ادبستان کا دروازہ بند ہوا


“میں نے دروازہ بند کر دیا، اور پھر وہ مجھ سے کبھی نہیں کھلا۔”
“میں نے کئی کئی بار دیکھے ہوئے مکانوں کو دوبارہ جا کر دیکھا اور مجھے ہر مکان میں خوف اور خواہش کا ایک ایک ٹھکانہ ملا۔”
“اس مکان میں واپس آنے کے بعد میں مسلسل دو دن تک سوتا رہا۔ میں نے خوابوں میں بھی خود کو سوچتے ہوئے دیکھا۔ جاگنے کے بعد بھی میں سوچتا رہا۔ پہلا خیال مجھے یہ آیا کہ وہ پوری رات میں نے “لمس” کے سہارے کاٹ دی تھی”
اس جیسے لازوال اور ان گنت جملے اپنی کہانیوں میں لکھنے والے نئیر مسعود کو پڑھنے کے بعد ایک طویل عرصے تک میں ادبستان میں خود کو گھومتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ وہ پرانا سا حویلی نما گھر، جس کے ایک ایک کونے میں بیسیوں افسانے دفن تھے۔ ایسا کہ جیسے کوئی سامنے سے بھی گزر جائے تو کہانی کا بھوت تمام عمر اس کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ گھر میری ہڈیوں تک میں رچ بس چکا تھا۔ یہ بہت ہی عجیب واردات تھی۔ ساری عمر فکشن اور نان فکشن میں غوطے کھاتے گزار دی، پھر بھی عام انسانوں کی نسبت بہت ہی کم پڑھا، انتہائی کم ۔۔۔ لیکن جتنا پڑھا اس سب میں سے جو شدید ترین اثر نئیر مسعود کی لکھی کہانیوں کا ہوا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ خواب تک اسی قسم کے آتے تھے، بے نام کرداروں اور گمنام جگہوں کے، آج تک آتے ہیں، زمان و مکان کی قید سے آزاد، شاید میرا مطالعہ کم تھا، شاید کسی اور نے پوری دنیا میں ان سے بہت اچھا بہت کچھ لکھا ہو گا، شاید پڑھنے میں میرا ٹیسٹ ایسا تھا لیکن یہ حد تھی۔
انہیں تھوڑا سا پڑھنے کے بعد زیادہ پڑھنے کی خواہش ہوئی اور پھر یوں ہوا کہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر جو کچھ مل پایا وہ پڑھا۔ کیا باپ کیا بیٹا دونوں ہی عالم لوگ تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اگر مسعود حسن رضوی ادیب کی زندگی پر لکھا بھی کچھ پڑھتا تھا تو اس میں نئیر مسعود کو ڈھونڈھتا تھا۔ وہ بڑے باپ کے بیٹے تھے مگر اپنے نام سے برابر پہچانے گئے۔ باپ کے نام کا چھتنار گھنا درخت اپنے آس پاس دیکھتے تھے لیکن اسی پر کسی بیل کی مانند لپٹ گئے۔ کوئی یہ نہیں سکتا کہ ہاں ہم باپ کو جانتے ہیں اور بیٹے کو نہیں جانتے یا دونوں میں سے کوئی ایک کسی پڑھنے والے کے نزدیک کم اہم ہو، یہ سب ممکن نہیں ہے۔ بڑے آدمیوں کی اولاد عموماً ان کی چھایا سے نکل کر اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں بڑا وقت لگاتی ہے اور انہیں یہ گلہ بھی رہتا ہے کہ پڑھنے والے انہیں ابا والے ترازو میں تولتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ محترم عمر میمن کا بھی یہی معاملہ رہا، عبدالعزیز میمن صاحب کے نام کی وہ چھاپ تھی کہ نکلتے نکلتے ہی نکل سکے تو یہ ادب اور دوسرے معاملات میں چلتا رہتا ہے۔ جو بات مزے کی تھی وہ یہ کہ چاہے افسانہ ہو، ترجمہ ہو، تحقیق ہو، ہر ایک کام ایسے کیا کہ جتنا کر گئے وہ آگے آنے والوں کے لیے مثال ہوا۔
میر انیس کے بارے میں عام آدمی کتنا جانتا ہو گا۔ یہی کہ مرثیہ نگار تھے، بڑے دبنگ آدمی تھے، میر حسن کے بیٹے تھے اور؟ ہاں مرثیے بہت پڑھے ہوں گے لیکن اتنا عرصہ پہلے گزر جانے والے شاعر کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسے زندہ سامنے لا کھڑا کرنا نئیر مسعود کا کمال تھا۔ چار سو سے زیادہ کتابوں کا نچوڑ اس سوانح عمری میں ہے جو انہوں نے انیس کی لکھی۔ لطف کی بات یہ کہ کہیں سے بھی تحقیقی کام نہیں لگتا۔ سادہ زبان، آسان تحریر، پوری زندگی کے حالات ایک دوسرے سے جڑے ایسے سامنے آئیں گے جیسے یہ اس دور میں وقائع نگار رہے ہوں۔ اردو تحقیق میں ان کا یہ کام کمال ہی تھا۔ کتاب کسی ذاتی یا مسلکی تعصب سے بھی پاک ہے، یہ اس سے بھی بڑی بات تھی۔
ادبستان اس گھر کا نام تھا جس میں ان کے باپ اور انہوں نے پوری زندگی گزاری۔ وہ لکھنئو سے باہر نکلنا کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے، تعلیم وغیرہ بھی ادھر ہی حاصل کی۔ ان کے افسانوں کا پورا ماحول ادبستان اور آس پاس کی گلیوں میں گھومتا نظر آتا ہے۔ وہی عمارتیں، وہی دالان، وہی محرابیں، وہی راہداریاں سبھی کچھ ایسا جیسے کسی پرانے محلے میں چہل قدمی ہو رہی ہو۔ اس تمام کلچر سے ان کی وابستگی اتنی شدت سے نظر آتی ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں کہتے وہاں بھی اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہوتا ہے۔ جیسے انتظار صاحب نے کہیں کہا تھا کہ نئی دیواروں میں وہ بات نہیں ہوتی جو کئی بارشیں سہنے کے بعد ایک کائی زدہ پرانی دیوار میں پیدا ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھی ذرا جو یکسانی کا احساس ہو جائے۔ ہر افسانہ پڑھنے کے بعد آدمی بس یہی سوچتا ہے کہ یار کاش ایسا میں لکھ سکتا۔ لکھنے کی کوشش بھی کی مگر دو تین دفعہ کے بعد یہ بھاری پتھر چوم کے رکھ دیا۔ ان سے بہت زیادہ انسپائرڈ ہو کے اگر کسی نے لکھا ہے تو وہ انیس اشفاق ہیں۔ دکھیارے نام کا ایک مختصر سا ناول ہے لیکن کمال ہے۔ پاکستان میں شہرزاد نے چھاپا، انڈیا میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس پر مل سکتا ہے۔
ان کے افسانوں میں ایسا کیا تھا جو یوں وارفتگی سے میں لکھے جا رہا ہوں اور یہ خیال نہیں کرتا کہ سو میں سے تین پڑھنے والے شاید انہیں جانتے ہوں۔ بھائی، وہ ایک ماسٹر کرافٹ تھا۔ اسے ہم سرئیلزم وغیرہ کہیں تو بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا بس اتنا ہے کہ سمجھیے ایک خواب کی دنیا ہے۔ جب پڑھ کے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا جیسے ابھی آنکھ کھلی ہے۔ سیمیا اور نصرت ان کے پہلے دو افسانے تھے اور دونوں ہی ایسے جاندار تھے کہ چھپتے ساتھ بتا دیا لو بھئی ایک شاہ سوار کی آمد آمد ہے۔ ایبسٹریکٹ اور علامتی کہانیاں یا پھر بالکل ہی واضح افسانے جیسے ڈائجسٹوں میں چھپتے ہیں، ان سے پہلے یہ کہانی کی یہ دو قسمیں موجود تھیں۔ ان کا افسانہ ان دونوں چیزوں کا ایسا مکسچر لے کے آیا کہ حدیں مٹا دیں۔ سادہ ترین الفاظ، انتہائی کم ناموں اور تاریخ کے بالکل سرسری اشارے دیتے ہوئے جو کچھ بھی انہوں نے لکھا وہ بے تابی سے پڑھنے والوں نے پڑھا۔ ہوتا یوں ہے کہ اگر دسمبر جنوری کی دھند میں آپ پیدل یا کسی سواری پر نکل پڑیں۔ رات کا وقت ہو اور راستے معلوم نہ ہوں، تو جس بے چینی سے آپ گزریں گے، جو فضا اس وقت ہو گی بس وہی دھندلا سا ماحول ادھر بھی پایا جاتا ہے۔ ایک چیز جو سامنے نہیں ہے اسے لفظوں کی مدد سے ڈھکا چھپا سا دکھا دینا وہ فن ہے جس کی معراج انہوں نے پائی۔ پھر کسی اصل واقعے کو ایک گمنام سی کہانی یا داستان کی شکل دے دینا، یہ بھی خالصتاً ان کا کمال ہے۔ وہ کہانی کسی سنسنی خیز موڑ پر ختم بھی نہیں ہوتی۔ ایکدم بہت آرام سے کہیں بھی ختم ہو جائے گی اور تشنگی یا سیری دونوں ہی ساتھ ساتھ ہوں گے۔ پاک ناموں والا پتھر، اوجھل، شیشہ گھاٹ، مراسلہ، مار گیر بلکہ ان کے تقریباً چونتیس پینتیس افسانوں میں سے ہر افسانہ ان کی اپنی چھاپ لیے ایک شاہ کار ہے۔ کبھی چاروں کتابیں ایک ساتھ پڑھیے تو معلوم ہو گا جیسے زندگی بھر جتنے بھی افسانے انہوں نے لکھے وہ سب ایک دوسرے میں گندھے ہوئے تھے۔ چاہے تو الگ سے پڑھ لیں، اچھا لگے تو ناول سمجھ لیا جائے۔ ویسے ذاتی طور پر وہ ناول کی طبیعت والے آدمی نہیں تھے۔
نئیر مسعود کلیکٹڈ سٹوریز کے نام سے عمر میمن ان کی کہانیوں یا افسانوں کا ترجمہ انگریزی میں کر چکے ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔ گنجفہ، عطر کافور، طاؤس چمن کی مینا اور سیمیا، افسانے میں ان کی چاروں کتابیں معہ چند دیگر تصنیفات ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ چاہیں تو یہ لنک استعمال کر لیجیے؛

https://rekhta.org/ebooks?author=naiyer-masud&lang=ur

نئیر مسعود اس ہفتے گزر گئے۔ بس یہ خبر اس تحریر کا محرک تھی۔ اگر پڑھنے والوں میں سے کوئی ایک محترم شخص اس تحریر کی وجہ سے ان تک پہنچ پایا تو سمجھیے فقیر کامیاب ہے۔ حق مغفرت کرے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain