ہم نے پانی پت کا لڑائی دیکھا ہے
کل کے ممکنہ فیصلے تک ماما قادر کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ فرمانے لگے ہمارے ابا جان ایک بار کسی دوسرے شہر میں دور کے رشتہ داروں کے مہمان ہوئے۔ ایک دن گزرا۔ دو دن گزرے۔ تین گزرے پر ابا حضور ادھر ہی مہمان بن کر بیٹھے رہے۔ اچھا وقت تھا۔ لوگ ایک کمرے کے گھر میں رہتے ہوئے بھی مہمان کو برداشت کر لیتے تھے مگر غربت بھی زیادہ تھی۔ گندم اور جو کا بھی حساب رکھنا پڑتا تھا۔ میزبان میاں بیوی نے سوچا کہ مہمان تو جانے کا نام نہیں لے رہا۔ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا وگرنہ روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔
طے یہ ہوا کہ رات کو دسترخوان بچھانے سے پہلے میاں بیوی کسی بات پر لڑ پڑیں گے۔ رات دیر سے مرد خانہ مہمان کو بے دلی سے کھانا کھلا دے گا۔ صبح مجبورا مہمان اپنی راہ لے گا۔
رات کو انگیٹھی جلائی گئی۔ جب انگارے بن گئے تو انگیٹھی ہٹا کر دہکتے کوئلے سامنے رکھ دیے گئے۔ ایسے میں مرد خانہ نے خاتون خانہ کو کہا کہ کھانے میں کیا پکایا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ دال۔ مرد نے کہا دال تو کل بھی بنائی تھی۔ منصوبے کے مطابق بات بڑھاتے بڑھاتے باقاعدہ جھگڑا اختیار کر لیا گیا۔ مرد نے اٹھ کر خاتون کو ایک دو تھپڑ بھی مارے۔ مہمان مگر گھاگ تھا۔ معاملہ سمجھ گیا تھا اس لئے لاتعلق بیٹھ کر دسپنے سے انگارے توڑتا رہا۔ میاں بیوی نے جب دیکھا کہ مہمان ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو تھک کر خود ہی جھگڑنا چھوڑ دیا۔
رات دیر سے مرد خانہ نے مہمان کے لئے دسترخوان بچھایا۔ کھانا پروسا گیا۔ مہمان اور مرد خانہ نے کھانا شروع کیا۔ خاتون خانہ جلی بھنی بیٹھی تھی کہ ایک تو اس نے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں اوپر سے مجھے منانے کی بھی کوشش نہیں کر رہا کہ کم ازکم دو نوالے ہی کھا لوں۔
بالاخر اس نے تنگ آکر کہا، کاکا جی کوئی شرم و حیا بھی ہوتی ہے۔ ایک مرد نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور دوسرا مرد بیٹھ کر صرف دیکھتا رہا۔
کاکاجی نے ہمم کا ہنکارا بھرا۔ پوچھا، کیا تم لڑ رہے تھے؟ اس بار مرد نے جواب دیا، لڑ نہیں رہے تھے اور کیا مذاق کر رہے تھے؟
کاکاجی نے ایک بار پھر گلا کھنکارا۔ کہنے لگے، بیٹا بات یہ ہے کہ ہم نے پانی پت کا لڑائی دیکھا ہے۔ یہ چھوٹا موٹا لڑائی ہم کو مذاق لگتا ہے۔
کل کے متوقع فیصلے پر کچھ لوگ خوشی منا رہے ہیں۔ انقلاب کی نوید دی جا رہی ہے۔ شفاف پاکستان کا سورج طلوع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں کاکاجی یاد آئے۔
یادش بخیر جب یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کیا گیا تو ڈی چوک پر کھڑے ایک شعبدہ باز نے قوم کو مبارک دی تھی۔ مبارک ہو۔ مبارک ہو۔
جب مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹا تو لوگ گھروں سے باہر نکل کر پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ مٹھائیاں بٹ رہی تھیں۔ ماما کہتے ہیں کہ جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو ہمارے کچھ دوست افغانستان کے کیمپوں میں تھے۔ ہم نے بھٹو کا تختہ الٹنے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ ابا حضور بتایا کرتے تھے کہ 8 اکتوبر 1958 کو جب ایوب خان کا غلغلہ اٹھا تو ہم خوش ہوئے تھے کہ اب ایک شفاف پاکستان میں دیکھنا نصیب ہو گا۔
کل پھر ایک شفاف پاکستان کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔ اپنا تو ارادہ ہے کہ قراقرم ہائے وے پکڑ کر سیدھے شمشال میں رکا جائے جہاں نہ اخبار ہو، نہ انٹرنیٹ ہو اور نہ موبائل کے سگنلز آتے ہوں۔ وہاں بیٹھ کر بھی مگر کاکاجی کی بات آتی رہے گی کہ ہم نے پانی پت کا لڑائی دیکھا ہے۔ یہ چھوٹا موٹا لڑائی ہم کو مذاق لگتا ہے۔
- تالہ ۔ ۔ ۔ بندی - 07/07/2023
- کہانی، ناٹک اور تسلط کا جبر - 20/02/2023
- معطل آدمی کے خواب - 19/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).