جہانگیر ترین کے خلاف درخواست آئی ہے تو پھر کل دوسرے ارکان پارلیمان کی نااہلی کیلئے بھی درخواستیں آئیں گی۔چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ دلائل دیتے وقت اس نکتے کو ذہن میں رکھیں اور بتائیں کہ آرٹیکل ایک سوچوراسی تین یعنی عوامی مفاد کے تحت سنے جانے والے مقدمے کا اسکوپ کیااور کتناہے؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ معاملہ پاناما پیپرز کاہے، میری درخواست بھی آف شور کمپنی کے بارے میں ہے اس لیے متعلقہ ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں پاناما کیس کے تناظر میں کوئی درخواست براہ راست سپریم کورٹ میں سنی جاسکتی ہے، اس نکتے پر عدالت کو مطمئن کریں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ دلائل کا آغاز جہانگیر ترین کی جانب سے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سامنے یونائیٹڈ شوگر اور جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز کے حصص میں غلط بیانی کا اعتراف اور جرمانہ ادا کیے جانے کے معاملے سے کرتاہوں۔ جسٹس عمرعطا نے پوچھا کہ کیا مزید ایسے ارکان پارلیمان بھی ہیں جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ وزیراعظم کے علاوہ اسحاق ڈار کی بھی ایسے ہی مقدمے میں سپریم کورٹ سے نااہلی مانگی گئی ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ کیا کوئی ایم این ایز بھی ہیں جن کے نام معلوم ہوں؟۔ وکیل نے کہاکہ آف شور کمپنیوں والے مزید ارکان پارلیمنٹ کے نام ان کے علم میں نہیں۔چیف جسٹس نے پوچھاکہ جن دستاویزات کی بنیاد پر درخواست دائر کی ہے وہ کہاں ہیں؟ وکیل نے کہاکہ تمام دستاویزات انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ انٹرنیٹ پر موجود دستاویزات دستخط کے ساتھ تصدیق شدہ نہیں ہوں گی۔

وکیل بولے کہ پانامہ کیس میں بھی تمام دستاویزات انٹرنیٹ سے ہی حاصل کی گئی ہیں۔میرا مقدمہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین نے شوگرمل کا ڈائریکٹر ہوتے ہوئے شیئرز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہ کیں جس کی وجہ سے دیگر حصص مالکان کو نقصان ہوا، ایسا کرنے والا صادق وامین نہیں ہوسکتا۔جسٹس عمر عطا نے کہاکہ اس کیس میں جہانگیرترین کو کسی عدالت سے سزا نہیں ہوئی۔ و کیل نے کہاکہ ترین نے خود اعتراف کیا اور ایس ای سی پی کو جرمانہ ادا کیا، میری استدعا صادق وامین نہ ہونے پر نااہلی کی ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا ان پر کہیں صادق و امین نہ ہونے کا کیس چلا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب جرمانے ادا کردیے گئے تو معاملہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا، ایسے کیس میں صادق وامین ہونے کا کیسے جائزہ لیں؟۔اگر کوئی کرایہ دار وقت پر کرایہ ادا نہ کرے اور معاملہ عدالت میں چلا جائے جہاں وہ اپنے ذمے واجب الادا کرایہ مالک مکان کے حوالے کردے تو کیا وہ بھی صادق وامین نہیں رہے گا؟۔ وکیل نے کہاکہ کرایہ بروقت ادا نہ کرنے والے کا معاملہ الگ ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ دوہزار پانچ کا معاملہ ہے، بارہ برس گزرنے کے بعداس مقدمے میں جہانگیر ترین کے صادق وامین ہونے کو کیسے دیکھیں۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حصص معلومات چھپا کر جہانگیر ترین نے لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا ہم اس کیس میں الیکشن قوانین کا اطلاق کر کے فیصلہ دیں؟۔ وکیل نے کہا کہ جس وقت جہانگیر ترین نے حصص معلومات چھپائیں اور جرمانہ ادا کیااس وقت وہ وفاقی وزیرانڈسٹری تھے، غلط بیانی کر کے لوگوں کو نقصان پہنچانے والا کسی کمپنی کے ڈائریکٹر بننے کا اہل نہیں تو عوامی نمائندہ کیسے بن سکتا ہے؟۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جو شخص صرف الزام سامنے آنے پر خود کو صاف پیش کرنے کیلئے رقم ادا کر دے غالبا وہ تو صادق شمار ہوگا۔ وکیل نے کہاکہ یہ مجرمانہ نوعیت کا معاملہ ہے کہ لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا اور ان سے فراڈ کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ مگر اس پر کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا۔ وکیل نے کہا کیونکہ وہ وزیرتھے اور جرمانہ ادا کر کے جان چھڑا دی۔ چیف جسٹس نے کہا یہی بات سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ جب اس نے جرمانہ ادا کردیا تو یہی اس مقدمے میں پرانے معاملے کا کیسے جائزہ لیں؟۔ وکیل بولے کہ ایس ای سی پی نے لکھا ہے کہ اعتراف اور جرمانہ ادا کرنا جرم ماننے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایس ای سی پی کے لکھنے سے یہ اعتراف جرم تصور نہیں ہوگا۔ وکیل نے کہاکہ یہ سیکورٹی کمیشن کا فیصلہ تھا، تین گنا جرمانہ کیا گیا، ترین نے سات کروڑ روپے کمیشن کو ادا کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب جرمانہ اداکردیا تو معاملہ ختم ہوگیا، اگر مقدمہ چلتا تو الگ بات تھی۔ وکیل نے کہاکہ سزا ہویا نہ ہولیکن ترین کا یہ فعل ہی اس کے صادق نہ ہونے کیلئے کافی ہے۔عدالت ترین کو جاری ایس ای سی پی کے شوکاز نوٹس کاجائزہ لے جس میں واضح ہے کہ جہانگیر ترین نے بورڈ میٹنگ میں یونائیٹڈ شوگرملز کے شیئرز خریدنے کی معلومات افشا نہ کی اور اس بات کا اعتراف بھی کیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ جب جرمانہ اداکردیا تو شوکاز نوٹس پر کارروائی ہی نہ ہوئی اور یو ں معاملہ ختم ہوگیا، ہم کسی کو مفروضوں پر نااہل نہیں کرسکتے۔

رکن پارلیمان کی نااہلی نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ایک ہزار پارلیمنٹرین ہیں ان میں سے کسی کو اگر ایس ای سی پی نوٹس دے تو وہ صادق اور امین نہیں۔ وکیل نے کہاکہ عدالتی فیصلے موجو د ہیں کہ اگر کوئی شخص پلی بارگین یا رضاکارانہ طورپر بھی پیسے واپس کرتا ہے تب بھی اس پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف لگے گا۔ اگر کوئی شخص لگائے گئے الزام کو چیلنج نہ کرے تب بھی وہ صادق نہیں رہے گا، ترین نے الیکشن کمیشن کے سامنے اثاثوں میں آف شور کمپنی چھپائی، دوہزارتیرہ کے عام انتخابات اور ضمنی الیکشن میں جمع کرائے کاغذات نامزدگی میں مختلف اثاثے ظاہر کیے۔ مئی دوہزار گیارہ میں بیٹے کو اڑھائی لاکھ پاﺅنڈ برطانیہ بھیجے۔ اپنے چار بچوں کو کل باون کروڑ کی رقم تحفے کے طورپر دینے کو میڈیا میں تسلیم کیا۔جسٹس عمر عطا نے پوچھاکہ کیا بچوں کو پیسے بھیجنا غیر قانونی ہے؟۔

وکیل بولے کہ یہ بھی وہی کیس ہے جیسا مقدمہ نوازشریف کے خلاف ہے۔ ان کے چارفلیٹوں پر جے آئی ٹی بنی، عدالت میں ترین نے اپنے جواب میں پیسے باہر بھیجنے کا ذریعہ نہیں بتایا۔ بیرون ملک اثاثے بنانے کے ذرائع بھی نہیں بتائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تحریری جواب میں مسٹر ترین نے کہاہے کہ آف شور کمپنی بچوں کی ہے جو خودمختار ہیں۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ ترین کہتے ہیں کہ کمپنی بچوں کی ہے اس لیے ظاہر کرنا ضروری نہ تھا۔ وکیل نے کہاکہ بچوں نے اثاثے باپ کے پیسوں سے بنائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کہاں لکھ اہے کہ بچوں کو تحفے میں دیے گئے پیسوں سے بنی کمپنی باپ کیلئے ظاہر کرنا ضروری ہے۔ وکیل نے کہاکہ یہی معاملہ تو نواز شریف کے کیس میں بھی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس مقدمے سے تقابل نہ کریں کیونکہ ہمارے سامنے اس کیس کے حقائق نہیں۔

جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ جب بچوں کو اربوں کے تحفے دیے تو پھر وہ بچے خودمختار کیسے کہلا سکتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ صرف بچوں کو تحفے نہیں دیے بلکہ ان سے رقم وصول بھی کی، عدالت میں درخواست دی ہے کہ ان تمام تحائف کا ریکارڈ منگوایا جائے، بچوں نے ترین کو آٹھ کروڑ پچہتر لاکھ کا تحفہ دیا، رقم اس لیے باہر بھجوائی اور واپس منگوائی جاتی ہے تاکہ ٹیکس سے استثنا حاصل کیا جا سکے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اس پیسے کا کوئی ذریعہ بھی ہوگا جس پر ٹیکس لگتا ہو گا۔ وکیل نے کہا کہ آمدنی کے اصل ذریعے کا پتہ نہیں چل رہا، ٹیکس اوردولت کے گوشوارے میں یہ معلوم نہیں ہو رہا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قانونی کمائی سے بچوں کو تحائف دیے اور انہوں نے کمپنی بنالی تو اس پر کیسے سوال اٹھے گا؟۔

وکیل نے کہاکہ سوال بے نامی جائیداد رکھنے کا ہے۔وکیل نے کہاکہ جہانگیر ترین نے بچوں کو ڈیڑھ ارب روپے تحفے میں دیے، ترین نے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ بیرون ملک جائیداد اس کی ہے۔ چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے پوچھاکہ شائنی آف شور کمپنی کہاں رجسٹرڈ ہے؟۔ وکیل سکندرمہمند نے کہاکہ عدالت کے تمام سوالوں کے جواب دونگا، ہدایات لینی ہیں۔دیانت داری کی بات ہے کہ کمپنی کا نام نہیں معلوم ہے۔ 2011 سے کمپنی بچوں کی ہے، اسکے ٹیکس برطانیہ میں دئے جاتے ہیں، ٹرسٹ ہے، جہانگیر ترین کا براہ راست تعلق نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ٹرسٹ کہاں بنا ہے، اسکی کوئی ٹرسٹ ڈیڈ بھی ہو گی۔ وکیل نے کہاکہ الیکشن قوانین کے تحت آمدن اور اثاثوں کے زرائع بتانا ضروری نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کتنی رقم سے یہ ٹرسٹ بنایا گیا، یہ بھی بتایا جائے۔ وکیل نے کہاکہ کل عدالت کو تمام سوالوں کے جواب دونگا، دستاویزات حاصل کر کے جمع کراونگا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ عدالت جہانگیر ترین کو تحائف سے متعلق تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جب درخواست میں بچوں کو فریق نہیں بنایا گیا تو کیا عدالت ان کا ٹیکس ریکارڈ طلب کر سکتی ہے۔ وکیل نے کہاکہ جہانگیر ترین کو اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے یہ دستاویز پیش کرنا ہوگی، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آف شور کمپنی بچوں کی ہے۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ آپ کی درخواست کی بنیادپر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ترین ہی آف شور کمپنی کے اصل مالک ہیں۔جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ بچوں کو تحائف دینے میں غیرقانونی کیاہے؟۔وکیل بولے کہ یہی تو بے نامی جائیداد بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس مفروضے کو کیسے مان لیں؟ کس بنیاد پر تسلیم کریں؟۔ وکیل نے کہاکہ پانامہ فیصلے میں عدالت نے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنائی تاکہ نوازشریف کے بچوں کی کمپنیاں بنانے کا ذریعہ معلوم کیا جاسکے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس مقدمے میں رقم کا ذریعہ جہانگیر ترین واضح ہے۔

وکیل نے کہاکہ اب ٹیکس معاملے پر دلائل دوں گا، دوہزار دس میں ٹیکس حکام نے ترین کو آمدن میں تضاد دکھانے پر نوٹس جاری کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم یہاں ٹیکس اسکروٹنی کیلئے نہیں بیٹھے، یہ ٹیکس اتھارٹی کا کام ہے، صرف آف شور کمپنی کیلئے رقم بھیجے جانے کے سوال کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بتایا جائے کہ بچوں کی جانب سے والدین کو تحائف دینا کس قانون میں منع ہے؟ پھر کہاکہ اس کو کسی خاص کیس کے تناظر میں نہ دیکھاجائے۔ یہ عدالت ٹیکس اتھارٹی نہیں اور نہ ہی ہم ٹیکس احتساب کررہے ہیں۔

وکیل نے پھر تحائف کا ریکارڈ منگوانے کی استدعاکی تو چیف جسٹس نے کہاکہ خودمختار بچوں کاریکارڈ کیسے منگوائیں؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ پراپرٹی کتنے میں بنائی گئی، اور کیا اس کیلئے وہاں مطلوبہ رقم دستیاب تھی؟۔ وکیل نے کہاکہ پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنی تاکہ تفتیش ہوسکے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ اس مقدمے اور جے آئی ٹی کو بھول جائیں وہاں اثاثوں کا ذریعہ واضح نہیں تھا۔

وکیل نے کہاکہ ٹیکس حکام کم ٹیکس دینے کو دیکھ رہے ہیں مگر ذریعہ آمدن کی تحقیق نہیں کررہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہاکہ جب یہ کیس ٹیکس اتھارٹی کے پاس ہے تو ذریعہ آمدن دیکھنا ہمارا کام نہیں، وہاں فیصلہ ہونے دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کہتا ہے کہ دوافراد کے درمیان تحائف سے غیرمتعلقہ شخص کا سروکار نہیں، عدالت کو صرف یہ سمجھادیں کہ تحفہ دینے اور لینے میں غیرقانونی چیز کیاہے؟۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہاکہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت سپریم کورٹ اس درخواست پر ٹیکس معاملے کو نہیں دیکھ سکتی، ٹیکس اتھارٹی کے بعد معاملہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے، درخواست گزار صرف ایک امید پر ادھر ادھر دوڑ پھر رہے ہیں کہ ہمارے خلاف کچھ ملے اور باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی لے سکیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جب جہانگیرترین خود کہتے ہیں کہ ان کی آف شور کمپنی ہے تو یہ کسی سرمائے سے بنی ہوگی۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہاکہ درخواست گزار اپنے ساتھ ثبوت لے کرآئے اور پھر نااہلی کی استدعا کرے، ہم سے دستاویزات حاصل کرکے اس میں سے اپنے مطلب کی چیزیں ڈھونڈ کردلائل نہ دے۔ درخواست گزار حنیف عباسی نے لکھا ہے کہ میں نے پانامہ پیپرز میں جہانگیر ترین کا نام پڑھا، یہ بالکل غلط ہے۔

ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والی عدالتی کارروائی بغیر کسی وقفے کے دوبجے ختم ہونے لگی تو چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سکندرمہمند کو ہدایت کی کہ کہ لندن میں بنائے گئے ٹرسٹ، آف شور کمپنی، اس کے شیئرز ہولڈرز، بینیفشل مالک، کمپنی کب بنی، کتنے سرمائے سے بنی اور سرمایہ باہر کیسے بھیجا گیا، ان سوالوں کی وضاحت کل کریں اور تحریری طور پر ضروری دستاویزات مہیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).