گوجرانوالہ کی کھوتا پلی، میر کا شعر اور پنجاب کا کنجر


سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں اردو کے ایک شاعر گزرے ہیں میر جعفر زٹلی، انہیں اردو کے ابتدائی شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ طنز اور ہجو میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ قلم کو تلوار بنا رکھا تھا۔ جو سامنے پڑا، چیتھڑے اڑا دیے۔ بات یہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت میں طوائف الملوکی پھیل گئی تھی۔

ہمارے ہاں نجی ٹیلی ویژن چینلز آنے کے بعد سے بدزبانی کا کچھ ایسا چلن ہوا ہے کہ یار لوگ لغت سے ڈھونڈ کر ملفوف گالیاں لاتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جسے گالی دینا ہے، اس تک پہنچ گئی اور اگر جواب دہی تک بات پہنچے تو اردو کا دامن وسیع ہے۔ ہم تو ”مشاورت“ اور ”شرمناک“ جیسے سامنے کے الفاظ کا مفہوم متعین نہیں کر سکتے۔ سو برس سے سیکولرازم کو لادینیت لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے آئے ہیں۔ مقامی لب لہجے میں اداکیے گئے عربی اور فارسی کے گپت لفظوں کا من گھڑت مطلب بتا دیں گے۔ یہ جو اورنگزیب کے احوال میں طوائف الملوکی کا لفظ آیا تو اپنا ایک تجربہ بیان کرنے کو جی چاہا۔

ٹیلیویژن کے ایک پروگرام میں ایک بزرگ صحافی طوائف الملوکی کا لفظ کچھ اس طور برت رہے تھے کہ یہ تو معلوم ہو گیا کہ موصوف اپنے ممدوح کے درجات ارذل پیشوں میں بلند کرنا چاہتے ہیں لیکن جملوں کے دروبست میں ”طوائف الملوکی“ کا لفظ ٹھیک نہیں بیٹھ رہا تھا۔ وضاحت چاہنے پر معلوم ہوا کہ عربی کی اس ترکیب ”طوائف الملوکی“ کے جزو اول پر اٹک گئے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنے سیاسی تجزیے کے کشتگان کو ساکنان سوہا بازار نزد ٹبی گلی ثابت کر دیا جائے۔

عرض کی کہ حضور اگرچہ اس ترکیب کا آغاز اشتہا انگیز ہے لیکن اس کے دوسرے حصے میں ملوک کا ذکر بھی آیا ہے۔ حافظ نے کیا خوب کہا ہے،

عشق اول نمود آساں ولے افتاد مشکل ہا۔

یہ طوائف تو مچھلی پکڑنے کے کانٹے میں کیچوے کے طور پر استعمال کی گئی ہے۔ اس کے پیچھے ملوکیت کا دیو استبداد منہ پھاڑے چلا آتا ہے۔ ملوک عربی میں بادشاہ کو کہتے ہیں۔ تو بھائی یہ طوائف آپ کے کسی کام کی نہیں۔ جہاں بادشاہت ہے، اقتدار ہے اور چڑھتے سورج کی کرنیں پڑ رہی ہیں، یہ طمنچہ خانم وہیں پہ مجرا بجا لاتی ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ اورنگزیب کے مرنے کے بعد بادشاہت اس تیزی سے ہاتھ بدلنے لگی جیسے طوائف اپنے گاہکوں کو یکے بہ دیگرے متمتع کرتی ہے۔

سو یہ رہی داستان ہمارے معروف دفاعی تجزیہ کار حضرت سعید لطیف کی خشمگی اور اردو پر حیرت انگیز دسترس کی۔ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ جوش ملیح آبادی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جوش صاحب لاہور تشریف لائے۔ ایک صاحب زادے نے استدعا کی کہ میر تقی میر کا ایک شعر سمجھا دیا جائے۔ جوش نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا

میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں

جوش مسکرائے اور فرمایا، کنجر تنگ کر رہا ہے؟ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، دیکھیے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمن کی وادی میں کنجر خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو۔ تو میر صاحب اس شعر میں اپنی بے کسی کو خانہ بدوشی سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ بادی النظر میں طوائف الملوکی کی ترکیب پر دل مچل اٹھتا ہے لیکن اس دو دھاری ترکیب کو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ ہی کہئیے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا، ہیں نہایت خوش نما دو جیم ان کے ہاتھ میں۔ خود سب جج تھے تو انہوں نے دونوں جیم ثمر قند و بخارا کی طرح ایک ہی مطبوع چہرے کے سپرد کر دیے۔ آج اکبر الہ آبادی زندہ ہوتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اس جج میں ایک جیم جرنلسٹ کا بھی ہے اور اس کے اوپر بھی ایک جیم رکھی ہے جس کا نام لینا منع ہے۔ جوش ملیح آبادی جانتے تھے اور ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ پنجاب کا کنجر تنگ کرتا ہے۔

بات مرزا جعفر زٹلی سے چلی تھی۔ 1713ء میں فرخ سیر شہنشاہ ہوئے تو جعفر زٹلی نے شعر کی جھونک میں آ کر نئے بادشاہ کی ہجو کہہ دی۔ بادشاہ نے گلا گھونٹ کر قتل کروا دیا۔ خیر گزری کہ اب بادشاہ فرخ سیر ہے اور نہ شاعر جعفر زٹلی۔ ہمارے آپ کے حصے میں فیصل آباد کے جعفر حسین آئے ہیں۔

جعفر حسین بھی طنز اور ہجو کے بادشاہ ہیں۔ صحافت کے خلیفہ ہارون رشید کا پھلکا اڑاتے ہوئے ”بچی حضور بچی“ کا مادہ تاریخ نکال لاتے ہیں۔ کبھی اپنے لالہ موسی کے مضاف میں جا پہنچتے ہیں اور چوہدری چھوٹو رام کے لب و لہجے میں ارباب سربلند کی خبر لیتے ہیں۔ مستقل قیام خلیج کی کسی بستی میں رکھتے ہیں۔ اگرچہ انہیں امیر الملک اور شیخ توبہ شکن کے بارے میں باخبر ہونا چاہئیے لیکن قیاس یہ ہے کہ ان اندھیری بستیوں میں بیٹھے ہوئے جعفر حسین کو اپنا پاکستان اور اس کے رہنے والوں کے فراخ سینے اور کھلے دل یاد آتے ہیں۔ پس اسی ترنگ میں حضرت نے کچھ لکھ گھسیٹ دیا تھا جسے عمران خان صاحب کے ایک نورتن لے اڑے۔ ایک آفت اٹھ کھڑی ہوئی۔

اتفاق سے اسی ہنگام جعفر حسین پاکستان چلے آئے۔ ان کی طنزیہ تحریر نے یہاں پر تہلکہ مچا رکھا تھا۔ باخبر دوستوں نے جعفر حسین کو اشارہ کیا کہ صاحب نکل لیجیے۔ اردو ادب 1713ء میں جعفر زٹلی کی قربانی دے چکا۔ 2017ء میں جعفر حسین کی بلی چڑھائی گئی تو اس میں چند درچند زیاں کا اندیشہ ہے۔ بارے خیر گزری، جعفر حسین نے تقیہ اختیار کیا۔

ایسی داستان لندھور جیسی تمہید اس لیے باندھی کہ جعفر حسین نے گوجرانوالہ کی کھوتا پلی کا خاکہ اڑایا ہے۔ عرض کی ہے

کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روز گار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

مڑ کے دیکھتے ہیں تو پچاس برس پہلے کی وہ کھوتا پلی حافظ شیراز کا آب رکنا باد معلوم ہوتی ہے۔ بچپن کی آنکھ میں گل بوٹا زیادہ ہرا معلوم ہوتا ہے اور اگر غلاظت کی بدرو ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے بہتی رہے تو پھر وہ ایسی بری معلوم نہیں ہوتی۔ یاد کے منظر کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ بھائی جعفر حسین کھوتا پلی کا نام سن کر کھکھلا دیے۔ انہیں مزید انگیخت کرنے کے لئے بتانے میں ہرج نہیں کہ درویش جس سکول میں تعلیم پاتا تھا، اسے مقامی زبان میں کھوتی اسکول کہا جاتا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر اہل پنجاب یہ سمجھ لیتے کہ کسی کو ”کھوتا“ کہنے میں لاڈ، پیار، اپنائیت اور گالی یکساں مقدار میں شامل ہو جاتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کے درجے بلند کرنے کے لیے ازقسم طوائف الملوکی مغلظات نہ گھڑنا پڑتیں۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی کم عمر پنجابی لڑکے کو ”اوئے کھوتے“ کہہ کر بلائیں۔ کیسا ہنستا ہوا آپ کا حکم مانے گا۔

بات یہ ہے کہ مسلسل طوائف الملوکی میں زندگی کرنے کے بعد ہمیں اب میر تقی میر کی خانہ بدوشی بری نہیں لگتی۔ جعفر حسین اب کے پاکستان آئے تو برادر عزیز کو کھوتا پلی پر لے جائیں گے۔ اور پوچھیں گے کہ یہ پختہ چوڑی جناح روڈ جس پر تانگوں، ریڑھوں، کاروں، موٹر سائیکلوں اور ٹرکوں کا ایک ازدحام نامعلوم کس طرف رواں ہے، بہتر ہے یا پچاس برس پہلے کی وہ کھوتا پلی بھلی تھی جہاں گندے پانی کی ایک نیم رواں بدرو کے کنارے جنگلی سونف کی جھاڑیاں اگتی تھیں اور یپپل کے بہت پرانے درخت کے نیچے رکھی ایک جھلنگا چارپائی آنے جانے والوں کا انتظار کرتی تھی۔


اسی بارے میں

کھوتا پلی پر اجنبی 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments