کچھ ذمہ داری سپریم کورٹ پر بھی عائد ہوتی ہے


یہ ایک بہت چھوٹی سی خبر ہے لیکن یہ ملک کے نظام، اختیارات کی تقسیم، صحیح اور درست کے تعین کےلئے اختیارات کے حوالے سے اہم اور افسوسناک پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہے۔ خبر ہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کےلئے سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ نے جو 6 رکنی جے آئی ٹی قائم کی تھی، اب اسے ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ کمیٹی نے 10 جولائی کو اپنی رپورٹ مقررہ مدت میں سپریم کورٹ کو پیش کر دی تھی۔ اب اس حوالے سے سارا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کے بعد کمیٹی توڑ دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کمیٹی میں شامل افسروں کو اپنے اپنے محکمہ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ضمانت دی ہے کہ اگر ان افسروں کو ان کے متعلقہ محکموں میں کسی دباؤ کا سامنا ہو تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔ یعنی سپریم کورٹ ایک طرح سے ان افسروں کو یہ ضمانت فراہم کر رہی ہے کہ انہیں مستقبل میں ملازمت کے سلسلہ میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایک اہم مقدمہ میں حقائق تک پہنچنے کےلئے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم کو تحفظ فراہم کرنا قابل فہم ہے لیکن کیا یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کے عواقب پر غور کر لیا گیا ہے۔ سرکاری محکموں میں افسران میں مسابقت، مقابلہ بازی، دوستی دشمنی، شکایات اور ایک دوسرے کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کےلئے تگ و دو ہوتی رہتی ہے۔

البتہ اب ایسے افسران اپنے محکموں میں واپس گئے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کی خصوصی سرپرستی حاصل رہے گی۔ کیا یہ اقدام ملک کے سول انتظام میں براہ راست اور غیر ضروری مداخلت کے مترادف نہیں ہے۔ جس کا اصولی، اخلاقی یا قانونی طور پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پاس بھی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔

جے آئی ٹی کے 6 میں سے 2 افسران جن کا تعلق ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی سے تھا، کو تو اس قسم کے عدالتی تحفظ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ فوج کے ایسے اداروں سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی بھی طرح حکومتی تحفظ کے محتاج نہیں ہیں بلکہ ان دو ارکان کی ایک سول اور منتخب وزیراعظم کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے معاملہ میں شمولیت سے شبہات پیدا ہوئے اور الزامات اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بدستور ایک ایسا پہلو ہے جس پر جے آئی ٹی میں فوجی اداروں کو ملوث کرنے والے ججوں کو ہمیشہ سوالات کا سامنا رہے گا۔

ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کی تحقیقاتی کمیٹی میں شمولیت ہی کی وجہ سے براہ راست  یا بالواسطہ یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ یہ کمیٹی اسی وجہ سے 60 دن میں اپنا کام مکمل کرکے دس جلدوں پر مشتمل ضخیم رپورٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کیونکہ اسے خفیہ اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ بعض قیاس آرائیوں کے مطابق تو یہ تک کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف دستاویزات و شواہد اکٹھا کرنے کےلئے جے آئی ٹی کو ’’فرنٹ مین‘‘ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اصل کام کسی اور نے کیا ہے۔ ورنہ 6 رکنی کمیٹی محدود عملہ کے ساتھ 60 دن کی مدت میں اتنی جامع رپورٹ تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔

اس حوالے سے چونکہ سوالوں کے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، اس لئے یہ باتیں افواہوں اور سازشی نظریات کی ترویج کا سبب بن رہی ہیں اور بنتی رہیں گی۔ اب سپریم کورٹ،  کمیٹی میں شامل سویلین اداروں سے آئے ہوئے 4 افسروں کو جیسا تحفظ فراہم کر رہی ہے، وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ چاروں افسر 20 اور 21 گریڈ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں سپریم کورٹ کے ججوں نے ذاتی طور پر منتخب کیا تھا۔ اس حوالے سے واٹس ایپ کے ذریعے ہدایات دینے کے بارے میں خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں جو معاملہ کی شفافیت پر براہ راست سوال اٹھانے کا سبب بنی ہیں۔ جنگ گروپ کے مالک و مدیر میر شکیل الرحمان نے عدالت میں اپنے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں پیشی کے دوران یہ سوال براہ راست ججوں سے دریافت کیا کہ اگر یہ خبر غلط تھی تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ کیونکہ جے آئی ٹی کے حوالے سے جو خبر غلط تھی اس پر انہوں نے اور ان کے گروپ نے معافی مانگ لی ہے۔ تاہم ججوں نے انہیں اپنے وکیل کے ذریعے بات کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر ججوں نے آزادی اظہار کی حرمت اور تنقید کے حق کی حمایت کا اعادہ بھی کیا لیکن ایک غلط خبر کی اشاعت پر ’’توہین عدالت‘‘ کا مقدمہ جاری رکھنے پر بھی اصرار کیا۔

بالکل اسی طرح عدالت عظمیٰ وزیراعظم کے خلاف الزامات کا جائزہ لینے کےلئے شفافیت اور سچائی کو سامنے لانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن جے آئی ٹی کی تشکیل، اس کی کارکردگی اور اب اس میں شامل افسروں کے دائمی تحفظ کے اعلان سے اس کمیٹی کے بارے میں جو ابہام و اشکال پیدا ہوا ہے، اس کا جواب سامنے لانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ یوں تو پاناما کیس کرپشن کا سادہ معاملہ ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے زیر غور ہے لیکن یہ تبصرے روز کا معمول بن چکے ہیں کہ درحقیقت یہ ملک میں سیاسی اختیار اور اہم معاملات میں فیصلوں کے حق کا معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر اس غیر واضح صورتحال میں بعض سوالوں کے جواب فراہم کرنے میں ناکام رہا تو یہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے نیک شگون نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ ماضی میں کئے گئے مشکوک اور جانبدارانہ فیصلوں کے باوجود اب بھی کسی حد تک عام و خاص کی امیدوں کا مرکز ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ بالآخر ملک کی اعلیٰ عدالت سے غیر جانبداری اور انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر سوال اٹھتے رہے اور معاملات میں شفافیت کی بجائے ایک ادارے کے تسلط کےلئے کام کرنے کے بارے میں شبہات تقویت پکڑتے رہے تو ملک میں امید کا یہ مرکز بھی اپنی اہمیت کھونے لگے گا۔ اس لئے عدالتوں اور ججوں کےلئے تمام تر احترام کے باوجود یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی قانون کے دائرے کے اندر، ذاتی پسند و نا پسند سے بالا ہو کر اور کسی خفیہ یا ظاہر ادارے یا قوت سے اثر قبول کئے بغیر معاملات پر غور کرنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس مقصد کےلئے عدالت عظمیٰ کو مستقبل قریب میں چند اہم اقدامات کرنا ہوں گے:

1) سیاسی معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کیا جائے۔ جب یہ بات واضح ہو کہ معاملہ سیاسی اقتدار اور اس کےلئے جدوجہد سے متعلق ہے تو ایسے معاملات عدالتوں میں لانے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ پاناما کیس دنیا بھر میں کرپشن کا معاملہ ہوگا لیکن پاکستان میں یہ صرف سیاسی جدوجہد کا مرکز بن چکا ہے جس میں سپریم کورٹ کو ملوث کیا گیا ہے۔ ورنہ نواز شریف کے خلاف کارروائی کے دوران ہی عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر نہ کی جاتیں۔

2) سپریم کورٹ شعوری طور پر کوشش کرے کہ آئین و قانون کی تشریح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اختیارات محدود نہ کئے جائیں بلکہ جہاں ابہام موجود ہو تو پارلیمنٹ سے اس کی وضاحت کرنے اور واضح قانون سازی کرنے یا آئین میں ترمیم کرنے کی سفارش کی جائے۔ سپریم کورٹ خود کو ایسا ادارہ سمجھنے سے گریز کرے جو تن تنہا ملک کے نظام کو درست کر سکتا ہے۔ یہ کام صرف اسی وقت ہوگا جب مملکت کے سب ادارے مل کر اس مقصد کےلئے کام کریں گے۔

3) سپریم کورٹ بعض ایسے معاملات کو حتمی انجام تک پہنچانے کےلئے فوری اور موثر اقدام کرے جو ماضی میں اس کی شہرت کو داغدار اور غیر جانبداری کو مشکوک کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے بارے میں نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ کے سرد خانے میں پڑی ہے۔ ملک میں اب اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک کی عدالتوں نے ضیا الحق کے دباؤ کی وجہ سے غیر قانونی طور پر بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ اب سپریم کورٹ کے پاس موقع ہے کہ وہ اس مقدمہ کی از سر نو سماعت کرکے اس فیصلہ کو درست کرے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی ضرورت کی وجہ سے سزا دی گئی تھی تو اس عدالتی فیصلہ کو تبدیل کیا جائے اور غلط فیصلہ کرنے والے ججوں کا تعین کیا جائے۔ اس طرح ایک تو ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر لگا ہوا دھبہ دھویا جا سکے گا، دوسرے عدالت یہ واضح کرے گی کہ وہ ناانصافی کا بوجھ اٹھا کر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اسی طرح اصغر خان کیس میں کئے گئے فیصلہ پر عملدرآمد کی بھی اسی طرح نگرانی کی جائے اور اسے یقینی بنایا جائے جس طرح جے آئی ٹی کی حفاظت اور رہنمائی و سرپرستی کا بیڑا اٹھایا گیا ہے۔ تب ہی سپریم کورٹ ملک میں پیش آنے والی سیاسی بے اعتدالیوں کی اصلاح میں مثبت کردار ادا کر سکے گی۔

سپریم کورٹ اگر ان پہلوؤں پر غور کرنے اور ان پر عملدرآمد کےلئے اقدامات سے گریز کرتی رہے گی تو عام آدمی کو یہ یقین دلانے والی قوتیں بدستور بااثر رہیں گی کہ ملک میں سیاست، عدالت کچھ نہیں۔ اصل فیصلے صرف ایک ہی قوت کرتی ہے۔ سیاستدانوں کی طرح عدالتوں کے جج بھی اسی طاقت کے اشاروں کے محتاج رہتے ہیں۔ درپردہ فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے اس تاثر کو ختم کرنا سپریم کورٹ ہی کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2741 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali