شریف خاندان نے آج تک کون سا کام ڈھنگ سے کیا ہے؟


اتنی گڈ گورننس اور کرپشن سے پاک شفاف نظام ہے ان کا کہ خادم اعلی نے ایک بھی ایسا پراجیکٹ نہیں بنایا جس پر انگلیاں نہ اٹھی ہوں۔ میٹروبس، اورنج ٹرین، سستی روٹی سکیم، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم، قائداعظم سولر پارک، سولر لیمپ سکیم، لیپ ٹاپ سکیم اور پیلی ٹیکسی وغیرہ وغیرہ

کوئی ایک بھی شفاف پراجیکٹ ہے ان کا جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کوئی شکوک و شبہات کا اظہار نہ کر سکے تو مجھے بتا دیں۔

جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے پتا نہیں کیونکہ ہم نے دیکھی نہیں پر اتنا پتا ہے کہ حقیقی جمہوریت میں منصوبے کرسٹل کی طرح صاف شفاف بنتے ہیں اور تکمیل کے بعد ان کی آڈٹ رپورٹ پبلک کی جاتی ہے۔ یہاں ان کی فائلوں کو آگ لگ جاتی ہے۔

نام نہاد جمہوریت کے یہ چیمپیئن 30 سال سے پنجاب پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ تھانہ و پٹوار کلچر، عدالتی نظام، صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب، صحت، تعلیم، بلدیاتی نظام کو با اختیار بنانا، فن و ثقافت کی فروغ۔ کوئی ایک شعبہ ہائے زندگی بتا دیں جہاں انہوں نے بہتری لائی ہو یا اس کو مثالی بنا دیا ہو۔

پانچ سال میں شیر شاہ سوری نے نہری نظام، ڈاک کا نظام اور جی ٹی روڈ کلکتہ تک دے دیا تھا۔ یہ ٹوپی ڈرامے ہر بار ناٹک لگا کر اقتدار میں آ جاتے ہیں اور اور ساری مدت میں ایک میگا پراجیکٹ شروع کرتے ہیں کچھ عرصے بعد اسے نقصان میں ڈکلئیر کر کے فروخت یا بند کر دیتے ہیں۔ کیا ہوا قائداعظم سولر منصوبے کے ساتھ جو اب فروخت کے لئے پیش ہے۔ کیا ہوا سستی روٹی کا؟ کیا ہوا پیلی ٹیکسی کا؟ اور کیا بن رہا ہے میٹرو کا؟ 11 ارب کا خسارہ ہر سال کا سبسڈی پر چلنے والے منصوبے۔

پاکستان کے سیکیورٹی سیونگ بانڈز بیچ کر اور 5 فیصد شرح سود پر اربوں کے قرض اٹھا کر میگا منصوبے بنا دینا کوئی جمیز بانڈ کا کام نہیں یہ کام ایک ایف اے پاس منشی بھی کر سکتا ہے اگر یونہی ملک چلانا ہے تو۔ کیا آپ کو یہ سوچ کر خوف نہیں آتا کہ پاکستان پر واجب الادا قرضوں کا حجم ان کے دور حکومت میں 400 گنا بڑھ چکا ہے اور یہ اربوں روپے اس قسم کے منصوبوں میں جھونک دیتے ہیں جن۔ منصوبوں پر رونا آتا ہے۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کے دعوے سنتے میرے بال سفید ہو چلے مگر آج تک صرف بیس فیصد سرکاری و غیر سرکاری نوکر پیشہ طبقہ ہی ٹیکسوں کا ڈائریکٹ بوجھ ڈھو رہا ہے۔ جی ڈی پی شرح نمو دیکھ لیں جہاں تھی مجال ہے وہاں سے ایک اعشاریہ بھی بڑھی ہو۔ افراط زر و بینکوں کی شرح سود کے اعداد و شمار میں پوائنٹ صفر میں تبدیلی آئی ہے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس اور جرنل سیلز ٹیکس کو ماسوائے تاجر طبقے اور بیوروکریسی کے کوئی کلیم ہی نہیں کرتا کیونکہ اس کی واپسی کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی ایسے جھنجھٹ و ذلالت میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔ وکیل کے بنا ایف بی آر بھی آپ کے کلیم کو گھاس نہیں ڈالتا۔ ریاست مزدور کے وسائل لوٹ کر کھاتی جا رہی ہے۔ نیب کے مطابق ہر دن 20 ارب روپے کی کرپشن اداروں میں ہو رہی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹس جو کبھی کبھار غلطی سے آ جاتی ہیں وہ پڑھیں تو سر چکرا جاتا ہے کہ اداروں میں خردبرد کی کوئی انتہا نہیں رہی۔

مریضوں سے ابلتے ہسپتال، سیاستدانوں کے کالعدم تنظیموں سے رابطے اور سرپرستی، جرگوں کے انسانیت سوز فیصلے، سڑکوں پر مارا ماری، غنڈہ گردی، کلاشنکوف و پراڈو کلچر، وی آئی پی پروٹوکول، گندے پانی میں کھیلتے غریب کے بچے، پارکوں و اسکولوں کی حالت زار، پراپرٹی ڈیلروں کے کارٹل سے زمین کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، ذہنی ہیجان خیز بیماریاں، گندی کھانے پینے کی اشیا، مجسٹریٹ و تھانے کی بدمعاشی۔ کونسا عذاب الہی ہے جو نہیں وارد اس ملک میں۔ حکمرانی کے 30 سالوں میں ملا کیا ہے؟

30 سالوں میں انہوں نے بس ایک کام دل لگا کر کیا ہے اور وہ ہے اپنی نسلیں سنوارنا اور اپنے کاروبار بڑھانا۔

اگر یہی سلوک ہونا ہے جو ہوتا آیا ہے یعنی پیٹھ پر چھتر کھاتے رہو اور اس ریاست نے کبھی آگے نہیں بڑھنا تو کیا برا ہے اگر پڑھا لکھا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اس ملک سے ہجرت کر جائے۔ ریاست جو سوتیلے باپ سے بھی برا سلوک مسلسل کرتی رہے اس سے بہتر وہ خطہ ارض ہے جہاں کے بسنے والے آپ کو اپنے معیار زندگی کے مطابق ٹریٹ کریں۔ کیا ہو گا بس یہی کہ پردیس میں زندگی اپنوں سے دور بوجھل گزرے گی۔

زندگی اتنی غنیمت بھی نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).