آف شور کمپنی کے مالک جہانگیر ترین کے بچے ہیں


سپریم کورٹ نے جہانگیرترین نا اہلی کے لئے دائر درخواست پر آف شور کمپنی کی تمام دستاویزات دس روز میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں کہ تفصیل سامنے نہیں آتی تو پھر دیکھنا ہوگا کہ کیا پانامہ کیس کی طرح اس معاملے کی بھی مزید تحقیق جائے تا کہ ساری چیزیں واضح ہوسکیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے اپنے دلائل میں کہا کہ گزشتہ روز کے دلائل میں آف شور کمپنی اور ایس ای سی پی معاملے پر دلائل مکمل کرلیے تھے، آج آمدنی ٹیکس اور قرضے معافی پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار مدعا علیہ جہانگیرترین کی آف شور کمپنی کے کوئی دستاویزات تو سامنے نہیں لائے۔ وکیل نے کہا کہ اخبار کی خبر اور ٹی وی انٹرویو کا متن درخواست کے ساتھ لگایا ہے، پانامہ کیس میں بھی درخواست کے ساتھ اخباری تراشے لگائے گئے تھے اور سپریم کورٹ نے مقدمے میں فیصلہ دیا۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ پانامہ کیس میں پارلیمان میں کی گئی تقریر اور قوم سے خطاب کا معاملہ تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے سنہ دوہزار دس میں زرعی آمدنی گوشواروں میں ظاہر کی لیکن دوہزارتیرہ کے انتخابی کاغذات کے فارم مختلف آمدن لکھی، دونوں گوشواروں کو دیکھاجائے تو آمدنی میں چوبیس کروڑ پچاس لاکھ کا فرق ہے، اس طرح الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے اور صادق وامین نہیں رہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ترین نے زرعی ٹیکس نہیں دیا؟ دستاویزات میں تو ٹیکس کا ریکارڈ موجود ہے۔ وکیل نے کہا کہ زرعی ٹیکس دیا ہے مگر جتنا دینا تھا اس سے کم دیا کیونکہ آمدنی درست ظاہر نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین جانے اور محکمہ ٹیکس جانے۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ ترین نے جواب میں کہاہے کہ لیززمین سے زرعی آمدنی کو ٹیکس سے استثنا تھا۔ وکیل نے کہا کہ مقدمہ یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ گوشوارے میں زرعی آمدن درست ظاہر نہیں کی، لیززمین سے حاصل زرعی آمدن کو ٹیکس سے استثنا حاصل نہیں۔

جسٹس عمرعطا نے کہا کہ اگر آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ جہانگیرترین نے کم انکم ٹیکس دیا تو کیاوہ جھوٹا ہوگیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر ٹیکس محکمے سے رجوع کریں۔ وکیل نے کہا کہ اگر لیززمین سے حاصل آمدن زرعی انکم میں نہیں دکھائی گئی تو دوسری آمدنی میں ظاہرکی جاتی۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کا سوال بہت اچھاہے مگر اسے پنجاب کی ٹیکس اتھارٹی کے پاس لے کر جائیں۔ وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین کے لئے ہرصورت پوری زرعی آمدن ظاہرکرنا ضروری تھا۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ جہانگیرترین نے اپنے دفاع میں کہاہے کہ لیززمین فارم کے نام پر حاصل کی۔ وکیل نے کہا کہ ایسا ہی معاملہ سابق رکن قومی اسمبلی رائے حسن نواز کھرل کا تھا جنہوں نے ایک اثاثے پر ٹیکس نہیں دیاتو وہ دوسرے گوشوارے میں ظاہرتھی جس پر جسٹس عمرعطا نے کہا کہ رائے حسن نواز کامعاملہ مختلف تھا جس پر ان کو نا اہل کیاگیا۔ رائے حسن نے کہاتھا کہ اثاثے ان کے ہیں مگر ٹیکس کمپنی دیتی ہے، آپ کے مقدمے میں اس کیس کا حوالہ متعلقہ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب ٹیکس کامعاملہ دوسری عدالت میں زیرسماعت ہے تو سپریم کورٹ اس مرحلے پر کیسے کہہ سکتی ہے کہ غلط بیانی کی گئی۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب، آپ کا نکتہ سمجھ گئے ہیں، دیکھیں گے دفاع کے وکیل اس کی وضاحت کیسے کرتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ دوہزار پندرہ میں ضمنی انتخاب کے لئے کاغذات نامزدگی میں جہانگیرترین نے مختلف ٹیکس ریٹرن ظاہرکیا۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کی جمع تفریق درست نہیں، کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے پاس جائیں۔ اس بات پر وکیل عاضد نفیس مسکرائے اور جج صاحب کی بات سے اتفاق کیا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ تقریبا ہر رکن پارلیمان کسی کاروبار سے وابستہ ہوگا کیا اس کی فیکٹری کے کسی بھی ریکارڈ میں گڑبڑ کو اہلیت کا معاملہ بناکرسپریم کورٹ لایاجائے گا۔ صادق وامین کی آئینی شرط پہلے سے کسی عدالتی کارروائی اور فیصلے سے مشروط ہے۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جس شخص کے مالی اور باورچی بھی سات کروڑ کے شیئرز رکھتے ہوں اس پر سوال کا جواب آنا چاہیے۔ وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ اب وہ قرض معافی کے نکتے پر دلائل کا آغاز کرتاہوں۔ وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین جس کمپنی کے ڈائریکٹر تھے اس نے چارکروڑ نو لاکھ کا قرض معاف کرایا، دوملین سے زیادہ کا قرض ڈیفالٹر عوامی نمائندگی کی اہلیت نہیں رکھتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ دیکھناہے کہ قرض معاف کرنے والی کمپنی میں متعلقہ شخص کے کتنے شیئرز تھے۔ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق ننانوے میں یہ واضح ہے۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ کمپنی میں صرف ڈائریکٹرنہیں بلکہ قرض پر ضمانتی ہوتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین نے تسلیم کیا ہے کہ سنہ دوہزار سات میں قرض معاف کرایا اور پھر دوہزاردس میں اس کمپنی کے ڈائریکٹر بنے، سنہ دوہزار تیرہ میں کمپنی کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔

وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے انٹرویو میں کہاہے کہ قرض معاف کرانے والی کمپنی اس کے داماد کی تھی اور وہ اس وقت وفاقی وزیرانڈسٹری تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں جانتے قرض معاف کرانے کے لئے اثرو رسوخ استعمال کیا، مفروضوں پر بات نہیں کرسکتے۔ وکیل نے کہا کہ یہ عدالت نے دیکھناہے کہ کیا جہانگیرترین نے قرض معاف کرانے کے بعد کمپنی خود خرید لی۔ اس موقع پر وکیل اکرم شیخ نے اپنی نشست سے اٹھ کر کہا کہ عدالت اجازت دے تا کہ جہانگیر ترین کے انٹرویو کا مکمل متن جمع کرایاجاسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی اجازت ہے، عموما اس طرح کی صورتحال پر تبصرے سے گریز کرتا ہوں لیکن ایک چیز کی وضاحت ہمیشہ رہی ہے کہ کسی فریق کی کوئی پرانی بات یا بیان عدالت میں ایسے نہیں دیکھا جاسکتا کیون کہ وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اس کا نہیں، یا پھر اس وقت یہ مقصد نہیں تھا، اس حوالے سے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں اور آرٹیکل ایک سوچالیس کوبھی دیکھ لیا جائے کہ کیا کہتاہے۔ درخواست گزار کے وکیل کے دلائل اس مرحلے پر مکمل ہوگئے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ جہانگیرترین کے بچوں کی متعلقہ دولت کی تفصیلات کی دستاویز جمع کرانی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ یہ ٹرسٹ کس چیز سے متعلق ہے؟ وکیل نے کہا کہ کمپنی کا نام شائنی ویو لمیٹڈ ہے، یہ آف شور کمپنی ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہے، کمپنی اپریل دوہزار گیارہ میں بنائی گئی، یہ صرف ایک شیئر کمپنی ہے اور شیئر کی پاور ویلیو کچھ نہیں، دنیا میں کمپنی کے حوالے سے یہ ایک نئی تھیوری ہے کہ ایک شیئر بغیر کسی پاور ویلیو کے ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو بعد میں سمجھنے کی کوشش کریں گے پہلے یہ بتائیں کہ ٹرسٹ کیاہے۔ وکیل نے کہا کہ اس کمپنی کا ایک شیئرای ایف جی نومینی لمیٹڈ کمپنی رکھتی ہے، اورپھراس کے اوپر یہ ٹرسٹ ہے جس کانام دی رینڈم ٹرسٹ ہے، یہ ٹرسٹ جہانگیر ترین نے پانچ مئی دوہزار گیارہ کو ’سیٹلڈ‘ کیا تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ٹرسٹ سیٹل کرنے کا کیا مطلب ہے؟ وکیل نے کہا کہ اس کی تشریح بلیک لاء ڈکشنری سے دیکھی جاسکتی ہے۔ شائنی ویو کمپنی کے پاس وہ رہائشی پراپرٹی ہے جس کا ذکر عدالت میں آیاہے۔ پراپرٹی کہاں ہے اس کے ایڈریس کا ابھی علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پراپرٹی کہاں ہے، اس کی تفصیل جواب میں ہونا چاہیے تھی۔ پراپرٹی کی قانونی مالک تو کمپنی ہوئی لیکن اس کا بینفیشل مالک کون ہے؟ چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے بچوں کے بارے میں تفصیل پوچھی تو وکیل نے کہا کہ ایک بیٹاعلی ترین اورتین بیٹیاں مہر، سحر اور مریم ہیں، یہی کمپنی کے اصل مالک ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لندن پراپرٹی کی مالیت کتنی ہے؟ وکیل نے کہا کہ ہمارے مقدمے میں وہ معاملہ نہیں جو عمران خان کے کیس میں ہے، جہانگیر خان کے معاملے میں پراپرٹی ٹرسٹ کے فنڈز سے خریدی گئی اور ٹرسٹ کو جہانگیر ترین اور اس کے بچوں نے فنڈز دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھرتو یہاں بھی پانامہ کیس کی طرح تفتیش ہوتا کہ ہرچیز سے پردہ اٹھ سکے، آسان اور سادہ سوال پوچھاتھا کہ ٹرسٹ کیسے بنایا، کتنا سرمایہ لگایا گیا، اور کس نے کتنے پیسے دیے۔ کل کتنا سرمایہ جہانگیرترین نے دیا۔ وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے کل تیس لاکھ پاؤنڈ بچوں کو تحفے میں دیے اور انہوں نے ٹرسٹ میں لگائے، جہانگیر ترین نے گیارہ لاکھ ڈالرز بھی بچوں کو بھیجے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ رقم ترین نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی؟ یہ پاکستانی کرنسی میں تھی یاغیرملکی کرنسی میں منتقل کی گئی؟ وکیل نے کہا کہ لندن پراپرٹی مارگیج (رہن اور قسطوں) پر لی گئی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ جب ٹرسٹ بنایا تو اس کی دستاویزات اور تفصیلات بھی ہوں گی۔ وکیل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ یہ ٹرسٹ بچوں کا ہے اور آف شور کمپنی بھی انہوں نے بنائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویزنہیں کہ جہانگیر ترین نے بچوں کو رقم دی اور انہوں نے غیرملکی کرنسی میں تبدیل کرکے باہر بھیجی۔ وکیل نے کہا کہ اس سے مقدمے پر کوئی اثر نہیں ہوتا کیون کہ اصل مالک بچے ہیں اور معاملے کا جہانگیر ترین سے براہ راست تعلق نہیں۔ بچے متعلقہ حکام کو لکھیں گے تو دستاویزات ملیں گی۔ جسٹس عمرعطا نے کہا کہ نکتہ یہ ہے کہ بچوں کو تحائف دیے گئے اور پراپرٹی بنائی، درخواست گزار کہتاہے کہ یہ بے نامی کے لیے بچوں کے نام رکھی گئی۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے لائی گئی درخواست میں ایسا کوئی نکتہ نہیں اٹھایا گیا، ایسی کوئی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر کیا گیا کہ بچے خودمختارہیں۔ وکیل نے کہا کہ یہ انتہائی دولت مند شخص کے بچے ہیں۔ عدالت کے سوال پر بتایا گیا کہ علی ترین شادی شدہ اور بچوں کے باپ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مرحلے پر نہیں جانتے کہ اس کیس میں مزید کیا اقدامات اٹھائیں گے اور کیا کسی تحقیق و تفتیش کے لئے بھی کہیں گے۔ فریقین کو دستاویزات جمع کرانے کے لئے موقع دینا چاہتے ہیں تا کہ بعد میں کوئی دستاویز لاکر یہ نہ کہے کہ اسے بھی دیکھ لیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ آف شور کمپنی معاملے پر مزید دستاویزات جمع کراؤں گا۔

جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ جب بچوں کو تحائف دیے گئے تو کیا وہ خودمختار تھے؟ جواب مثبت آیا تو چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ سے پوچھا کہ سماعت کب تک ملتوی کریں اور یہ دستاویزات کب تک آنا چاہئیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت ہدایت کرے کہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آخرمیں عمران خان کی طرح یہ نہ کہہ دیں کہ جن بنکوں کی دستاویزات تھیں وہ کب کے بند ہوچکے اس لیے تصدیق کیسے کرائیں۔ اس بات پر کچھ افراد مسکرائے اور چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ ہمیں انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ کرے اس ادارے کی عزت اور وقار اسی طرح برقرار رہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل کو دستاویزات جمع کرانے کے لئے دس روز کی مہلت دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).