دہشت اور فیصلے کا انتظار


پانامہ کی تمثیل اپنے آخری مراحل میں ہے۔ جو حقائق معلوم کیے جا سکتے تھے، کر لیے گئے۔ جو دلائل دیے جا سکتے تھے، دے دیے گئے۔ اس مرحلے پر کرپشن اور احتساب کی پندرہ مہینے پر محیط جگل بندی کو دہرانے سے کچھ حاصل نہیں۔ قیاس آرائیوں سے بہتر ہے کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں دور نارسائی کے، ’بے ریا خدائی کے۔ اس مہلت مستعجل میں مناسب ہو گا کہ ملک کو درپیش دہشت گردی کے مسئلے پر کچھ خیالات مرتب کر لئے جائیں۔

دہشت گردی کے خلاف گذشتہ تین برس کی کارروائیوں کے نتیجے میں واقعات کی تعداد اور شدت میں واضح کمی آئی ہے لیکن اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ ریاست کی طرف سے پوری قوت کے علانیہ استعمال کے باوجود دہشت گردی کے ڈھانچے نے خوفناک لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سوچا سمجھا نمونہ نظر آ رہا ہے۔

کراچی میں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور پاراچنار میں دہشت گردی فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ لاہور میں عام شہریوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنانے کی کوشش کارفرما نظر آتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے مختلف النوع عناصر نے اپنے اپنے ہدف اور طریقہ کار طے کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک طویل عرصے تک اچھے اور برے طالبان میں امتیاز کرنے کا سبق دیا گیا۔ یہ فرق صرف اتنا ہے کہ دہشت گردوں کا ایک حصہ پاکستان کی ریاست کو بھی اپنا ہدف قرار دیتا ہے جبکہ اس قبیل کے کچھ عناصر اپنی حکمت عملی کے تحت پاکستان کو صرف ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

یہ کہنا آج بھی اتنا ہی درست ہے جتنا دس برس پہلے صحیح تھا کہ دہشت گردوں کی فکری اساس ایک ہے۔ مذہب کو آلہ کار بنا کر سیاسی اقتدار اور معاشی لوٹ کھسوٹ کے لیے کوشش کرنا۔ دہشت گرد عقیدے کو سیاسی موقف قرار دیتا ہے اور دہشت گردی کے ذریعے ریاستی عمل داری اور روزمرہ زندگی کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں، 1998 میں القاعدہ نے سعودی سرزمین سے امریکی فوجوں کی واپسی کا مدعا اٹھایا تھا۔ القاعدہ کو طالبان نے پناہ دی اور اس کشمکش میں طالبان کے ہاتھ افغانستان پر امریکی قبضے کا جواز آ گیا۔ تھوڑا رک کر غور کرنا چاہئیے کہ سنکیانگ، وسطی ایشیا اور چیچنیا میں دہشت گردی کا تانا بانا فلسطین اور کشمیر سے کیسے ملتا ہے؟ شام اور عراق میں داعش نے جو بھیانک باب لکھا ہے، کیا اسے القاعدہ کے موقف اور افعال سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا دہشت گردی کے عذر خواہوں نے اس کی کوئی علمی توجیہ پیش کی؟ عراق اور شام میں شکست کھانے والے جنگجو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پر نظر کیوں جمائے ہوئے ہیں؟ آپریشن خیبر فور میں پاکستانی فوج نے واضح طور پر داعش کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے، گویا ہم نے ان علاقوں میں داعش کی موجودگی تسلیم کر لی۔

ادھر یورپ اور امریکہ میں تشدد کے پے در پے واقعات نے ایک طرف مسلمان آبادیوں کی تکالیف میں اضافہ کیا ہے دوسری طرف اسلام دشمنی کی انتہا پسند لہر کو بھی جنم دیا ہے۔ مغرب میں انتہائی دایاں بازو نفرت کا وہی کھیل کھیل رہا ہے جو ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطی میں کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی مخالفت کرنے والے حلقوں نے بہت پہلے یہ سادہ حل تجویز کیا تھا کہ پاکستانی ریاست کو دہشت کے اس کھیل سے مکمل طور پر الگ ہو جانا چاہئیے۔ دہشت گردی کے جال میں الجھنے سے ہمارے ریاستی مفادات کو نقصان پہنچے گا اور ہماری قوم غیر ضروری طور پر تصادم کا میدان بن جائے گی۔

توجہ فرمائیے کہ اب پاکستان میں مسلک، نسل، پیشے اور زبان کی بنیاد پر دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ ہم روس اور امریکہ کی پراکسی لڑائی کو دعوت دے کر اپنے ہاں لائے تھے۔ ایران اور سعودی عرب کی غیرعلانیہ آویزش ناگزیر طور پر ہمراہ چلی آئی۔ معلوم ہوا کہ افغانستان میں روس طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ چلئے یہ تو ہوا کہ روس کی عظیم سلطنت مجاہدین کی پشت پناہی کو آن پہنچی۔ کیا صدر پوتن تبلیغی جماعت سے متاثر ہو گئے ہیں؟ نہیں صاحب، یہ ریاستی مفادات کا کھیل ہے۔ اس کا عقیدے سے کبھی تعلق تھا اور نہ ہو گا۔

آج کل ہمیں دنیا کو یہ سمجھانے کا شوق ہو رہا ہے کہ دہشت گردوں کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جا رہی ہیں نیز یہ کہ سی پیک کا منصوبہ بہت سی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ سی پیک کے ابتدائی معاہدوں پر مئی 2013ءمیں دستخط ہوئے تھے۔ اس سے قبل پچیس برس تک ہماری زمیں پر جو خون بہایا گیا وہ کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟ کیا ہم ایسے ہی سادہ لوح تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ دہشت گردی کی ہر مہم کے پیچھے ایک بیرونی قوت ہوتی ہے۔ ہر ویت نام کے ہمسائے میں ایک کمبوڈیا ہوتا ہے۔

ہمارے ملک کے تناظر میں دہشت گردی کے بارے میں یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ گذشتہ تیس برس سے ملک میں فیصلہ سازی کے متوازی ڈھانچے موجود ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کے لیے یہ جاننا ممکن ہی نہیں کہ جنوری 2002ءمیں پرویز مشرف جب دہشت گردی کی مزاحمت کا اعلان کر رہے تھے تو کیا ریاست کے سب عناصر اور قوم کے تمام حصے ان کے پیچھے صف آرا تھے؟ کیا سوات آپریشن کے دوران عسکری قیادت اور رائے عامہ میں مکمل ہم آہنگی موجود تھی؟

ستمبر 2009ءکے اخبارات اٹھائیے اور دیکھ لیجیے کہ لڑکیوں کے سکول جلانے کی حمایت کون کر رہا تھا۔ کس نے طالبان سے مذاکرات کا پرچم مسلسل اٹھائے رکھا؟ کیا ہم شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں مارے جانے والے شخص کو ہم نے دہشت گرد تسلیم کیا؟ جون 2014ءمیں آپریشن ضرب عضب کا اعلان اور 14 اگست کے دھرنے کی چتاؤنی ایک ساتھ آئے تھے۔ چھ ماہ تک قوم کی توجہ شمالی وزیرستان، سہراب گوٹھ یا کوئٹہ پر نہیں بلکہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر تھی۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئیے کہ ایک سے زیادہ قوتیں پاکستان کی ترقی کے امکانات پرجذبز ہوں گی اور ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں گی۔ تاہم ان قوتوں کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے جس ایندھن کی ضرورت ہے، وہ ہم اپنی زمین پر پیدا کر رہے ہیں۔

ہم نے دہشت گردی کے بارے میں بنیادی سوالات پر اپنی ریاست کا موقف قوم کے سامنے نہیں رکھا۔ دہشت گردی کی تائید کرنے والی آوازوں کو خاموش نہیں کیا۔ حیران کن طور پر جہلم سے اسلام آباد تک کے منطقے میں جولائی 2007 اور جولائی 2017 میں فعال ہونے والے عناصر پریڈی گراؤنڈ، درگئی، صفورا گوٹھ اور کوئٹہ کے واقعات پر متحرک نہیں ہوئے۔ وکلا، ایکس سروس مین سوسائٹی اور دفاع پاکستان کونسل کے دہشت گردی کے بارے میں حساس ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔

دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد ہم نے دہشت گردوں کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی بجائے حکومت وقت کی مذمت پر ساری توانائی صرف کی ہے۔ پاکستان کی ریاست میں سیاسی بالادستی کے لئے کھینچ تان اور فیصلہ سازی کی کشمکش دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ ہمیں اپنی معیشت اور شہریوں کی فلاح پر توجہ دینی چاہئیے۔ کرنے کے فیصلے بالکل واضح ہیں مگر یہ کہ ہمیں فیصلے کا انتظار ہے!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).