لکھاری کا اعتراف نامہ


اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے یہ بتانا بہت ضروری ہے۔ صورتحال سمجھنے میں آپ کے اس لکھاری کو ناکامی ہوئی ہے۔ بہت سی وجوہات کی بنا پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ نوازشریف بچ جائیں گے۔ ہمیں یہ جاننے میں بھی ناکامی ہوئی کہ نوازشریف کو نکالنے کی خواہش کتنی شدید ہے۔ ہم نوازشریف کو طاقت کے کھیل میں موجود سب سے بڑے کھلاڑی کے طور پر دیکھتے رہے۔ یہ نظرانداز ہو گیا کہ ان کے مخالفین کی اجتماعی طاقت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ وہ کس شدت سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔

کپتان کے مداح اس وقت خوشی منا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک پیار بھری کشمکش کا تعلق ہے۔ ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں اس پر کہ ان کا جذبہ جیت گیا ہے، ہمارے اندازے غلط ہو گئے ہیں۔ اپنی فیس بک وال پر انہیں سارا سارا دن ستایا ہے۔ تو اب ان کی باری ہے۔

سیاست میں طاقت کے کھیل میں دلچسپی پاکستانی ہیروئینوں کی طرح بچپن سے ہی رہی ہے۔ جب بچے کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہیں ہم سیاسی ڈائریایں پڑھا کرتے تھے۔ کسی بھی پارٹی کی میٹنگ ہوتی کالج سے کام سے فرلو مار کے پہنچ جایا کرتے تھے۔ اخبارات میں چھپے کالم پڑھتے پچیس سال سے زیادہ ہو گئے۔ اب بھی روٹین یہی ہے کہ روز سویرے اٹھ کر کئی گھنٹے لگا کر اردو انگریزی اخبار کالم کا حرف حرف پڑھتا ہوں۔ شرط بس اتنی ہے کہ وہ ہو سیاست کے بارے میں۔ ان بزرگوں کو بھی تین دہائی سے پڑھ رہا جو ایک ہی کالم ہر روز لکھتے ہیں۔

کوشش کر کے بیٹ رپوٹروں سے یاری لگا رکھی ہے۔ وہ جب اپنی بیٹ کے حوالے سے کوئی خبر اڑا لاتے ہیں تو اکثر پہلے فون کر کے بتا دیتے ہیں۔ پارٹیوں میں نقب لگا کر کچھ لیڈر بھی پٹا رکھے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی ذاتی بات نہیں ہوئی کبھی، روز بات ہوتی ہے اور ٹاپک بس وہی ایک یعنی سیاست حالات ہی ہوتے ہیں۔ دو چار ننھے منے فرشتے بھی کندھوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ بتا ہی دیتے ہیں۔ انفارمیشن نیوز انڈسٹری بہت دلچسپ ہے۔ یہ بارٹر پر ہی چلتی ہے۔ آپ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ آپ ایک پارٹی سے خبر لیتے ہیں تو بدلے میں خبر دینی بھی پڑتی ہے۔

سیاست کو سمجھنے کے لیے قوم قبیلہ جاننا پڑتا ہے۔ ہماری سیاست برادریوں کے گرد گھومتی ہے۔ قومی صوبائی اسمبلیوں کے ہزار کے قریب حلقے ہیں۔ ان حلقوں میں سب سے بڑا جو فیکٹر کامیابی میں کردار ادا کرتا ہے وہ ذات برادری قبیلہ ہی ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست کئی بڑے گروہوں میں تقسیم ہے جو نسلی بھی ہیں لسانی بھی اور مذہبی بھی۔ پشاور ویلی کے ووٹر کا رویہ کے پی کے جنوبی اضلاع سے مختلف ہے جہاں پشتون بستے ہیں۔ سوات اور ہزارہ کی ڈائنامکس الگ ہیں۔ چوھدری نثار پوٹھوہار کی مارشل بیلٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ سب وقت کے ساتھ سیکھا ہے۔ اتنا گزارا ضرور کرتا ہوں کہ انہی ایشوز پر جب بات کرتا ہوں، لکھتا ہوں تو انہی باتوں کی کمائی سے کچن چلتا ہے۔ یہی واحد آمدنی ہے جو ملتی بھی رپوؤں کی بجائے ڈالر میں ہے۔ یہ ڈالر صرف ڈالر نہیں ہیں، یہ خبر بھی ہیں۔ ہمارے وطن میں کونسا ایشو اب اہم ہے یہ سب ہمیں سوالات سے پتہ لگتا ہے، اکثر دوسروں سے شاید پہلے۔ سوال کو سنجدیگی سے لینا چاہئے کہ وہ اتنا اہم ہوتا ہے کہ کبھی تو کسی بھی تفصیلی جواب سے بھی زیادہ علم دیتا ہے اور خبر بھی۔

بہانے بنانے کو کئی بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ تو بہت ہی آرام سے کہا جا سکتا ہے کہ یار ہم تو پانامہ ایشو کو دیکھ رہے تھے ہمیں اقامے کا کدھر پتہ تھا۔ ہم تو اندازے قانون کی بنیاد پر لگا رہے تھے۔ ہم تو مائی لارڈ کو دیکھ رہے تھے جو مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک میں پورے قد سے کھڑے رہے۔

بہانے تو بنانے نہیں ہیں۔ بہتر کرنا ہے اپنے اندازوں کو، اپنے اپیشہ ورانہ معیار کو۔ آپس میں کوئی لڑائی تو ہے نہیں جو فیس بک وال پر جگتیں لگانے آئے ہیں، وہ ان باکس گلے ملنے بھی تو آئے ہیں۔ میرے خیال میں ریڈر کا یہ حق ہے کہ اسے بتایا جائے کہ ہم اس کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ تاکہ وہ فیصلہ کر سکے کہ وہ مزید آپ کو پڑھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ رائٹر اور ریڈر کا تعلق سچا ہی رہنا چاہئے۔

کہنا بس اتنا ہی ہے کہ زیادہ محنت کی کوشش کریں گے۔ اندازوں کی اس ناکامی کے بعد خود میں بہتری لائیں گے۔ اس لیے یہ امید تو نہ ہی رکھیں کہ ہم وہ کہیں گے، جو آپ چاہتے ہیں ۔ کہنا اب بھی وہی ہے، جسے ہم ٹھیک سمجھیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi