کمر میں دم نہیں رہا منٹو صاحب !


کمر درد کی تاریخ بڑی پرانی ہے ۔ ظاہر ہے جب سے انسان بنا تب سے اس کی کمر بھی تھی۔ اگر ڈارون کو مانا جائے تو بندروں میں بھی کمر تو ہوتی ہی تھی۔ کمر ہو گی تو درد تو ہو گا۔ انسانی کمر میں پہلی گڑبڑ کا علاج اب سے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے دیکھنے میں آتا ہے جو ایک مصری ممی کا اسکین کرنے سے دریافت ہوا۔ اس کے بعد سے آج تک نت نئے سائنسی طریقے سامنے آتے گئے اور متاثرین کمر درد کو خدا شفایاب کرتا رہا لیکن وہ سب خبروں کی زینت نہیں بنے ۔ بیماری اگر مشہور لوگوں کی ہو گی تو خبروں میں بھی آئے گی اور اس کا اثر بھی دور دور تک جائے گا۔ دیکھا جائے تو بہت سے بڑے لوگ اس بے درد تکلیف کا شکار رہے ۔

صدر جان ایف کینیڈی کے میڈیکل ریکارڈ شاید ان کی زندگی کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوں لیکن ایک چیز جو بہت زیادہ مشہور ہوئی وہ ان کی کمر کا درد تھا۔ وہ اس درد اور بہت سے دوسرے معمولات کی وجہ سے دن میں آٹھ آٹھ گولیاں تک پھانکا کرتے تھے ۔ جس زمانے میں نیوی کی نوکری تھی تب بھی اس درد سے بچنے کے لیے وہ پتلے سے گدے پر سویا کرتے تھے ۔ صدارتی مہم کے دوران ان کی “میڈیکل سپورٹ” کا عملہ چوری چھپے آگے پیچھے ہی رہا کرتا تھا۔ وہ اس درد سے اتنے عاجز تھے کہ بہت سے ضروری و غیر ضروری افعال بھی کھڑے ہو کر انجام دینے میں آرام محسوس کیا کرتے ۔ایسی خبریں عوام سے پوشیدہ رکھی جاتیں تاکہ سب کے سامنے ان کا امیج ایک طاقتور اور سمارٹ حکمران کا رہے ۔

جارج ڈبلیو بش کی بھی کمر میں مسئلہ رہتا تھا۔ میڈیا سے بچتے ہوئے انہوں نے کمر کی ایک سرجری بھی کروائی لیکن ڈاکٹروں نے صاف کہہ دیا کہ جب تک مہرے دوبارہ جم نہیں جاتے آپ گالف وغیرہ کھیلنے سے پرہیز کریں گے۔

جیکی چن جو پارے کی طرح سکرین پر ہمیشہ ادھر سے ادھر اچھلتے کودتے اور اسٹنٹس دکھاتے نظر آتے ہیں ان کا بھی یہی معاملہ تھا۔ پولیس سٹوری کی شوٹنگ کے دوران انہوں نے ایک چھلانگ لگائی جو ان کی ساتویں اور آٹھویں ڈسک برباد کر گئی، اس سے پہلے بھی ایک کرتب کے دوران وہ کمر تڑوا چکے تھے۔ اب جو مہرے ہلے تو وہ بالکل فالج کی کیفیت میں چلے گئے ، اگر انہیں وقت پر ہسپتال نہ بھیجا جاتا تو اسی وقت سن ترانوے میں ہی ان کا فلمی کیرئیر ختم تھا۔

یہی سب مسائل جارج کلونی، یوسین بولٹ (دنیا کا تیز ترین ایتھلیٹ)، جیری لوئیس اور ہیریسن فورڈ کے ساتھ بھی رہے لیکن سیاست دان ہوں، اداکار ہوں، کھلاڑی ہوں یا کوئی بھی ہو، زندگی کا سلسلہ دراز رہا، کام ہوتے رہے ، رکا کوئی بھی نہیں اور نہ ہی شکستہ کمری کی خبریں کبھی میڈیا کی زینت بنیں۔
مشرق میں ویسے بھی ٹوٹی ہوئی کمر کوئی اچھا شگن نہیں سمجھی جاتی۔ اٹھارہ سو ستاون میں اگر ٹوئٹر ہوتا تو جو بددعا ٹاپ ٹرینڈ ہوتی وہ دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی تھی، دوسرے نمبر پر اس خواہش کا اظہار ہونا تھا کہ “اللہ فرنگیوں کی کمر توڑے گا”قسمت کے کھیل کچھ ایسے ظالم ہیں کہ یہ دعا آج تک ہمارے ساتھ چلی آتی ہے ۔ فرق صرف اظہار کے پیرائے میں ہے۔ پہلے ٹھوس انداز میں دعا کرتے ہوئے خدا سے نصرت طلب کی جاتی تھی اور دشمن فرنگی ہوا کرتے تھے ، آج کل اپنے زور بازو پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد کہا جاتا ہے کہ دشمنوں کی کمر توڑ دیں گے اور دشمن بھی اپنوں میں ہی ہوتے ہیں۔ کچھ خبریں اس طرح کی بھی آتی ہیں کہ دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے ، بزدل دشمن جاتے جاتے یہ وارداتیں کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ، دشمن لیکن بڑا ہی عجیب قسم کا ہے ۔

جس طرح امریکن سنڈی یا کالا تیلا نت نئی کیڑے مار دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتے ہیں عین اسی طرح دشمن بھی ان دہشت ناک ارادوں اور باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ سر جھکائے اپنا کام کیے جاتا ہے اور اخبارات ہر ہفتے کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہونے کی سناؤنی دیتے رہتے ہیں۔ اب کے میرے لاہور کی خبر آئی ہے ، ذمہ داری قبول کرنے والوں نے حسب سابق پوری دلیری سے ذمہ داری قبول کی ہے ویسے بھی وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں ہیں۔ ایک بات لیکن پکی ہے ، سیانے کہتے تھے کہ جو دوسروں کا برا چاہتا ہے ، اس کے ساتھ خود برا ہوتا ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ اب قدرت کا یہ اٹل قانون ہماری سیاست میں بھی جگہ پا چکا ہے ۔ بددعاؤں یا آہنی عزم کے ساتھ کمر توڑنے کی اطلاعات پر ان کا تو جو بگڑنا تھا سو بگڑا، کمر درد ہماری قیادت کو لے کر بیٹھ چکا ہے ۔

سابق صدر مشرف بے چارے کمر کی شدید تکلیف کے ساتھ وطن سے تشریف لے گئے اور باہر جاتے ہی شکر ونڈاں رے پر بحالت مجبوری تھوڑے بہت جھومتے ہوئے پائے گئے ۔ لوگوں نے کیا کیا افسانے بنا دئیے ۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب بھی کمر درد میں مبتلا رہتے ہیں اور ابھی جو تازہ ترین کمر درد سامنے آیا وہ چوہدری نثار صاحب وزیر داخلہ کا تھا۔ پہلے ایک خبر سامنے آئی کہ وہ پریس کانفرنس سے خطاب فرمائیں گے ، اس کے بعد مختلف خبروں سے یہ معلوم ہوا کہ رابطے اور روزمرہ امور تو جاری رہے لیکن صحافیوں سے معذرت کر لی گئی۔ کانفرنس ہوئی بھی تو معاملات ہنوز تشنہ ہیں کہ بدقسمتی بہت عظیم تھی، مرنے والے ہمارے بھائی تھے ، بیٹے تھے ۔

بابو گوپی ناتھ سے بات چیت ہو رہی تھی، کہیں کسی نے منٹو کے آگے اس کی بڑی تعریف کر دی تو وہ بڑی انکساری سے کہنے لگا، اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب ….تو بس دم اب نہیں رہا، جو بھی حکومت میں آتا ہے ایسا برا پھنستا ہے کہ اچھی بھلی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ اگلے وقتوں میں بڑے لوگوں کی بیماریاں بھی بہت بڑی بڑی ہوا کرتی تھیں۔ کسی کو ہارٹ اٹیک ہوتا تھا، کسی کو فالج ہوا کرتا تھا، کوئی برین ٹیومر کا شکار ہوتا تھا اور کچھ نہیں تو شوگر ووگر ہو جاتی تھی، کمر درد کم ہی سننے میں آتا تھا۔ ویسے بھی لوگ رائی کا پہاڑ بناتے ہیں اگر کوئی حکمران کمردرد کی شکایت کرتا تو اچھے بھلے افسانے تراش لیے جاتے ۔ اس وقت لیکن پاناما کا ہنگام ہے ، استعفے کی تاریخ پر سٹے باز منڈیوں کا اتار چڑھاؤ طے کر رہے ہیں، کون دیکھتا ہے کہ کسے کیا ہو گیا۔ پھر بھی یہ کمر درد کچھ بالکل ہی عام سی بیماری لگتی ہے ، چھوٹے موٹے سیاست دانوں کو ہو جائے تو سمجھ میں آتا ہے ، اس کی وجہ سے دفتر کے دفتر رک جائیں تو بندہ حیرت میں پڑنے کے سوا کیا کر سکتا ہے ۔

اردو شاعری نے کمر کو جو مقام دیا لگتا ہے وہ بھی اب چھننے والا ہے ۔ کہاں نازک خراموں کی کمریں ہوتی تھیں جن کے بارے میں شاعر خیال باندھتے باندھتے ہی ڈھیر ہو جایا کرتے تھے ، مثلاً وہ ایک شعر تھا، سنتے ہیں ان کے کمر ہے / کہاں ہے ؟ کیسی ہے؟ کدھر ہے؟ یا پھر مرزا ہادی رسوا امراؤ جان ادا میں کہتے تھے، تیری نازک کمر کے باب میں چہلک بنا دیں گے / وہ کیا سمجھے یہ باریکی طبیعت جس کی گٹھل ہو۔ لکھنوی ہونے کی خود پسندی اپنی جگہ، شعر کمال کا نکالا تھا یعنی کسی نے اگر تیری نازک کمر کا پوچھا تو کاٹے کا نشان بنا دیں گے ، گویا ہے ہی نہیں …. پھر کہا لیکن یہ بات سمجھے کون، ہر طرف سست طبیعت والے کند ذہن (گٹھل) پائے جاتے ہیں۔ تو اب جو ہے وہ گٹھلوں کی بھرمار ہے اور کمر بس خبروں میں ہی زندہ رہ گئی ہے ۔ کبھی کسی کی ٹوٹ جاتی ہے ، کبھی کسی کی تکلیف میں ہوتی ہے ، کبھی پوری قوم کو ایک کمر کا جھٹکا دبئی سے لائیو نچاتا ہے اور ٹھیک کمروں والے بس پاناما یا دہشت گردی بھگتنے کے لیے رہ جاتے ہیں۔ شاعر نے ایک بار پھر کہا تھا، ٹوٹی اگر ہے میری کمر، تم کو اس سے کیا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain