ڈاکٹر جیکائل اور مسٹر ہائیڈ کا عجیب و غریب کیس


ویسے تو بیشتر لوگ اس فیصلے پر متفق ہو چکے ہیں کہ دنیا کا عظیم ترین ناول ماریو پوزو کا لکھا ہوا ”دی گاڈ فادر“ ہی ہے جو فکشن کے پردے میں یہ حقیقت بیان کر دیتا ہے کہ ”ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے“، لیکن ایک دوسرا ناول بھی نہایت مشہور ہے۔ بلکہ ہماری رائے میں تو وہ ”دی گاڈ فادر“ سے بھی اعلی ہے۔ رابرٹ لوئس سٹیونسن نے 1886 میں ایک ایسا ننھا منا سا ناولچہ لکھا تھا جس کا انگریزی زبان پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اس ناولچے کا نام تھا ”ڈاکٹر جیکائل اور مسٹر ہائیڈ کا عجیب و غریب کیس“۔ جیکائل اور ہائیڈ کی اصطلاح ایک ایسے شخص کے بارے میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جو مختلف مواقع پر متضاد اخلاقی رویہ دکھانے کا عادی ہو۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ اٹرسن نامی ایک وکیل کو اپنے دوست ڈاکٹر ہنری جیکائل کے رویے میں کچھ عجیب و غریب سی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور وہ اس کے نئے دوست مسٹر ایڈورڈ ہائیڈ کے بارے میں بہت مشکوک ہوتا ہے۔

بدمعاش اور جھگڑالو مسٹر ہائیڈ کا فرشتہ صفت اور نیکی کے پتلے ڈاکٹر جیکائل کے گھر بہت زیادہ آنا جانا ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر جیکائل مسٹر ہائیڈ کی بدمعاشیوں کے جرمانے بھی بھرتا ہے۔ اٹرسن کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جیکائل اپنی وصیت میں مسٹر ہائیڈ کو اپنا وارث مقرر کر دیتا ہے اور نہ صرف اپنی موت بلکہ تین ماہ تک گمشدگی کی صورت میں بھی اپنا سب کچھ مسٹر ہائیڈ کو دینے کی وصیت کرتا ہے۔

اٹرسن کو شبہ ہوتا ہے کہ کہیں مسٹر ہائیڈ ڈاکٹر جیکائل کو بلیک میل نہ کر رہا ہو۔ ڈاکٹر جیکائل اس معاملے پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ ایک دن ایک شخص نے مسٹر ہائیڈ کو ایک قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اٹرسن پولیس کو لے کر مسٹر ہائیڈ کے گھر گیا تو وہاں اسے ڈاکٹر جیکائل کی ٹوٹی ہوئی چھڑی ملی۔

اٹرسن نے ڈاکٹر جیکائل سے رابطہ کیا تو اس نے مسٹر ہائیڈ کا لکھا ہوا ایک خط دکھایا جس میں اس نے ڈاکٹر جیکائل کے لئے مشکلات پیدا کرنے پر اظہار ندامت کیا تھا۔ اٹرسن لکھائی دیکھ کر پہچان جاتا ہے کہ یہ تو ڈاکٹر جیکائل کا اپنا لکھا ہوا خط ہے۔

ڈاکٹر لنیون، وکیل اٹرسن اور ڈاکٹر جیکائل کا مشترکہ دوست تھا۔ وہ اچانک کسی نامعلوم صدمے کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔ مرنے سے پہلے وہ اٹرسن کو ایک خط دیتا ہے اور اسے ہدایت کرتا ہے کہ وہ اس خط کو صرف ڈاکٹر جیکائل کی موت یا گمشدگی کی صورت میں ہی پڑھے۔

اچانک ڈاکٹر جیکائل نہایت تنہائی پسند ہو جاتا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر جیکائل کا ملازم اٹرسن کے پاس آتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر جیکائل کئی ہفتوں سے اپنی لیبارٹری میں بند ہے اور باہر نہیں نکل رہا۔

یہ دونوں لیبارٹری کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتے ہیں تو انہیں اندر مسٹر ہائیڈ کی لاش دکھائی دیتی ہے جو ڈاکٹر جیکائل کے کپڑوں میں ملبوس ہے۔ بظاہر یہ خودکشی کا کیس تھا۔

اٹرسن کو ڈاکٹر جیکائل کا لکھا ہوا ایک خط ملتا ہے۔ اٹرسن سب سے پہلے ڈاکٹر لنیون کا دیا ہوا خط پڑھتا ہے۔ اسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک دن اس نے مسٹر ہائیڈ کو ایک شربت بنا کر پیتے ہوئے دیکھا تھا جس کے بعد وہ ڈاکٹر جیکائل کی شکل اختیار کر گیا۔ اس شاک نے ڈاکٹر لنیون کی جان لے لی۔

ڈاکٹر جیکائل کے خط میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ گناہوں میں مبتلا ہو گیا تھا اور اسے پکڑے جانے کا خوف تھا۔ اس نے ایک ایسا شربت ایجاد کر لیا جس سے وہ شکل بدل سکتا تھا اور پہچانے جانے کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنی گناہ کرنے کی حسرتیں پوری کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر جیکائل ایک نہایت نفیس شخص تھا اور اس کی دوسری جون مسٹر ہائیڈ ایک نہایت خود غرض اور برا آدمی تھا۔

ڈاکٹر جیکائل شربت کے ذریعے جون بدلنے کو اپنے کنٹرول میں رکھتا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ شربت بے اثر ہونے لگا اور وہ خود بخود مسٹر ہائیڈ کی شکل اختیار کرنے لگا۔ ایک دن شکل بدلنے پر کنٹرول کرنے والا شربت ختم ہو گیا۔ دوبارہ بنایا گیا شربت بے اثر ثابت ہوا۔ ڈاکٹر جیکائل کا اندازہ تھا کہ شاید کسی کیمیکل میں کوئی ایسی نامعلوم چیز پڑ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا شربت جون بدلنے کی تاثیر اختیار کر گیا تھا اور اب خالص کیمیکل بالکل بے اثر تھا۔

خود کو مستقل طور پر مسٹر ہائیڈ بنتا دیکھ کر ڈاکٹر جیکائل نے ایک اعتراف جرم پر مبنی خط لکھا۔ خط کا اختتام اس فقرے پر ہوا ”میں اس انتہائی ناخوش ہنری جیکائل کی زندگی کا خاتمہ کر رہا ہوں“۔

تو یہ تھا وہ شہرہ آفاق قصہ۔ یہ انگریزوں کے لئے ایک حیرت انگیز کہانی تھی۔ مگر شکر الحمدللہ ہم دیسیوں کے لئے انسان کا جون بدلنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہاں سو سال کے ناگ اور ناگنیں اور بعض دوسرے افراد اپنا اپنا فائدہ دیکھ کر ہزاروں سال سے اپنی کایا پلٹ کرتے آئے ہیں۔

ہمارے ہم وطن ڈاکٹر ہنری جیکائل ذرا شرمیلے ہوتے ہیں۔ اپنی شکل تو وہی رہنے دیتے ہیں مگر شربت پیتے ہی ذہنی طور پر مسٹر ہائیڈ بن جاتے ہیں۔ ایک جیسے دو معاملات موجود ہوں تو ایک پر نیکی کے پتلے ڈاکٹر جیکائل کی اخلاقیات نافذ کر دیتے اور دوسرے کا معاملہ طے کرتے ہوئے مجسم بدی مسٹر ہائیڈ کا ذہن استعمال کرتے ہیں۔ خود کرپشن کریں تو اس کی تاویل دیتے ہیں اور دوسرا کرے تو اسے پھانسی پر لٹکانے یا جلاوطن کرنے کی تمنا ظاہر کرتے ہیں کہ وطن عزیز کرپشن سے پاک ہو جائے۔ دوہری شخصیت والے یہ افراد ہمارے محلے میں بھی ہوتے ہیں، دفتر میں بھی، وکالت میں بھی اور سیاست میں بھی۔

ہماری رائے یہ ہے کہ مستقبل کے اہم عدالتی فیصلوں کے لئے ”ڈاکٹر جیکائل اور مسٹر ہائیڈ کا عجیب و غریب کیس“ سے بہتر کوئی دوسرا ناول نہیں ہے اور ہم اس کی پرزور سفارش کرتے ہیں۔ یہ ”دی گاڈ فادر“ کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔

اس ناول کے چند فقرے جو مستقبل کے اہم فیصلوں میں استعمال کرنے کے لئے ہمیں موزوں دکھائی دیے ہیں، یہ ہیں

You must suffer me to go my own dark way.

I have lost confidence in myself.

If he be Mr. Hyde, he had thought, I shall be Mr. Seek.

I sometimes think if we knew all, we should be more glad to get away.

There comes an end to all things; the most capacious measure is filled at last; and this brief condescension to evil finally destroyed the balance of my soul.

Here then, as I lay down the pen and proceed to seal up my confession, I bring the life of that unhappy Henry Jekyll to an end.

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar