لوگ صرف اور صرف انصاف کی توقع باندھے رکھیں


راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کومحاورے والے سات خون معاف ہیں۔ میرے لاہور کے قدیمی محلوں کی تقریباََ ہر گلی میں ایک ”سائیں“ ہوا کرتا تھا۔ ہذیانی کیفیات میں وہ کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ لال حویلی سے نمودار ہوئے مجذوبِ عصر ہماری سیاست کے ”سائیں“ ہیں۔ One on One انٹرویو دے کر انہوں نے کئی اینکروں کو Celebrity بنایا ہے۔ چینلوں کو Ratings سے نوازا۔ جرنیلوں کو ”ستو پینے“ کے طعنے دیتے رہے مگر JIT کی تحقیقات کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شخص کے نام کو ہر صورت چھپانے والے اداروں نے اس طعنے کا کبھی نوٹس ہی نہیں لیا۔

مجھ ایسا بدنصیب اگر انتہائی ایمان داری سے صرف اس خدشے کا اظہار کر دے کہ JIT میں آئی ایس آئی اور MI کے نمائندوں کی شرکت سے سول ملٹری تعلقات میں بدگمانیاں بڑھ سکتی ہیں تو سپریم کورٹ کو شکایت لگا دی جاتی ہیں۔ جرنیلوں کو ستو پینے کے طعنے دینے والے کو لیکن بڑی فراخ دِلی سے معاف کر دیا جاتا ہے۔ مجذوبِ عصر کو ملی اس Immunity کے بارے میں ایک ایک لفظ سوچ کر لکھنے اور بولنے والے مجھ ایسے بزدل صرف رشک ہی کرسکتے ہیں۔

عمران خان صاحب مگر محلوں میں گھومتے ”سائیں“ نہیں ہیں۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے 1996ءسے مسلسل محنت کرتے ہوئے انہوں نے اب اس ملک کے سب سے قدرآور سیاست دان کا مقام حاصل کرلیا ہے۔ ایک زمانے میں ووٹ بینک سے مالامال اور ”چاروں صوبوں کی زنجیر“ سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی سے کئی برسوں تک جڑے رہنے والے لوگ دھڑا دھڑ ان کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کھڑے ہوکر کئی لوگ بآسانی آئندہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوسکتے ہیں۔ ان کی ممکنہ اکثریت عمران خان صاحب کو اس ملک کا وزیر اعظم بناسکتی ہے۔ایک ایسا منصب جسے ہمارا آئین ”چیف ایگزیکٹو“ قرار دیتا ہے۔ اس ملک کے سب اداروں پر ”بالادست“ کہلاتے ایوان کا قائد ،ممکنہ وزیر اعظم عمران خان۔

اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“ ہونے کے دعوے دار اور گزشتہ تین دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھائے نواز شریف کو عمران خان نے اپنی باﺅنسر مارنے والی جبلت سے کام لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ پانامہ سکینڈل کے ذریعے منکشف ہوئی دستاویزات کا روزانہ سماعت کی بنیاد پر جائزہ لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایسا ماحول بنایا جس نے عمران خان اور تحریک انصاف کو ”سارا ٹبرچور“ ہے جیسا طعنہ گھڑنے کے لئے ٹھوس مواد فراہم کیا۔ جنگی معرکوں میں ”دشمن“ کو ہزاروں زخم لگاکر نڈھال کرنے کی بات ہوتی ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کو بے تحاشہ زخم لگاکر لہولہان کردیا ہے۔

”باﺅنسر“ کی طبیعت کو لیکن چین ایک پل نہیں۔ بدھ کی شب وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آئے اور مطالبہ کردیا کہ سپریم کورٹ پانامہ پر اپنا محفوظ کیا فیصلہ جلدازجلد سنادے۔ فیصلہ جلد سنانے کے مطالبے میں بذاتہی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے خان صاحب کا یہ دعویٰ کہ ”نواز مافیا“ نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو ”دباﺅ“ میں لانے کی کوشش کی ہوگی ایک غیر ذمہ دارانہ دعویٰ تھا۔
”نواز مافیا“ کے مبینہ ”دباﺅ“ کو محفوظ کئے فیصلے کے اعلان میں تاخیر کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے درحقیقت سپریم کورٹ کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ ان کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے مطالبے کے فوراََ بعد وہ فیصلہ سنادیا گیا اور اس کے نتائج وہی ہوئے جس کی عمران خان اور ان کے چاہنے والے توقع کررہے ہیں تو ”پیغام“ بہت غلط جائے گا۔

کئی بار اس کالم میں التجا کرچکا ہوں کہ سیاست میں حقائق سے کہیں زیادہ اہم Perceptionsہوا کرتے ہیں۔ ایک ذہین سیاست دان جبلی طورپر Perception Management کا ماہر ہوتا ہے۔ یہ ہنر اسے قدرت کی طرف سے ایک تحفے کی صورت عطا ہوتا ہے۔

نواز شریف کو اگر سپریم کورٹ نے ہمارے آئین کے آرٹیکل 62اور 63 کے تحت نااہل قرار دینا ہے تو اس کی وجوہات صرف اور صرف ”قانونی“ نظر آنا بھی ضروری ہیں۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے دوررس مفادات کے تناظر میں بھی اشد ضروری ہے کہ خلقِ خدا کو یہ محسوس ہوکہ و ہ ایک جائزشکایت اور تگڑے کیس کے ساتھ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبروپیش ہوئے۔ ایک ایسا فورم جس کو کسی سیاست دان کے عروج یا زوال سے کوئی غرض نہیں۔ اسے صرف آئین اور قانون کے اطلاق کے ذریعے انصاف فراہم کرنا ہے۔

انصاف کی یہ فراہمی اگر نواز شریف کو ”نااہلی“ کی طرف لے جاتی ہے تو ان کی بدقسمتی۔ عمران خان اگر اس ”نااہلی“ کے بعد برق رفتاری سے وزیر اعظم کے دفتر بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو ان کے بھاگ۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے وہ کسی سیاستدان کے عروج یا زوال کی سہولت کار ہرگز نظر نہیں آنی چاہیے۔ عمران خان صاحب نے بدھ کے روز کئے مطالبے کے ذریعے سپریم کورٹ کو ”سہولت کار“ بنانے کی کوشش کی۔ میری دُعا ہے کہ عمران خان صاحب نے یہ دعویٰ اپنی ذات کے بارے میں مشہور ہوئی ”سادگی ا ور برجستگی“ کی بدولت کیا ہو۔ یہ مطالبہ کرلینے کے بعد ان کے اپنے مفاد میں ضروری ہے کہ اب اس موضوع پر خاموشی اختیار کرلیں۔

”نواز مافیا“ کی جانب سے سپریم کورٹ پر مبینہ”’دباﺅ“ کا تواتر سے ذکر ہوا تو اس ملک کے دیگر سیاست دانوں،صحافیوںاور تبصرہ نگاروں کو یہ مطالبہ کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھے عزت مآب جج اپنی زبان کھولیں۔ ان لوگوں کو باقاعدہ اپنے روبرو طلب کرکے سخت ترین سزائیں سناکر عبرت کا نشان بنائیں جنہوں نے مبینہ طورپر ”نواز مافیا“ کو بچانے کے لئے انہیں دباﺅ میں لانے کی کوشش کی۔
اگر ”نواز مافیا“ کی جانب سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے تو سپریم کورٹ کو کم از کم مناسب ترین الفاظ میں عمران صاحب کو یہ ضرور سمجھانا چاہیے کہ اس کے عزت مآب ججوں پر 2017ءمیں کوئی دباﺅ ڈالنے کی جرا¿ت اس ملک میں کسی کے پاس موجود ہی نہیں۔ لوگ بے خوف ہوکر اس ادارے سے آئین اور قانون کے بھرپور اطلاق کی بدولت صرف اور صرف انصاف کی توقع باندھے رکھیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).