عدالتی فیصلہ : اب کیا ہو گا؟


عدالتی فیصلہ آ گیا ہے منتخب قیادت نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا وگرنہ تصادم ناگزیر تھا جس کا نہ ملک کو فائدہ ہوتا، نہ اداروں کو اور نہ ہی سیاسی قیادت کو۔ اب درخواست ہے کہ جلد سے جلد نیا وزیراعظم منتخب کیا جائے اور کھل کر بقیہ ایک سال حکومت کی جائے۔

اس فیصلے پر سب سے زیرک اور دانشمندانہ تبصرہ عاصمہ جہانگیر نے کیا ہے۔ پاکستان میں عاصمہ میری دانست میں واحد شخصیت ہیں جن کے ساتھ کھڑا ہونے کا (بہت حد تک یہ ) مطلب ہے کہ آپ سیاسی میدان میں تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں عاصمہ فرماتی ہیں

”فیصلے سے بہت دراڑیں پیدا ہو گئیں جو عرصہ عدالتوں کو پریشان کیے رکھیں گی۔ لگتا ہے ضیاء الحق واپس آ گیا ہے۔“

اب ہو گا کیا؟ یہی کہ Electable اور موقع پرست سیاستدان ایک مخصوص پارٹی کی طرف move کریں گے۔ الیکشن کے نتائج ایسے ہوں گے کہ کسی کو بھی واضح اکثریت نہیں ملے گی اور مخلوط حکومت بنے گی۔ پاکستانی ہیئت مقتدرہ کو ویسے بھی واضح اکثریت والی قیادت سے ہمیشہ چڑ رہی ہے کیونکہ یہ خود کو واقعی میں ملک کا حکمران سمجھ بیٹھتی ہے۔ مخلوط حکومت میں ڈرائنگ روم سیاست کو فروغ ملتا ہے اور سٹیٹس کو کرسی کرسی کا کھیل کھلتی ہے۔

جس طرح پیپلزپارٹی کا وزیراعظم نا اہل ہو کر گھر جا رہا تھا اس وقت مسلم لیگ (ن) خوشیاں منا رہی تھی کہ اب انصاف کا بول بالا ہو گا۔ آج مسلم لیگ ن کا وزیراعظم گھر جا رہا ہے تو پی پی اور تحریک انصاف کے کارکن خوش ہیں۔ اگلے دور اقتدار میں اگر مسلم لیگ کو اقتدار نہ ملا تو اس نے پی پی کے نقش قدم پر چلنا ہے اور اس وقت موجود سیاسی قیادت کو عدم استحکام میں مبتلا رکھنا ہے۔ شاید نوے کی دہائی کی سیاست کا نئے سرے سے آغاز ہو جائے۔ یوں اس ملک نے سیاسی عدم استحکام کی قیمت ادا کرتے رہنا ہے۔ جانے یہ سلسلہ کب رکے۔

دعا ہے کہ سیاسی عمل جاری رہے۔ سیاسی کارکن سب سمجھتے جائیں گے جب ان کی منتخب قیادت کو یکے بعد دیگرے قربان کیا جا رہا ہو گا۔ اگر مارشل لاء آ گیا اور دس سال یا اس سے زائد لے گیا تو سمجھ جایئے کہ جس نسل نے تھوڑی بہت سیاسی بصیرت حاصل بھی کر رکھی ہو گی وہ مارشل لاء کے بعد ادھیڑ عمری کے مسائل میں سب اسباق بھول چکی ہو گی اور نئی نسل جذباتی ہیجان اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی دیگچی میں ابل رہی ہو گی۔ سیاسی عمل کو ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے یہ خام وقت کے امتحانات میں پک کر ہی پختہ ہو گا یہی دنیا کی اکثر جمہوریتوں کی تاریخ ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan