جان عالم پیا واجد علی شاہ اور کمپنی بہادر


تاریخ میں ایک بدنصیب بادشاہ واجد علی شاہ بھی گزرے ہیں۔ انہیں اتنا بدنام کیا گیا کہ مخالف پروپیگنڈا ٹیم نے دوران حکومت ہی ایسی تصویریں بنوا دیں جن میں وہ ناچتے ہوئے نظر آتے اور آس پاس ان کی بیگمات کا جھرمٹ ہوتا۔ یہ تصویریں لکھنو، فیض آباد کے لوگوں میں بانٹی گئیں۔ اس حد تک منفی تشہیر کی گئی کہ آج وہ ایک عیاش اور کرپٹ حکمران کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کمپنی بہادر کو اعتراض یہ تھا کہ وہ ان کی بات ٹھیک طرح کیوں نہیں سنتے۔ وہ کچھ کہتے تھے یہ کچھ اور کرتے تھے۔ انہیں اتنی اجازت بھی نہیں تھی کہ کمپنی سے پوچھے بغیر اپنا شاہی تخت ایک سے دوسرے کمرے میں رکھ لیں۔ بلی کو دیوار سے لگا دیا جائے تو وہ پنجے مارنے پر مجبور ہو جاتی ہے یہ تو پھر بادشاہ تھے۔ تو بس اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ تاریخ میں وہ ایک نچئیے کے طور پر مشہور کر دئیے گئے۔ ماہر فن ہونا اور چوبیس گھنٹے رقص و سرود میں ڈوبا رہنا الگ الگ باتیں ہیں۔ وہ فن جانتے تھے وہ آرام کرسی پہ بیٹھے بیٹھے سامنے رقص کرنے والے کو بتا دیتے تھے کہ میاں یہ توڑا غلط ہے تو اسی مہارت کی رعایت سے انہیں بدنام کیا گیا۔ اودھ بلیو بک کے مطابق لندن کمیشن کے روبرو انہوں نے صاف صاف بیان دیا تھا کہ وہ اپنی افواج کو بہتر حالت میں دیکھنا چاہتے تھے اور ان کی ٹرینینگ میں لگے ہوئے تھے لیکن کرنل رچمنڈ کے منع کرنے پر انہوں نے اس مشق سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ان کی فیملی اور وہ لیکن آج تک اسی ناچ گانے یا عیاشی والے الزام کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں۔

جب کمپنی بہادر نے سلطنت چھین لی اور وہ اپنا مقدمہ برطانوی پارلیمینٹ تک پہنچانے کی جدوجہد کے دوران مٹیا برج کلکتہ میں بیمار پڑے تھے تو ایسے میں ان کے خلاف ایک اور سکینڈل کھڑا کیا گیا۔ اس کا محور لسان الملک اور محمود الدولہ جیسے خطابات سے نوازا جانے والا ان کا ایک وزیر محمد صفدر نامی تھا۔ واجد علی شاہ اس پر اندھا اعتبار کرتے تھے۔ اس نے خزانے میں بہت بڑے بڑے غبن کیے لیکن اپنی زندگی میں کبھی نہیں پکڑا گیا۔ وجہ صرف بادشاہ کا اعتبار تھا۔

 جب یہ وزیر مرا تو معلوم ہوا کہ چند جعلی رسیدوں کے مطابق بادشاہ اس کے قرضدار تھے۔ اب کیا تھا، کمپنی بہادر کو ایک اور موقع مل گیا۔ اسی وزیر کے داماد تراب علی کو اکسا کر بادشاہ کے خلاف کلکتے میں ہی ایک مقدمہ کھڑا کر دیا گیا تاکہ انہیں مزید پریشان کیا جا سکے۔ بادشاہ بے چارے نے باوجود سب کچھ چھن جانے کے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اس زمانے کے مشہور وکیل سید امیر علی کو ہائر کر لیا۔ اندازہ کیجیے کہ ایک سلطنت کا مالک کیسے کیسے گھسیٹا گیا۔

 قانون 1868 کے ایکٹ نمبر تیرہ کی رو سے بادشاہ کو امیونٹی حاصل تھی۔ انہیں کریمینل یا سول عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا تھا۔تو یوں ہوا کہ انہیں کمپنی بہادر کی جانب سے 36 سوالنامے دئیے گئے اور ان سب کا جواب واجد علی شاہ کو خود تحریر کرنا تھا۔ ایک کمیشن بنایا گیا جس کے ممبر کرنل ہبرٹ اور اس کے میر منشی مولوی فتح علی تھے۔ نو دن یہ کمیشن غریب بادشاہ کے سر پہ بیٹھتا تھا اور وہ جواب تحریر کیا کرتے تھے۔ یہ قانونی جنگ بہت لمبی چلی لیکن جب ختم ہوئی تو کل واجب الادا رقم مشکل سے کھینچ کھانچ کر سات لاکھ روپے نکالی جا سکی اور وہ بھی انہیں تمام دستاویزات کی روشنی میں کہ جو بادشاہ کے اعتباری وزیر ترتیب دے گئے تھے۔

 اصل میں واجد علی شاہ کو حکومت سنبھالے بمشکل چند مہینے گزرے تھے کہ ان کا تخت ہتھیانے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ بادشاہ نے سلطنت سنبھالتے ہی چند کام جو سب سے پہلے کیے ان میں سے ایک “دستور واجدی” تھا۔ یہ مملکت کے لیے قوانین کا ایک مجموعہ تھا۔ اگر صرف اس کوڈ آف کنڈکٹ کے عنوانات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ عوام کی فلاح و بہبود میں پوری طرح سنجیدہ تھے۔ چھیاسٹھ چیپٹرز میں تین چار شقیں رشوت لینے دینے کے خلاف ہیں اور باقی بہت سی جلد از جلد انصاف کی سہولت کے لیے ہیں، بھتہ وصولی سے روکنے کے لیے ہیں، نوزائیدہ بیٹیوں کو مارنے یا ستی کی رسم ختم کرنے کے لیے ہیں، تاجروں کی سہولت کے لیے بہت سے اقدامات موجود ہیں، غلے کو سستا کرنے کے حکم ہیں الغرض عوام کو آرام و سکون میں رکھنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش اس دستور میں نظر آتی ہے۔

 اب 1847 میں واجد علی شاہ بادشاہ بنتے ہیں اور دس ماہ بعد ہی کمپنی بہادر وارننگ دے دیتی ہے کہ بھئی پچھلی تمام حکومتوں میں جو کچھ بھی ہوا، ہم نہیں جانتے، تمہارے پاس دو سال ہیں، اگر “اصلاح” نہ کی تو سلطنت تمہارے ہاتھوں سے جائے گی۔ بادشاہ نے عقلمندی یہ کی کہ انگریز سرکار سے اصلاح کے لیے ورک آؤٹ پلان مانگ لیا، مطلب بھئی تم ہی بتا دو اگر ہم حکومت صحیح نہیں کر رہے تو کیا کریں، کیسے کریں؟ کیپٹن برڈ اس سارے قصے کا اہم کردار تھے، وہ کمپنی کی طرف سے تجویز شدہ خاکہ لے کر لکھنئو آئے، بادشاہ اور ان کی شوریٰ نے یہ اصلاحی پروگرام متفق ہو کے منظور کر لیا۔ اب کمپنی بہادر کے سامنے پھر یہی رکاوٹ تھی کہ اگر بادشاہ اس دستاویز پر عمل کرتے ہیں تو ہم اودھ کی حکومت کس بہانے سے ہتھیائیں گے۔ لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل تھا، اس نے اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے یہ سارا پلان ریجیکٹ کر دیا اور بادشاہ کے خلاف جو فرد جرم لگائی اس میں “عدم اصلاحات ملکی” ہی سب سے بڑا جرم تھا۔ یہ تمام واقعہ تب کھلا جب کیپٹن برڈ ایک جھگڑے کے بعد کمپنی سے الگ ہو گئے۔ بہرحال اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بس واجد علی شاہ جب لکھنئو سے جلا وطن ہو کر کلکتہ روانہ ہونے لگے تو یہ کہہ کر چل نکلے؛

 درودیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

اہل وطن کے لیے منتخب حکمرانوں کو دو نمبر ثابت کرنا بہت آسان رہا ہے۔ یہ لڑائی ہر سطح پر ان کے درمیان ہوتی ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہے اور جن کے پاس بہت کچھ ہے۔ اوپر کی سطح پہ ہر عوامی اور جمہوری حکومت کے خلاف وہ لوگ رہتے ہیں جن کے پاس عوام کی تائید نہیں ہوتی۔ ان کے پاس جو چیز “کچھ نہیں” ہوتی وہ ان کا ووٹ بینک کہلاتا ہے۔ وہ طاقت کے استعمال سے حکومت کرنا چاہتے ہیں یا کسی چور دروازے سے نقب لگانا چاہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو “بہت کچھ” والے ہوتے ہیں انہیں سہولت کے لیے سیاسی حکمران کہہ لیجیے۔ یہ جو مرضی کر لیں اپنے آپ کو پاک صاف ثابت نہیں کر سکتے۔

نیچے کی سطح پر ہم لوگوں جیسے غریب غربا ہوتے ہیں جنہیں ہر حکمران چور لگتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں جو حکومت کرے وہ ایک روپیہ تنخواہ لے کر زمین پر سویا کرے اور اس کی سات پشتیں کسی بھی کاروبار یا زمین کی مالک نہ ہوں۔ وہ بالکل ہماری طرح کا رہن سہن رکھتا ہو اور سائیکل چلائے یا پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرے۔ پڑوسی ملک میں احمدی نژاد نے یہ ڈرامے بازیاں بھی کر لیں مگر سیٹ چھوڑتے ہی کرپشن کے مقدمے سائے کی طرح ساتھ چپک گئے۔ حکمرانوں کے خلاف کسی بھی الزام پر آسانی سے یقین کر لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہر تکلیف کا ذمہ دار صرف انہیں سمجھتے ہیں۔ کسی حد تک یہ ممکن بھی ہو سکتا ہے لیکن کوئی بھی منتخب حکومت سنبھلے تو کام کرے۔ ستر برس ہونے کو آ گئے، کوئی ایک منتخب لیڈر باعزت طریقے سے گھر کو جا سکا ہے؟ کیا الیکشن کے وقت یہ کرپشن نظر نہیں آتی یا اس کے فوراً بعد ہمیں نظر کے چشمے تقسیم کیے جاتے ہیں؟ کوئی تو وجہ ہے کہ آج تک ایسا نہیں ہو پایا۔

غور کیجیے ورنہ سو ڈیڑھ سو برس بعد کوئی اور عبدالحلیم شرر، علی خان، سید مسعود حسن رضوی ادیب، مرزا علی اظہر برلاس، روی بھٹ یا ان کے قدموں میں بیٹھا فقیر جیسا کنگلا گھسیٹا کار آئے گا اور حکومتوں کے زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالا کرے گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain