لمبی ناکوں والے گدھ، خاندانی پَگ اور ملتان کی حوّا زادیاں


گاؤں میں بڑے بوڑھے ہمیشہ اپنی اولاد کو خاندانی وقار کے تحفظ کے لیے اپنی ”پَگ ” جسے عرف عام میں پگڑی کہتے ہیں، کا واسطہ دیتے کہ بیٹا کوئی ایسا کام نہ کر گزریو جس سے تیرے باپ کی ‘پَگ ‘پر داغ لگ جائے اور معاشرے میں عزت رُل جائے۔ مائیں بھی اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے کی بجائے فقط روٹی گول کرنے کا طریقہ بتاتیں اور ساتھ ساتھ ‘خاندانی پَگ ‘کی حرمت ہر صورت برقرار رکھنے کا سبق دیتیں۔ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی ناخلف اور ناہنجار نکل آتا اور کوئی ایسا کام کر بیٹھتا جس سے باپ کی پگڑی پر داغ لگنے یا ‘خاندان کی ناک ‘کٹنے کا احتمال ہوتا تو گاؤں بھر میں غدر برپا ہو جاتا۔ ‘کانا پوسی’ گاؤں میں خبروں کا تیز ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سو کسی کی بہو بیٹی کی بدنامی کی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی۔ آس پاس کے گاؤں تک پھیلتی اور وہ ہا ہا کار مچتی کہ الحفیظ ولامان۔

اولادیں باپوں کے برابر ہوتیں پر خاندان کی اسی ناک کو بچانے کی خاطر اس پر مکھیاں نہ بیٹھنے دیتیں۔ لڑکیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتیں، پر خاندانی وقار ہمیشہ ان کی خواہشات کی تکمیل کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہو جاتا۔ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی کبھی پسند کی شادی کی خواہش نوکِ زبان پر لے آتے یا خاندان کے فیصلے کے برخلاف جانے کا سوچ لیتے تو یہ ‘مقدس ناک’ فوراً خطرے میں گِھر جاتی اور اس کو بچانے کے لیے ہر طرح کی قتل و غارتگری، خون ریزی، ظلم و زیادتی جائز ٹھہرتی۔ سینکڑوں حوازادیاں اس ‘خاندانی وقار’ اور ‘حد سے بڑھی ہوئی ناک ‘کی حفاظت کے لیے قربان ہو چکیں۔ سینکڑوں کے گلے ان کے بھائیوں اور باپوں نے کاٹے۔ سینکڑوں گھروں سے نکل کر زمانے میں خاک ہوئیں، پر ناک سلامت رہی۔ ترقی کے اوج کمال کو چھوتی تہذیب کے دور میں بھی ہمارے معاشرے کی سب سے قیمتی متاع وہ ‘خاندانی ناک’ ہے۔

ملتان کے مضافاتی علاقے میں بھی جب ایک خاندان کی ‘ناک ‘ کٹ گئی تو اس کی سرجری کے لیے بھی وہی طریقہ کار اپنایا گیا جس طرح سے ناک کٹی تھی۔ ایک 12 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی ہوئی تو خاندان کے بڑوں کے اکٹھ میں ایک ’لمبی ناک والے‘ نے فیصلہ صادر کیا کہ زیادتی کرنے والے کی بہن اب اس کا بدلہ چکائے گی۔ حکم ِحاکم تھا سو مرگ مفاجات ٹھہرا، اور تکمیل کے لئے ایک اور حوا زادی کو اپنی عصمت کی بھنیٹ پیش کرنا پڑی۔ اس جہالت پر زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ دو حوا زادیوں نے اپنی عصمت کے خون سے ‘خاندانی ناک ‘کو غسل دیا تب جا کر یہ ناک محفوظ ہوئی اور دونوں گھرانے شیروشکر ہو گئے۔ لیکن پھر معاملے کی بھنک میڈیا کو پڑ گئی، میڈیا کے شوروغوغے پر پولیس کو بھی ایک ہفتہ قبل ہونے والی انسانیت کی اس تذلیل کی گواہی دینا پڑی۔

ایسے لاتعداد واقعات ہر دن اس جہالت زدہ اور جھوٹی انّا کی حفاظت میں لگے احساس محرومی سے شکست خوردہ اِس بے راہرو معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے رہتےہیں۔ لمبی لمبی ناکوں والے گدھ اِس معاشرے میں عورت کو بے زبان مخلوق سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2016ء تک ملک میں 4734 عورتوں کو ہوس پرست انسانی کھال میں درندوں نے اپنی جنسی ہوس کا نشانی بنایا، 5504 عورتوں کو اغوا کیا گیا جن میں سے بازیابی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، اور سب سے لمبے چوڑے اعدادوشمار تو ان بد قسمتوں کے ہیں جن کو خاندان کی ناک پر بوجھ سمجھتے ہوئے انہی کے بھائی باپوں نے کسی کا گلہ دبا دیا، کسی کی شہ رگ کاٹ دی، کسی کو زہر پلا دیا، کسی کا ٹوکے سے قیمہ بنا دیا، کسی کو پٹرول سے آخری غسل دے کر دیا سلائی دکھا کر چرغہ بنا دیا۔ ایسی بدقسمت لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد 15222 ہے۔ یہ وہ شماریے میں جو کسی نہ طرح رپورٹ ہوتے رہے، ہزاروں کیس تو ایسے ہوتے ہیں جہاں ‘ناک ‘ کو محفوظ رکھنے کی خاطر کسی کو واقعے کی بھنک نہیں پڑنے دی جاتی۔

اس اندھیر نگری میں اب احتساب کی ہوا چل رہی ہے تو ایسے میں 1947ء سے ان تمام حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کی قبریں اکھاڑ کر کم از کم علامتی طور پر ہی کٹہروں میں کھڑا کرکے احتساب کر دیا جائے جنہوں نے اس معاشرے کو جان بوجھ کر جاہل اور گنوار رکھا۔ ملکی تاریخ میں تعلیم کبھی بھی کسی حکمران کی ترجیح نہیں رہی۔ اشرافیہ کو ڈر اس بات کا ہے کہ چیتھروں میں ملبوس غریبوں، بدبُو دار مزدوروں اور دھوپ سے سڑے جسموں والے کسانوں کی اولادوں کو پڑھا لکھا دیا گیا تو کل کلاں یہی ادنیٰ مخلوق اپنے حقوق سے آگاہ ہو کر گلے کو آئے گی۔ بہتر یہی ہے انہیں تعلیم و شعور دینے کی بجائے نسل در نسل جاہل رکھو۔ یہ جاہل خود ہی بچے کھانے والے سانپ کی طرح اپنے بچے کھاکر مر گھپ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).