ایک ڈراؤنی کہانی


اگر کہانی سچی ہے تو ڈراؤنی ہے۔ اگر کہانی جھوٹی ہے تو ہمیں ڈرنے کے ساتھ ساتھ سوچنا بھی چاہیے کہ یہ کہانی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

کہانی انڈیا کے تمام بڑے اخباروں میں چھپی ہے یا چھپوائی گئی۔ کہانی کے مطابق جب 1999 میں کارگل کا تنازع عروج پر تھا تو انڈین ایئر فورس کا ایک پائلٹ لائن آف کنٹرول کے پاس حملے کے لیے اڑا، اس نے اپنا ٹارگٹ لاک کیا، بم گرانے کے لیے تیار تھا لیکن اس وقت انڈین ایئر فورس کے ایک سینیئر ہوا باز نے اسے بم گرانے سے منع کیا بعد میں انڈین ایئرفورس کو پتہ چلا کہ جہاں پر بم گرنا تھا عین اس وقت وہاں پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ پرویز مشرف دونوں موجود تھے۔

کہانی سے سبق: 18 سال پہلے ہم غلطی سے آپ کے دونوں بڑوں کو اڑانے والے تھے لیکن چونکہ ہم، ہمارے ادارے اور ہمارے پائلٹ انتہائی ذمے دار ہیں اس لیے آپ کے بڑے بچ گئے ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔

کہانی پڑھتے پڑھتے میرے اندر کے دفاعی تجزیہ نگار نے انگڑائی لی۔ آج کل ہمارے ملک کی آب و ہوا ہی ایسی ہے کہ بندہ گھر سے آدھا کلو دہی خریدنے کے لیے نکلتا ہے واپسی پر دفاعی تجزیہ نگار بنا ہوتا ہے۔

ان دفاعی تجزیہ نگاروں سے آپ دفاع کے ساتھ ساتھ ہر چیز پر تبصرہ کروا سکتے ہیں مثلاً نواز شریف کو اڈیالہ جیل بھیجنا چاہیے یا کوٹ لکھپت، ڈونلڈ ٹرمپ مودی کا یار ہے تو پھر مودی کس کا یار ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ کو کیا اب بھی خوابوں میں راحیل شریف نظر آتا ہے یا کوئی اور۔ سنی لیونی اسلام کب قبول کرے گی وغیرہ وغیرہ۔ (دیکھیں اپنی دفاعی تجزیہ کار کی ٹوپی پہنتے ہی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اس سے تو دفاعی تجزیہ نگار کی ذہنی وسعت ہی ثابت ہوتی ہے۔)

تو پہلے دفاعی تجزیہ اس کے بعد سیاست۔ انڈین ایئر فورس کا پائلٹ ایک ٹارگٹ لے کر اڑا ہے اس کے لیزر سسٹم نے ٹارگٹ لاک کر لیا ہے لیکن بم گرانے سے پہلے وہ ایک ایئر کموڈور سے بات کرتا ہے جو اس علاقے میں پرواز کر رہا ہے۔ ٹارگٹ پر لاک کرنے کے بعد مشورہ چہ معنی دارد؟

ہم نے بھی فلم ٹاپ گن دیکھ رکھی ہے۔ ہم نے بھی پاک فضائیہ کے دانشور پائلٹ اور دفاعی تجزیہ نگار ایئر کموڈور قیصر طفیل کے دو مضمون پڑھ رکھے ہیں۔ (طفیل صاحب کو آپ کبھی ٹی وی پر اس لیے نہیں دیکھیں گے کہ وہ جہازوں، میزائلوں اور جنگوں کا ہی دفاعی تجزیہ کرتے ہیں، نواز شریف کون سی جیل میں ہو، اس بارے میں انھوں نے کبھی رائے نہیں دی)۔

تو پائلٹ اپنے نشانے پر بم گرانے سے پہلے کسی اور سے جو اس مشن کا حصہ بھی نہیں ہے، مشورہ کیوں کرے گا؟

یہ جنگ ہو رہی ہے یا آپ کون بنے گا کروڑ پتی کھیل رہے ہیں جس میں ضرورت پڑنے پر فرینڈ کو فون کرلیا، رپورٹ سے مجموعی تاثر کچھ ایسا ملا اور دل کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ غالباً انڈین ایئر فورس بھی ہماری تبلیغی جماعت کی طرح ہے جو عین تبلیغی دورے کے بیچ میں گلی کے نکڑ پر محفل مشورہ منعقد کر لیتے ہیں کہ اگلے دروازے پر دستک دی جائے یا پہلے کچھ نفل پڑ ھ لیے جائیں۔

اخباری رپورٹ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر یہ انڈین پائلٹ لائن آف کنٹرول کے اوپر باہمی مشاورت کر رہے تھے تو اس وقت نواز شریف اور پرویز مشرف دونوں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گل ٹیری کے فوجی اڈے پر موجود تھے۔

جن کو 1999 یاد ہے انھیں یہ بھی یاد ہوگا کہ کارگل جیسی ہی ایک جنگ نواز شریف اور پرویز مشرف کے بیچ میں جاری تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے جان چھڑانا چاہتے تھے لیکن دونوں پاکستانی تھے اور مجھے یقین ہے کہ اپنی بدترین دشمنی کے لمحات میں بھی انھوں نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ دوسرا ایک بھارتی بم کا نشانہ بنے۔

کارگل کی جنگ کے دوران پیدا ہونے والے بچے اب بالغ ہو چکے ہیں۔ کارگل کے دوران ہمارے اپنے گھر میں جاری جنگ میں نواز شریف نے مات کھائی اور پھر عروج دیکھا اور اب عدالت عظمیٰ اور دفاعی تجزیہ نگار یہ فیصلہ کیا ہی چاہتے ہیں کہ انھیں کون سی جیل بھیجا جائے۔

اس دوران میں ہم نے ترلے، منتیں، مظاہرے اور مواخذے کی دھمکیاں دے کر مشرف سے جان چھڑائی اور جب ان پر کیس بننے لگے تو انھوں نے ‘میری طبیعت ٹھیک نہیں’ کہہ کر اس قوم سے جان چھڑائی۔

اب وہ دبئی میں بیٹھ کر اس عدالت کو ہلا شیری دے رہے ہیں جس کے سامنے وہ خود پیش ہونے کو تیار نہیں۔ عدالت کو وہ یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ اس نواز شریف کے ساتھ وہ کرو جو میں نے کیا تھا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ موقع ملا تو پھر وہ ہی کروں گا جو پہلے کیا تھا۔

جنرل مشرف نہ صرف اس عطّار کے لونڈے سے اپنی کمر درد کی دوا لینا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ٹھکائی بھی کرنا چاہتے ہیں۔

عین اس قضیے کے بیچ میں ہچکچاتے ہوئے انڈین پائلٹ کی کہانی چھاپنے کا مقصد شاید یہ یاد کرانا ہے کہ دھیان رہے کسی کی چھوٹی سی غلطی سے ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

انڈیا نے شاید ہمارے دفاعی تجزیہ نگاروں کو نہیں سنا۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم نے اپنا بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا۔

بشکریہ بی بی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).