میرشکیل کا قابل اعتراض جملہ اور سوشل میڈیا کی طاقت


میرشکیل الرحمن پچیس جولائی کو توہین عدالت کی پاداش میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ چار باتیں انہوں نے عدالت کے اندر کہیں اور ایک بات عدالت کے باہر۔ عدالت میں کہی گئی باتوں کو احباب نے درخوراعتنا نہیں سمجھا، کیونکہ وہ باتیں غورطلب ہیں۔ عدالت کے باہر کہے گئے ایک ضمنی جملے پر ہاہاکار مچ گئی، کیونکہ اسی شور میں عدالتی بیان کو دبانا ممکن تھا۔ دراصل جس بات کا ذکر فسانے میں نہ ہو، وہی بات نشتر بن جائے ، توقضیہ ایک طرح سے بہت واضح ہوجاتا ہے۔اس پر اطمینان کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

خیر کی بات یہ ہے کہ اس مارماری میں ایک اوربحث نے جنم لے لیا ۔ اس بحث میں ایک طبقہ بظاہر سوشل میڈیا کا دفاع کرتا نظر آرہا ہے۔خیر سے یہ وہ طبقہ ہے جسے سوشل میڈیا نے زندگی کی ایک نئی الجھن میں ڈال دیاہے۔ماضی قریب کے مقدمات اپنی جگہ مگرحلیم طبعیتوں میں اب در آنے والی درشتی اس کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس دفاع میں ہمارے سوشل میڈیا کے محترم دوستوں نے اور کچھ اخبار نویسوں نے جو کہی، واللہ طبعیت سدھر کے رہ گئی۔ وہ وہ پہلو اجاگر کیے گئے کہ اللہ اللہ۔ سب سے دلفریب پہلو جو مجھے لگا وہ ایک تاثر ہے۔ تاثر یہ دیاگیا کہ میرشکیل الرحمن نے سوشل میڈیا کو سخت سست اس لیے کہا کہ سوشل میڈیا حزبِِ اختلاف کی تنہا آواز ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو چلیے جائزہ لیتے ہیں،۔جائزہ لینے میں کیا حرج ہے۔

نوےکی دہائی تک پاکستان میں حزبِ اختلاف کی قوتوں کواپنی بات کہنے کے ذرائع کم ہی میسررہتے تھے۔حکومت پر تنقید کرتے وقت کانوں کے نرموں پر درجہ حرارت بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔تنقید کرنے والے اخبار نویس کو عزیزواقارب احتیاط کا مشورہ دیتے تھے۔ اب مگرایسا نہیں ہے۔ذرائع ابلاغ کی انڈسٹری لگنے کے بعد صحافت کا ستون توانا ہوگیا ہے۔ اب اپنی بات کہنے اورلکھنے کے لیے سب سے زیادہ ذرائع حزبِ اختلاف کو ہی میسر رہتے ہیں۔

اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سوشل میڈیا نےہی حزبِ اختلاف کے لیے اظہارِ رائے کے مواقع فراہم کیے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حزبِ اختلاف کو میسر ذرائع میں سوشل میڈیا ایک نیک ذریعے کا اضافہ ہے۔ کیونکہ اب منتخب حکومت پر نقد کرنے والوں کے لیے عزیز واقارب فکرمند نہیں ہوتے۔ فکرمندی اب صرف تب ہوتی ہے جب آپ طاقت کے غیر جمہوری مراکز سے ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔ آزاد فکر بچوں کی ماوں کا آخری ڈر یہی رہ گیا ہے کہ لاہوت ولامکان سے بلاوا نہ آجائے۔

سوشل میڈیا اظہارِرائے کا تنہا ذریعہ صرف ان شہریوں کےلیے ہےجوریاست کے لیے ایک نئے بیانیے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کا محاذ سیاسی نہیں، فکری ہے۔ ان شہریوں کو اپنی بات کہنے کے لیے حزب اقتدار کےزیراثرمیڈیامیں جگہ ملتی ہے اورنہ ہی حزب اختلاف کے زیراثر میڈیا میں۔کیمرے کی غیر جانبدار آنکھ وجود نہیں رکھتی۔اگر وجود رکھتی بھی ہے تو مشرق سے ابھرتے ہوئےنئے سورج کوٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی اسے تاب نہیں ۔ ہاں کبھی ہوا کا یک آدھ جھونکا موافق آجائے تو پھر ان شہریوں کو جزوی طور پر اپنی بات کہنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ان شہریوں کے موقف سے کسی سیاسی قوت کو اتفاق سے فائدہ پہنچ رہا ہو۔

مثلا موجودہ سیاسی کشمکش ہی دیکھ لیں۔ ترقی پسند ذہن کو مسلم لیگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔دلچسپی ہو بھی کیا سکتی ہے آخر۔ اس بات میں البتہ انہیں پوری دلچسپی ہے کہ طاقت کے غیر جمہوری مراکز کے قبضے سے اس ملک کو نکلنا چاہیئے۔شہری کے ووٹ سے بڑھ کر کسی چیز کی اہمیت نہیں ہونی چاہیئے۔قومی مفاد کی تشکیل معاشی اور اقتصادی بنیادوں پرہونی چاہیئے۔ خارجہ پالیسی کی بنیادنظریاتی نہیں، سیاسی ہونی چاہیئے۔ اداروں کے بیچ حفظِ مراتب کا لحاظ ہونا چاہیئے۔پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہونی چاہیئے کہ یہ فرد کے حقِ انتخاب کا سوال ہے۔

عقیدے کی بنیاد پر شہریوں کے بیچ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیئے۔ ریاست کو شہری کی مذہبی ضروریات کا بندوبست کرنا چاہیئے۔شہری کو کس عقیدے پر رہنا ہے، کس مذہبی شناخت کو وہ پسند کرتا ہے، ریاست کوان معاملات سے لاتعلق رہنا چاہیئے۔ دفاعی پالیسی میں پرائیویٹ جہاد کی جگہ نہیں ہونی چاہیئے۔ کمانڈر ان چیف کا رتبہ کسی جہادی رہنما کو نہیں ملنا چاہیئے۔ احتساب کے نام یک رویہ ٹریفک چلا کرپر عوامی مینڈیٹ کو کچلنا نہیں چاہیئے۔ اہانتِ مذہب کے نام پر کسی سے رائے کا حق نہیں چھیننا چاہیئے۔ جب ایک شہری کا نقطہ نظر یہ ہو، تو لازمی طور پر اس کا فائدہ وزارت عظمی کے منصب پر بیٹھے شخص کو پہنچتا ہے۔

اہل اقتدار اور ترقی پسند شہری کے مقاصد میں فرق ہوتا ہے۔ترقی پسند کی جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ سیاسی طاقتوں کی جنگ سیاسی مراعات کی جنگ ہے۔ اب اسے اتفاق کہیے یا قدرت کا لکھا کہیے کہ روایتی ریاستی بیانیے کے جملہ حقوق طاقت کے جن مراکز کے نام محفوظ ہیں، انہی مراکز سے پارلیمنٹ کی نمائندہ قوتوں کا معرکہ آن پڑا ہے۔ مگر ترقی پسند شہری کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اب بہت ہوچکا۔ اگر عدالتی احتساب کا چرخہ ہی گھومتا رہا تو سیاسی استحکام کو دو صدیاں لگ جائیں گیں۔ اس سلسلے کو کہیں روک کر اب عوامی احتساب کے چلن کو عام کرنا چاہیئے۔

انتخابی تسلسل ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچا، مگر اتنے سی عمر میں بھی سیاسی کارکنوں نے ایک سیاسی قوت کو مسترد کرکے دوسری سیاسی قوت کو اقتدار سونپنے کا ہنر جان لیا ہے۔زندہ پارلیمنٹ نے ابھی دودھ کے دانت نہیں توڑے ہیں، مگر سیاسی شعور نے ایک سطح تک یہ بھی جان لیا ہے کہ ووٹ اجدادکے نام پرنہیں،کارکردگی کی بنیادپردیاجاتا ہے۔سیاسی شعورسب جان رہا ہے،کچھ مہلت مل جائے تو مان بھی لےگا۔

آمدم برسر مطلب! ترقی پسند سوچ کو اپنی بات کہنے کا موقع تب ہی میسر آتا ہے جب کسی سیاسی قوت کے سیاسی موقف کو ترقی پسند شہری کے اصولی موقف کی تائید مل رہی ہو۔ مرکزی ذرائع ابلاغ میں ترقی پسند اپنی بات کے ابلاغ کے لیے اسی حربے کو بروئے کار لانے پر مجبور ہیں۔دوسرے کے گیہوں میں اپنے دانےبھی رکھ دیتے ہیں۔اس کے پسیں گے ہمارے بھی پس جائیں گے۔ ترقی پسند شہری کو جہاں جانا ہے، وہاں بس نہیں جاتی۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ کسی اور کو وہاں جانے کی حاجت پیش آجائے تو ہم بھی لٹک جائیں۔ پہنچ گئے تو پہنچ گئے، نہ پہنچے تو اللہ بڑا بادشاہ ہے۔جہاں تک پہنچ جائیں، فتح سے وہ بھی کم نہیں۔ آگے ارض خدا تنگ نیست، پائے گدا لنگ نیست۔ایسی بے یقینی سے دوچار شخص کو سوشل میڈیا میسر آجائے تواس کا مطلب جانتے ہیں؟ یعنی جیسے صحراوں میں چلے ہولے سے باد نسیم ۔ جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔

سوشل میڈیا کی افادیت کو ترقی پسند شہری سے بہترکون سمجھ سکتا ہے۔ کسی کے لیے یہ انٹرٹینمنٹ ہوگا اور کسی کے لیے سیاسی مشغلہ۔ مگر ترقی پسند شہری کے لیے اس کی اہمیت لکڑی کے اس قلم کی سی ہے جسے حضرت انسان نے پہلی بار تراشا تھا۔ اس کی اہمیت کسی بھی طور چودہویں صدی میں لگنے والے پریس سے کم نہیں۔کیوں؟ علم تو پہلے سے موجود تھا، پریس نے کیا دیا؟ پریس نے علم کو فروغ کو تیز تر تو کیا، مگر جو نئی بات ہوئی وہ یہ تھی کہ علم پر سے مذہبی اور سیاسی اشرافیہ کا اجارہ ختم ہوگیا۔جن تلخ سوالات پر قدغن تھی وہ جوابات سمیت مارکیٹ میں آنے لگے۔چنانچہ پریس فرانس میں لگا ہو یا سلطنتِ عثمانیہ میں، پبلشر کی سزائے موت پر سیاسی اشرافیہ اور مذہبی اشرافیہ کابرابر اتفاق تھا۔

صرف گزشتہ دوبرسوں کا جائزہ لے لیجیے۔کیا یہ سچ نہیں کہ غیر مسلم اقلیت جن پاکستانی شہریوں کو کہا جاتا ہے، ان کے مسائل پہلی بار سوشل میڈیا پر ہی اجاگر ہوئے۔ صنفی امتیاز کا نشانہ بننے والوں کو اپنی تحریک چلانے کا پہلی بار یہیں موقع ملا۔شناخت کی بنیاد پر قتل ہونے والے شہریوں کے نوحوں اور مرثیوں کو یہیں جگہ ملی۔جو شہری سوال اٹھانے کے جرم میں بنامِ خدا سنگسار کیے گئے، ان پر لگے الزامات کی حقیقت یہیں کھل سکتی تھی،اور یہیں کھلی۔ جن سنجیدہ سوالات کو قومی مفاد کے خلاف کہہ کر مسترد کردیا جاتا تھا، ان سوالات کو گنجائش یہیں ملی۔جن سچائیوں کو “قومی مفاد” کے تحت چھپایا گیا، وہ سچائیاں یہیں آشکار ہوئیں۔فرسودہ بیانیہ کیا ہے، لوگوں نے یہیں جانا۔

نئے بیانیے کی اہمیت کیا ہے، لوگوں نے یہیں سمجھا۔ طاقت کے غیر جمہوری مراکز کے سیاسی ہتھکنڈے اور مذہبی وارداتیں کیا ہیں، نوجوانوں پر یہ انکشاف یہیں ہوا۔جن مصنفین کو فحش نگارکہہ کر رسوا کیا گیا، ان کی تصنیفات میں مرقوم درد کو نئی نسل نے یہیں محسوس کیا۔۔نصابی کجیوں اور آئینی کوتاہیوں پر یہیں گرفت ہوئی۔گزشتہ پانچ برس میں غیر جمہوری طاقتوں کو اسی محاذ پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔جبر کی تمام قوتوں کو مزاحمت کا سامنا یہیں سے ہے ۔جو اخبار نویس میر شکیل الرحمن کے ایک جملے پر آتشِ زیرپا ہوکرسوشل میڈیا کے دفاع میں کھڑے ہوگئے ہیں،کیا وہ سوشل میڈیا کے مذکورہ بالا فائدے کو بھی فوائد میں شمار کرتے ہیں؟ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے یہ دوست سوشل میڈیا کے اس پہلو کو فتنے کا باعث سمجھتے ہیں۔تبھی آپ دیکھتے ہیں کہ فرانس اور سلطنت عثمانیہ کی طرح یہاں بھی دو ہی اشرافیہ سوشل میڈیا کے خلاف ایک صفحے کی ایک ہی سطر پر ملتے ہیں۔

ایک اور طرح سے بھی جائزہ لیاجاسکتا ہے۔کچھ سوالات پرسوچ لیا جائے تو جائزہ مکمل ہوجائے۔ سوشل میڈیا کی دیواریں کیا حزب اختلاف کی سیاسی آوازوں پر تنگ ہیں؟ نہیں۔ یہ دیوارہائے گریہ حریتِ فکر پریقین رکھنے والوں پر تنگ ہیں۔ غداری اور مذہب دشمنی، یہ دو تلواریں اگر بیک وقت کسی کے سر پر لٹکائی گئی ہیں تو وہ ترقی پسند علمائے کرام ہی ہیں۔ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز پیجز کی مثال یہاں اس لیے مت دیجیے گا کہ نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی پر کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں صرف ٹھوس فکری مکالمہ پیش نظر ہے۔حساس طبعیتوں میں نفرت انگیزی کی گنجائش نہیں ہوتی اور مکالمے کی حد نہیں ہوتی۔ وہ مکالمہ، جس کا بوجھ پاکستان میں تنہا سوشل میڈیا نے اٹھا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).