میری ذاتی شرمندگی کی ہوشربا داستان (2)


میں عرض کئے دیتا ہوں۔

یہ کہ نوازشریف مودی سے ساز باز کر رہا۔ یہ کہ وہ جنڈال کے ساتھ مری میں خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے۔ یہ اس کے کارخانوں میں بھارتی را کے ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ یہ کہ وہ پاک فوج کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ یہ کہ جب بھی نواز حکومت پر کوئی آفت آتی ہے تو ملک میں دھماکے ہونے لگتے ہیں۔

یہ ساری کہانیاں یہاں سوشل میڈیا پر تخلیق کی گئیں اور بار بار چلائی گئیں۔ میں نے انہی کہانیوں کو جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر دس کے حوالے تففن طبع کے لئے پھر دہرایا تو کہانی ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ جب عدالت نے جلد دس پبلک ہی نہیں کی تو مجھے کیسے علم ہوتا؟ چونکہ طنز قدرے سنجیدگی کا پہلو لئے ہوا تھا اس لئے نذیر ناجی صاحب اور جعفر حسین کے طنزیہ کالم کا حوالہ بھی جان کر ڈالا تاکہ احباب سمجھ سکیں۔ مزید ” ہم سب” پر نہ چھپنے کا تڑکا بھی لگا دیا۔ یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ کاپی نہ کریں تاکہ اگر میں ترمیم کروں یا ہٹا دوں تو آپ کو کسی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ ندیم پراچہ اور جعفر حسین کے کالم کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ مگر بات وہیں رہی کہ تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل۔

یہ خیال پہلے سے تھا کہ دوسرا حصہ لکھوں گا اس لئے منتظر رہنے کی درخواست کی تھی۔ دیکھیے پہلا مقصد تو پانامہ کے تناظر میں ایک قدرے تفریحی کالم لکھنا تھا۔ دوسرا مقصد سوشل میڈیا پر پھیلے عمومی مزاج کے رخنوں کی طرف نشاندھی تھی۔

یہ عمومی رویہ بن چکا ہے کہ یہاں تصدیق کا عمل کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آپ کو جو پروپیگنڈہ بھی جس حالت میں ملے اگر وہ آپ کے سیاسی، سماجی یا مذہبی مخالف کے بارے میں ہے تو بس آپ آگے شئیر کرتے جائیں۔ تحقیق کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

کسی نے ہندوستان میں ایک گینگ سٹر کے قتل کی ویڈیو نوید پٹھان کے نام سے یہ کہہ کر شئیر کر دی کہ گاو کشی کے شبہے میں ایک مظلوم مسلمان کو بے دردی سے سفاک ہندوں نے قتل کر دیا۔ بس اب آپ کا کام ہے کہ سوئی ہوئی مسلمان غیرت کو دہائی دے کر آگے شئیر کرتے جائیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اگر کوئی مسخرا کہہ دے کہ سلمان حیدر ہندوستان میں بیٹھ کر گستاخیاں کر رہا ہے تو آپ کا منصب تحقیق نہیں ہے بلکہ ایک مفروضہ ملزم کی سرکوبی ہے۔ آپ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ سلمان کون اور کہاں ہے؟ کل جب سلمان یہیں سے برآمد ہو جائے تو آپ کل کی بات بھول جائیے اور اسی اینکر کی کوئی نئی سازشی تھیوری مارکیٹ میں لائیے۔

بات یہاں تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہاں اب ہر وہ شخص بکاؤ ہے، ضمیر فروش ہے، وطن دشمن ہے، لفافہ صحافی ہے جو آپ کے حق میں نہیں لکھتا۔ اس کی کسی تحریر سے اگر آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے تو بس وہ باضمیر ہے اور بااصول بھی ہے۔

میں نے نوازشریف کے خلاف پھیلی سازشی تھیوریاں اکھٹی کیں۔ عمران خان کی تعریف کا بیچ میں تڑکا لگا دیا تو بس بات بن گئی۔ جو آج کے عدالتی فیصلے کو انقلاب سے تعبیر کر رہے تھے ان میں سے سو کے قریب لوگوں نے کالم میری وال سے شئیر کر دیا۔ کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ جناب والا آپ نے کس بنیاد پر لکھا کہ عدالت کا فیصلہ کمزور پوائنٹ پر تھا۔ ان کو عدالت کے فیصلے سے دلچسپی نہیں تھی۔ ان کو اس بات سے بھی دلچسپی نہیں ہے کہ ایک پیراگراف میں لکھا جا رہا ہے کہ ملک کے معتبر عدالت نے شریف خاندان کو نا اہل کر دیا مگر دوسرے پیرا گراف میں لکھا ہے کہ معتبر عدالت کا فیصلہ کمزور تھا؟

عرض تمنا یہ ہے کہ سیاسی عمل سماج کی بہتری کا عمل ہے۔ سیاسی عمل اور سیاسی رویہ کسی جماعت سے غیر مشروط وابستگی کا نام نہیں ہے۔ جو معاشرے اعلی سماجی، انتظامی، اخلاقی اور جمہوری اقدار پر کھڑے ہیں وہ سیاسی عمل کو خدمت اور عبادت کے جذبے سے سر انجام دیتے ہیں۔ دن بھر دوسروں پر کیچڑ اچھالنا، پروپیگنڈہ کرنا، کردار کشی کرنا نہ کوئی سیاسی عمل ہے اور نہ اس سے سماج میں بہتری کا کوئی امکان ہے۔ سیاسی عمل ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ سماج میں بہتری بتدریج آتی ہے۔ انقلاب کے زمانے لدھ گئے۔ اب انقلاب تعلیم اور بہتر سیاسی و سماجی رویے سے آئے گا۔

دل آزاری مقصود نہیں تھی۔ بنیادی مقصد مزاح تھا مگر مزاح میں ایک لٹمس ٹیسٹ آپ کے سامنے رکھنا تھا کہ ہمارا سیاسی رویہ کیا ہے؟ حقائق تک پہنچنے کی طلب کتنی ہے؟ پروپیگنڈے پر اعتماد کیسا ہے؟ سیاسی عصبیت میں پستی کی کس حد تک جا سکتے ہیں؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah