ماحولیاتی تبدیلی اور کائنات میں انسان کا مستقبل


کروڑوں سال فطرت نے حیوانات اور نباتات کو وقت کی چھینی سے تراشا ہے۔ آفرینش کائنات سے لے کر آج تک جنییاتی تبدیلیوں کے ذریعے یک خلیاتی جانداروں کو انتہائی پیچیدہ موجودات میں تبدیل کر دیا۔ انہیں آگہی اور شعور کا تحفہ دیا۔ حفظ ماتقدّم کے اصول کے تحت انہیں اس قابل کیا کہ وہ جہان رنگ و بو میں اپنی بقا کی جنگ لڑ سکیں۔ سوچنے سمجھنے، سننے، بولنے، دیکھنے، دوڑنے، اڑنے اور تیرنے کی صلاحیتوں کو یوں بانٹا کہ زمین پہ ایک ابدی توازن قائم رہے۔

اس لمبے اور صبر آزما سفر میں ایک خطا فطرت سے یہ سر زد ہوئی کہ ایک دو پائے کو خود آگاہی اور دانستگی کی بیش بہا قوّت سے نواز بیٹھی۔ آج حضرت انسان اس قوّت کے بل بوتے پر اپنی پالنہار فطرت سے نبرد آزما ہے۔ دو صدیوں کے قلیل عرصے میں نہ صرف اس نے فطرت کو سر نگوں ہونے پر مجبور کر دیا بلکہ اس کے بدن کو نوچ نوچ کر اپنے لئے آسمان چھوتے محلات کے جنگل ایستادہ کر لئے۔

جدید تہذیب کے یہ عمودی مینار دوسرے جانداروں کی زیست گاہوں کو اجاڑ کر کھڑے کیے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ صنعتی انقلاب یا اس سے پہلے زرعی انقلاب سے شروع نہیں ہوا۔ فطرت کے ساتھ یہ جنگ اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب وسطی افریقہ کے میدانوں میں بسنے والے پہلے انسان کو کسی جینیاتی تبدیلی کے باعث غور و فکر کی صلاحیت ملی۔ اس صلاحیت نے انسانوں کو بڑے پیمانے پے باہمی تعاون کرنے، مستقبل کے بارے میں منصوبہ سازی کرنے، اور تجسّس کرنے کے قابل بنایا۔ اس سوچنے والے انسان نے افریقہ کے جنگلوں سے نکل کر شمال کی جانب ہجرت کی۔ ہزاروں سال پہ محیط اس عظیم ہجرت نے انسان کو مشرق وسطیٰ، یورپ، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، آسٹریلیا اور امریکا پہنچایا۔ اس عظیم سفر کے دوران انسان نے جس ساحل، میدان اور جنگل میں قدم رکھے، وہاں رہنے والے دوسرے جانداروں کی نسل کشی کا سبب بنا۔

صنعتی انقلاب کے بعد سمندر بھی اس کے شر سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پچھلی دو صدیوں میں ہزاروں سمندری، زمینی اور ہوائی پرجاتیاں معدوم ہو چکی ہیں۔ مزید ہزاروں ناپید ہونے کے دہانے پے ہیں۔ فطرت کے ان بچوں کا قتل عام آج بھی انسان پوری سرعت اور بے اعتنائی سے سر انجام دے رہا ہے۔ یہی رفتار رہی تو کچھ ہی عرصے میں واپسی کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔ کروڑوں سال پر محیط سست رو ارتقائی عمل بیک جنبش دست رائگاں چلا جائے گا۔ انتہائی تحمل اور طویل ریاضت کے بعد وجود میں آنے والا حیاتیاتی تنوع پل بھر میں قصّہ پارینہ بن جائے گا۔ اس مقالے کا مقصد سائنسی اعداد و شمار یا تحقیق پیش کرنا نہیں، اور نہ ہی انسان کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کا درس دینا ہے۔ مقصد صرف اس تاریک مستقبل سے پردہ اٹھانا ہے جس کی جانب انسان تند رفتاری سے رواں دواں ہے۔ فطرت ابھی بھی تمام عناصر کی لا شریک حکمراں ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار اس نے اپنے غضب میں تمام نظام ہستی کو تہہ و بالا کیا ہے۔ یہ ہماری خام خیالی ہے کے ہم اس غضب سے مستثنیٰ رہیں گے۔

قریں از امکان یہی ہے کہ بنی انسان اپنی خود غرضی کے نتیجے میں اپنے باقی شریکان حیات کے ہمراہ فنا کی سولی چڑھ جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل کا انسان فطرت کے بے رحم انتقام سے بچ جائے۔ ہو سکتا ہے وہ زمین سے فرار ہو کر، زمان و مکان کی حدوں کو پھلانگ کے دور دراز سیاروں پے نئی دنیا آباد کر لے۔ انسان فطرت کے غضب و خشم سے بچ بھی نکلا تو تخلیق کے لق و دق صحرا میں تنہا رہ جائے گا۔ ایسا صحرا جہاں نہ سانپ کی پھنکارہو گی اور نہ ہی غزل آہو۔ وقت کا قلزم آہستہ آہستہ زندگی اور اس سے منسوب حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گا۔ شیر کی دھاڑ، ہاتھی کی چنگھاڑ، مور کی چال، پھول کی نازکی، در صدف کی کمیابی، شاہین کی پرواز، کوئل کی آواز، بے مفہوم شور شرابا بن کے رہ جائیں گے۔ انسان بھول جائے گا کہ ابرھہ کے لشکر کے ہاتھی کون تھے اور ان پہ پتھر برسانے والی ابابیلیں کیا تھیں۔

آج انسان جیسا بھی ہے وہ فطرت کے ساتھ اس کی مسلسل وابستگی اور اس پے انحصار کا شاخسانہ ہے۔ وہ آج بھی فطرت کے ساتھ ایک نہ نظر آنے والی ناف کے ذریعے جڑا ہے۔ جب یہ رشتہ ٹوٹے گا تو انسان، انسان نہیں رہے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ ہوا، پانی، خوراک اور ہر اس مادی، اور غیر مادی چیز کے بغیر زندہ رہ لے گا جو اسے زمین سے جوڑتی ہے۔ مگر اس کی شکل و شباہت، اس کا رہن سہن، اس کے رشتے ناتے، باہمی انحصار، معاشرے کی ساخت، ثقافت، کہانیاں، تاریخ، مذہب، فلسفہ، شعرو ادب، حتیٰ کے سوچنے سمجھنے کی وہ صلاحیت جس نے اسے منفرد بنایا، سب چھن جائے گا۔ اگلی بار طوفان نوح آیا تو یا تو انسان کو کوئی کشتی میّسر نہیں ہو گی اور یا وہ تن تنہا وقت کے بے کراں سمندر کا مسافر بن جائے گا۔ کسی سیاق و سباق کے بغیر وہ اس وسیع کائنات میں فقط ایک نکتہ بے معنی بن کے رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).