کرپشن کے عادی مجرم نواز شریف سے کیسے جان چھڑائی جائے؟


میاں نواز شریف تیسری مرتبہ کرپشن پر پکڑے گئے لیکن ڈر ہے کہ چوتھی مرتبہ پھر ہمارے سر پر مسلط نہ ہو جائیں۔

میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں اور تین مرتبہ کرپشن پر برطرف ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ صدر مملکت نے کیا تھا جو سیاسی طور پر ایک قطعاً غیر جانبدار شخص ہوتا ہے۔ دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف مشرف جیسے درد دل رکھنے والے جرنیل نے کیا تھا جو آئین پاکستان کا مکمل طور پر وفادار تھا۔ جنرل مشرف کا یہی اخلاص دیکھ کر سپریم کورٹ نے ان کو حق دیا تھا کہ آئین میں جو چاہے ترمیم کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر چل سکے۔ اب تیسری مرتبہ سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ نے کرپشن پر نااہل کر دیا ہے۔ یعنی ریاست کے ہر دیانتدار ادارے کی جانب سے میاں صاحب کی کرپشن پر فیصلہ آ چکا ہے اور اب کسی ذی شعور پاکستانی کو اس امر میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ میاں نواز شریف نہ صرف کرپشن کرتے ہیں بلکہ ایسا کرتے ہوئے ہر بار پکڑے بھی جاتے ہیں۔

لیکن جہالت کا کیا حل ہے۔ دانشمند اشخاص میاں نواز شریف سے جان چھڑاتے ہیں لیکن جاہل ووٹر ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ صدر مملکت غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کو برطرف کیا تو اگلی مرتبہ اب کو جاہل عوام نے اتنا زیادہ ووٹ دیا کہ وہ دو تہائی اکثریت سے پارلیمان میں آ گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے انہیں پکڑا اور 21 برس کے لئے نا اہل کیا تو وہ پس پردہ رہ کر ڈوریاں ہلانے میں مصروف ہو گئے۔ جاہل عوام نے ان کے نام پر کھڑے کھمبوں کو پارلیمان میں پہنچا دیا جنہوں نے آئین کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مسخ کرتے ہوئے ان کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کر دی۔ اسی دوران ان پر سے سپریم کورٹ نے بھی 21 برس کی پابندی ہٹا لی۔

اب تیسری مرتبہ وہ پھر پکڑے جا چکے ہیں۔ سچ ہے کہ چور چوری سے جاتا ہے مگر ہیرا پھیری سے نہیں۔ انہوں نے چکر تو بہت چلایا کہ میں نے الیکشن کمیشن میں اپنے بیٹے کے ملازم ہونے کے کاغذات جمع کروا دیے تھے مگر کورٹ نے جب ان کے موقف کو ڈکشنری سے تولا تو ڈکشنری بھاری نکلی۔ سچ ہے خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

لیکن ہم جیسے ذی شعور لوگوں کو خدشہ ہے کہ جاہل ووٹر میاں نواز شریف کو دوبارہ ووٹ دے دیں گے۔ اس کا کچھ حل نکالا جانا چاہیے۔ آئیے راہنمائی کے لئے اپنی تاریخ کے روشن ترین باب یعنی برطانوی راج سے راہنمائی لیتے ہیں جس میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے اور کوئی کرپٹ شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا تھا۔

ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زریں عہد میں صرف وہ لوگ ووٹ ڈال سکتے تھے جو ایک بڑی زمین جائیداد کے مالک ہوتے تھے۔ اس سنہرے زمانے میں زمین جائیداد کا مالک ہونے کی شرط بھی یہی تھی کہ ایسا شخص کسی اونچی ذات سے تعلق رکھتا ہو اور اشرافیہ میں سے ہو۔ حکمت اس کی یہ تھی کہ گھر میں دانے پورے ہوں تو کوئی شخص لالچ میں پڑ کر اپنا ووٹ نہیں بیچے گا۔ اشرافیہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عزت کا پاس بھی رکھے گا اور ایسی خرید و فروخت کا سوچے گا بھی نہیں۔

بزرگ بتاتے ہیں کہ مشرقی پنجاب میں ہمارے گاؤں میں صرف ایک ووٹ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا کا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہن کو یہ ووٹ ٹرانسفر ہو گیا۔

ہمارے نانا برطانوی فوج میں ڈاکٹر کے طور پر شامل تھے۔ انبالہ میں ان کا ایک ہندو دلت دوست بھی ڈاکٹر تھا جو خوب متمول ہو گیا۔ اس نے مکان خریدنا چاہا تو برطانوی راج کے اس اشرافیہ کے ہی صاحب جائیداد قانون کی وجہ سے نا اہل قرار پایا اور اس نے ہمارے نانا کے نام پر مکان خریدا۔ قیام پاکستان کے وقت وہ اسے کاغذات دے کر آ گئے پھر پتہ نہیں اس کا کیا بنا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی یہ نظام چلتا رہا مگر پھر بدقسمتی سے 1970 کا الیکشن آ گیا۔ یوں تو جنرل آغا محمد یحیی خان نہایت ہی دانشمند تھے مگر ان کو امریکہ کے ایجنٹوں نے بہکا دیا اور انہوں نے ہر بالغ شہری کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا گیا حالانکہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہوئے حکیم الامت نے خبردار بھی کر دیا تھا کہ مغربی جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں انہیں تولا نہیں کرتے کہ کون کتنا ذی شعور اور سرکاری محب وطن ہے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے اور بھارتی سازش کی وجہ سے ہماری اکثریتی آبادی اپنی اقلیت سے الگ ہو گئی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہر شہری کو ووٹ کا حق دینے کے کتنے بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔

یوں موجودہ نظام آیا جس میں بریانی کی ایک پلیٹ یا محلے کی گندی نالی پکی کروانے کی قیمت پر لوگ ووٹ بیچنے لگے اور ذی شعور پاک صاف باکردار سچے پاکستانی لیڈروں کی بجائے میاں نواز شریف اور بھٹو خاندان کو ووٹ پڑنے لگے۔

یہ تو تھی وہ مختصر تاریخ جو ہماری تباہی کا نوحہ ہے۔ اب آگے کی سوچتے ہیں۔ ہمیں اگر اس نظام کو کرپشن سے پاک کرنا ہے تو ہمیں ایک مرتبہ پھر تاج برطانیہ سے راہنمائی لینی ہو گی۔ ووٹ کا حق ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو دینے کی بجائے صرف صاحب جائیداد اشرافیہ کو دیا جائے جو ایک امیر اور قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے خوب پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں، اونچی ذات بھی رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کو پکڑ پکڑ کر سمجھانا بھی آسان ہوتا ہے کہ اس وقت ملکی مفاد کا تقاضا کیا ہے۔

ہماری رائے میں شرط لگا دی جائے کہ صرف وہی شخص ووٹ ڈالنے کا اہل ہو گا جو سو ایکڑ نہری یا دو سو ایکڑ بارانی زمین یا شہری حدود میں دس کنال جائیداد کا مالک ہو۔ جائیداد کی ملکیت کے بارے میں بھی برطانوی راج کا فارمولا دوبارہ لگایا جائے اور صرف اشرافیہ کو جائیداد خریدنے کی اجازت دی جائے۔ اگر کسی شخص کی زمین زیادہ ہو تو اسے اسی مناسبت سے زیادہ ووٹ بھی دیے جائیں۔

صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم جاہل عوام کو نواز شریف جیسے کرپٹ اور الطاف حسین جیسے غدار افراد کو ووٹ دینے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو اگلے الیکشن میں پھر کروڑوں ووٹروں کی جہالت کے سبب یہی لیڈر دوبارہ ہمارے سر پر مسلط ہو جائیں گے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ لیڈر بدلنا ہے تو ووٹر بدلنے ہوں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar