مریم بہنوں کے بزدل بھائی


آج تو سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ ویسے تو اب اکثر نہیں آتی۔ لیکن آج تو غضب ہو رہا ہے۔ یار دوستوں کو گلا تھا کہ یوں تو بات بے بات اپنا قلم اور زبان  دیتی ہو لیکن پانامہ اور احتساب جیسے اہم مدعے پر خاموش بیٹھی ہو۔ یہاں وزیراعظم صادق اور امین  نہیں رہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن اس ملک پر اللہ  کے عذاب کی طرح مسلط ہے۔ لیکن تم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہو۔ لگتا ہے لفافے ملنا شروع ہو گئے (جیسا کہ آج کل ہاتھ ذرا تنگ ہے تو آپ کے منہ میں گھی شکر۔ ساتھ میں آمین بھی کہہ  دیا کیجئے۔)

اتنا عرصہ اس خیال سے چپ رہے کہ بھیا ہمارے تو اپنے حالات بہت خراب ہیں۔ کسی کو کیا جج کریں۔ کیا دوش دیں۔ سنگساری کے لئے تو پہلا پتھر وہی پھینکے جس نے خود کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ آپ سب ٹھہرے نیک پارسا، دودھ کے دھلے، کسی نومولود کی طرح گناہوں سے پاک۔ آپ کو جچتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک دفعہ مولانا صاحب  سے کسی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں لپ  اسٹک جائز نہیں لیکن آپ کی بیگم صاحبہ تو لگاتی ہیں۔ وہ بولے

‘اوہنوں جچدی وی تے اے ( اسے جچتی بھی تو ہے)،

مطلب  آپ خود ہی تلاش کرتے رہئے۔

لیکن خیر اگر کفن پھاڑ ہی لیا ہے تو اب اس مردے کو ٹوکنے سے احتراز  برتئے  گا۔ دیکھئے احتساب سے تو ہمارا بھی اتفاق ہے۔ لیکن ٹارگٹ کلنگ سے اختلاف ہی رہے گا۔ کرنی ہے تو اندھادھند فائرنگ کیجئے نا۔ اب اس کی زد میں سوٹ آئے یا بوٹ۔ کسی کو جانے مت دیجئے۔ سب کو بھون ڈالئے۔ بس رہے نام اللہ کا۔

بہت  سے سرپھرے دوستوں نے برملا ج سے ججوں اور ج سے ہی جرنیلوں کا ذکر بھی کر ڈالا۔ آگے جو بھی ہو، انہوں نے تو کہ دیا۔ ہو گیا جو ہونا تھا۔ ہمیں تو بس یہی فکر ہے کہ ایک دفعہ تو لکھ لیا تھا سلمان حیدر پر۔ اب روز روز ایک ہی بلاگ مختلف ناموں سے نہیں لکھا  جاتا۔ کوئی تو ورائٹی ہو ایشوز، اوہ معاف  کیجئے گا نان ایشوز میں۔ بہرحال گڈ جاب مجاہدو!

اب کچھ تو اپنا حصّے کی شمع ہمیں بھی جلانی ہو گی۔ وہ ہمارے گاؤں میں کہا کرتے تھے  شادی بیاہ پر جہیز میں حصہ ڈالتے ہوئے ‘پتی پانا’۔ وہی پتی پانے لگے ہیں۔ سیاستدانوں کے خلاف تو علم بلند ہیں ہی۔ دیگر معززین کے خلاف بھی دبے لفظوں میں  واویلا مچنے کا ذکر ہے۔ لیکن اس ناچیز کی جنگ تو ہے اس بظاہر عام  آدمی سے۔ آپ سے، مجھ سے، ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے راہگیروں سے۔

وہ عام آدمی جو ملتان میں بیٹھنے والی اس پنچایت کے فیصلے پر خاموش رہے جب زیادتی کے بدلے زیادتی کی سزا دی گئی۔ جی جناب! تم نے میری بہن کا ریپ کیا تو میں بھی تمہاری بہن کی عزت تار تار کروں۔ آخر کو جو تیر مرے دل پہ چلے وہ تمہارا سینہ کیوں نہ چھلنی کریں۔ تمہیں بھی تو معلوم ہو کہ کیسے ہمارے خاندان کا شملہ زمین بوس ہوا۔ ہم بھی تو عزت والے تھے۔ ادھر پنچایت نے بھی عدل و انصاف کی پہلے سے رقم کی ہوئی داستان دہرائی۔ خون کے بدلے خون، مال کے بدلے مال، عزت کے بدلے عزت۔۔۔ واہ صاحب۔ خدا جانے کیوں زمین نہ پھٹی، کیوں آسمان شق نہ ہوا۔ کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے دونوں۔ بالکل اسی مجمعے کی طرح جو اس پنچایت میں موت کی طرح ساکن اور خاموش کھڑا تھا۔ ایک ایک کا  احتساب لازم ہے، سزا ملزوم ہے۔

واقعی فیصلہ تو ایسا تھا کہ آئندہ کوئی بھی کسی آدمی کی عزت پامال کرنے سے پہلے سوچے گا۔ جی ہاں! لیکن وہ معصوم لڑکیاں جو اس عزت کو بچانے کا آلہ کار بنیں؟ جانے دیجئے۔  کون تھیں یہ؟ ان جانوروں کی بہنیں ہونے کے علاوہ  بھی ان کی کوئی حیثیت تھی یا نہیں؟ کہنے کو سزا  تو مردوں کو دی گئی کیونکہ گناہ بھی ان کا تھا اور سزا بھی ان کی۔ ہمارا تو سوال بس یہی ہے کہ ایک معصوم کو سولی پر لٹکانے کی بجائے ان کے بھائی جان کو ہی گولی کیوں نہ مار دی گئی؟

احتساب کرنا ہے تو ان بھیڑیوں کا کیجئے (حقیقی بھیڑیوں سے بصد  معذرت)۔ احتساب کرنا ہے تو ہر اس شخص کا کیجئے جو اس وقت اس فیصلے میں شامل تھا۔ احتساب کرنا ہے تو ان دونوں کے نامردوں، اوہ معاف کیجئے ، مردوں کا کیجئے۔ احتساب کرنا ہے تو اس پوری پنچایت  کا کیجئے جس نے یہ تاریخی فیصلہ دیا۔ وہاں سا کت کھڑے پورے مجمعے کا کیجئے۔ کراچی میں ٹریفک  کانسٹیبل کی لاش کے سامنے سے گزرتے ہر اس شخص کا احتساب کیجئے جس نے اپنی گاڑی کے ٹائر لاش کے خون سے  بچانا مناسب سمجھا۔ اس پورے ریوڑ کا کیجئے جس نے مشال خان کا بہیمانہ قتل کیا اور اپنی بربریت کا کوئی نمونہ دکھانے سے پرہیز نہ کیا۔ ان سب کا مواخذہ کیجئے۔ کوڑے  مارئیے۔ چوک میں الٹا لٹکائیے۔ عبرت کا نشان بنا دیجئے۔

اللہ کا عذاب، محض زلزلے، طوفان اور سیلاب کی صورت میں نہیں آتا۔ یہ بےحسی اور بربریت بھی اللہ کا عذاب ہے۔ مبارک ہو، آپ سب اسی عذاب کے مرتکب ٹھہرے۔ اب کوئی الہامی کتاب تو اترنی نہیں ورنہ آپ کے نام  بھی عذاب کا شکار قوموں میں سر فہرست ہوتے۔

باتیں کرتے ہیں مغرب کی بےراہروی کی، سیاستدانوں کی بے ایمانی کی۔ چلّو بھر پانی ملے تو ذرا سا وقت نکال کر ڈوب مر جایے گا۔  عین نوازش ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).