کم سن بچی اور چالاک کوے


گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ انٹر نیٹ، فیس بک، وٹس ایپ اور ویڈیو گیمز کے تصور نے بھی جنم نہیں لیا تھا۔ ٹی وی بھی اکا دکا گھروں میں تھے جو ٹریکٹر کی بیٹری پہ چلتے تھے۔ لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے شوق سے دیکھتے تھے۔ کرکٹ کے رسیا دن کو ٹیسٹ کرکٹ کی ٹک ٹک دیکھتے رہتے تھے۔

شام ہوتے ہی بستر بچھ جاتے اور مٹی کے تیل پہ جلنے والا دیا مدھم سی روشنی بکھیرتا رہتا یا کنڈے سے لٹکتی لالٹین گھر کے کچے صحن کو لال پیلی روشنی بخشتی رہتی۔ دیےجب بجھا دیے جاتے تو اندھیری راتوں میں ستارے پہلے سے زیادہ روشن ہو جاتے۔ ہم بستر پہ لیٹے تارے گنتے رہتے یا پھر زور تخیل سے ستاروں کو جوڑتے اور طرح طرح کے نقوش بناتے بگاڑتے رہتے۔ بابا کہتے کہ آسماں پہ کچھ ستارے ایسی ترتیب سے ہیں کہ ان کو ملانے سے کسان کاپلنگ، اس کا حقہ، بیلوں کا جوڑا اور پلنگ کے پاس اونگھتا کتا سب بن جاتے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی محفل انجم میں پلنگ، حقہ اور بیل ڈھونڈتے ڈھونڈتے سو جاتے تھے۔

بچپن کی کہانیوں کی سحر انگیزی تھی کہ ہم روز ابو سے اصرار کرتے کہ وہ ہمیں چڑیا بھینس، کوا اور لالی، دھن بادشاہ یا پھر جن پری اور شہزادی کی کہانی سنائیں۔ کہانی سناتے تو ہم سنتے سنتے سو جاتے۔ کبھی نہ سناتے تو ہم روٹھ کے سو جاتے۔ ان کہانیوں میں ایک کہانی یہ بھی تھی۔

ایک آٹھ دس سالہ بچی مکئی کے پھلے کھا رہی تھی کہ چالاک کوے نے جھٹ سے ایک پھلا بچی کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور ٹالی کی اونچی شاخ پہ جا بیٹھا۔ بچی روتےروتے درخت کے پاس گئی ’دیکھو جی! کوے نے میرا پھلا چھین لیا ہے۔ اس گندے کوے کو شاخ سے اڑا دو‘۔ ٹالی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کوے نے اس کا تو کچھ نہ بگاڑا ہے۔ بچی کو گمان نہ تھا کہ ٹالی یوں کورا جواب دے گی۔ وہ ترکھان کے پاس جاتی ہے اور ٹالی پہ آری چلانے کی استدعا کرتی ہے۔ ترکھان جھڑک دیتا ہے۔ کہتا ہے درخت نے میرا کیا نقصان کیا ہے۔ بچی ہمت نہیں ہارتی اور سیدھا زمیندار کے پاس جا کر ماجرا بیان کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ترکھان کو گاؤں سے نکالا جائے۔ زمیندار بچی کو ہنس کے ٹال دیتا ہے۔

منہ لٹکائے چوہوں کے پاس جاتی ہے اور زمیندار کے گھر کے ڈبے کترنے کی درخواست کرتی ہے۔ چوہوں کے انکار پر وہ بلی کی منت سماجت کرتی ہے کہ وہ خود غرض چوہوں کو ہڑپ کرے۔ بلی بھی مدد کرنے سے انکاری ہوتی ہے تو اس کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے کتے سے مدد مانگتی ہے۔ کتا الٹا بچی پہ بھونکنے لگتا ہے۔ ڈنڈے سے کہتی ہے کہ ذرا کتے کی مرمت کیجییے گا۔ ڈنڈہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ پھر آگ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہے کہ ڈنڈے کو جلا دو۔ انکار۔ سب یہ کہہ کر بچی کی مدد نہیں کرتے کہ ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ چارو ناچار دریا کے کنارے بیٹھ جاتی ہے اور دریا کو ساری کہانی سناتی ہے۔ بچی کی بے بسی پہ دریا کا دل پگھل جاتا ہے اور وہ آگ کو بجھانے بچی کے ساتھ چل پڑتا ہے۔ آگ معافی مانگ لیتی ہے اور ڈنڈے کو جلانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ڈنڈا کتے کی مرمت پہ راضی، کتا بلی کو کاٹنے، بلی چوہوں کو کھانے، چوہے زمیندار کے ڈبے کترنے، زمیندار ترکھان کو گاؤں سے نکالنے اور ترکھان ٹالی کو آری سے کاٹنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ ٹالی التجا کرتی ہے کہ وہ کوے کو اڑاتی ہے اور آئندہ کبھی نہ بیٹھنے دے گی۔ کوا یہ سن کر مکئی کا پھلا بچی کو واپس تھما دیتا ہے۔ بچی چھینا ہوا پھلا واپس لے کر خوشی خوشی اپنے گھر کی راہ لیتی ہے۔

ہم یہ سن کہ بے حد خوش ہوتے تھے کہ بالآخر بچی کو اس کا حق ملا۔ دریا کی ہمدردی سے بھی بہت متاثر ہوتے تھے۔

آج اس کہانی کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ بچوں کی ایک کہانی کے اندر ہمارے معاشرے کے کتنے کرب چھپے تھے۔ کہانی کے خالق پہ یہ حقیقت عیاں تھی کہ ہمارے پدرانہ معاشرے میں بچیوں سے ان کے حقوق چھین لینا نئی بات نہیں۔ ہر دم سر پہ منڈلاتے چالاک کوے کسی بچی کو مکئی کا پھلا کہاں سکون سے کھانے دیتے ہیں۔ خاندان، گاؤں، محلے اور شہر میں کتنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ ملتا ہے؟ جو حصہ لیتی ہیں ان بہنوں کو ساری عمر بھائیوں کی نفرت کے کانٹے جھپتے رہتے ہیں۔ باپ، بھائی، رشتہ دار اور گاؤں کے سب سیانے سر جوڑ بیٹھتے ہیں اور رشتے طے کرتے ہیں۔ ڈھول بجاتے ہیں، پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں اور لڈو بانٹتے ہیں۔ بس بیٹی سے دو لفظ نہیں پوچھتے کہ ’بیٹی تو راضی ہے؟ ‘۔ ڈھول اور پٹاخوں کے شور میں بیٹی کی آواز گنگ ہو گئی۔ جہاں بیٹی کے چپ رہنے کو نیکی کا درجہ ملے اور رائے دینا معیوب ٹھہرے وہاں کی لوک کہانیوں میں بھی بچیاں درخت، آگ اور دریا سے مدد مانگنے پہ مجبور ہوتی ہیں۔ درخت بھی کہاں دکھ بانٹ سکتے ہیں؟

ہمارے گاؤں میں لڑکیاں سکول کم ہی جاتی تھیں۔ کھانا پکانا، برتن مانجھنا، جھاڑو لگانا، باپ اور بھائیوں کی خدمت کرنا سب ان کی ذمہ داری ہوتی۔ سب گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور تلخ باتیں سن کر خاموش رہنا ان کی عادت تھی۔ میرے گاؤں کے حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ کہانی میں جو بچی مکئی کا پھلا واپس لینے کے لیے بھاگ دوڑ اور شورو غوغا کرتی ہے وہ شاید کسی اور گاؤں کی ہو گی جہاں کی بچیاں کووں کی چھینا جھپٹی پہ بول سکتی ہیں۔ اپنے حق کی خاطر آواز اٹھا سکتی ہیں۔

کہانی تخلیق کرنے والا بھی کوئی کمال آدمی تھا۔ بچوں کی ایک سادہ سی کہانی میں بھی کیا کیا حقیقتیں سمو دیں۔ کہانی کے سب کردار علامتی کردار بن جاتے ہیں۔ ایک طرف کم سن، کمزور، تنہا بچی ہے تو دوسری طرف چالاک کوا، دیو ہیکل درخت، مصروف ترکھان، بے پرواہ زمیندار، بے حس چوہے بلیاں، بھونکتے کتے اور دہکتی آگ۔ بچی نے سب کے سامنے ہاتھ جوڑے، سب سے مدد مانگی، سب کو پکارا کہ حق دلا دیں۔ سب نے جھڑک دیا۔ سب نے ہنس کے ٹال دیا۔ یہ صرف ایک بچی کی کہانی نہیں۔ یہ تو ظلمت کدہ میں آہ و بکا کرتی بے بس عورت کی کتھا ہے۔

کہانی گو نے سوچا ہوگا کہ کہانی کا اختتام اچھا ہونا چاہیے۔ یہ اس کے حساس دل میں چھپی آرزو بھی ہو سکتی ہے کہ کاش کوئی بچی کبھی بے بس نہ رہے۔ لہذا اس نے کہانی کو ایک خوشگوار موڑ دے دیا۔ دریا بچی کی مدد کے لیے چل پڑا۔ ایسا ہو سکتا ہے کیا؟ کہا نا! یہ بچوں کی کہانی ہے۔

ہمارے ہاں تو مردوں کے پاپ دھونے کے لیے عورتوں کے سودے ہوتے ہیں۔ کم سنی کی شادیاں عام ہیں، جائیداد سے حصہ نہ دینے کے لیے کیا کیا گھناؤئنے منصوبے بنائے جاتے ہیں، کالج یونیورسٹی نہیں بھیجا جاتا، بات کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، نام نہاد عزت کے دوپٹوں میں قید کیا جاتا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی دریا مدد کو نہیں پہنچا۔ کتنی مجبور ماؤؤں بیٹیوں کے لاشے دریاؤں میں بہے۔ کسی دریا نے آہ تک نہ بھری۔ سب ڈکار گئے۔

صرف بچوں کی کہانیوں میں دریا ایک ہمدرد دیوتا کی طرح مدد کر سکتا ہے۔ حقیقت میں تو اپنی موج میں بہتا چلا جاتا ہے۔ اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ کم سن بچیوں اور ڈاکو کووں کے اس سماج میں ہم انسان بھی اپنی اپنی موج میں مست ہیں۔ بے بس آوازوں کو ہم گاؤں کے زمیندار کی طرح ہنس کے ٹال دیتے ہیں

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti