عمران خان اور جسٹس کھوسہ کا غلط سکینڈل


عمران خان نے اے آر وائی کے ارشد شریف کو انٹرویو دیا جس کی ویڈیو کا ایک کلپ بہت زیادہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ ساتھ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ جسٹس کھوسہ نے عمران خان کو فون کر کے کہا کہ دھرنے کی بجائے عدالت میں آؤ۔ اس ویڈیو کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ حکومت گرانے کے لئے ان دونوں نے کوئی گٹھ جوڑ کیا ہے جو سامنے آ گیا ہے۔ اس ویڈیو میں ایسا کچھ نہیں ہے اور بلاوجہ کا سکینڈل بنایا جا رہا ہے۔

اس ویڈیو کلپ کے الفاظ کا مکمل متن یہ ہے۔

”عمران خان: اصل میں ارشد میں تو مجھے بڑی تنقید ہوئی جب 2 نومبر کو میں نے فیصلہ کیا 1 نومبر کو کہ ہم یہ لاک ڈاؤن پر نہیں جائیں گے جو ہم نے اسلام آباد میں دس لاکھ لوگ اکٹھے کرنے تھے۔ میں نے تب جب کال آف کیا اور میں نے کہا کہ ہم عدلیہ میں سپریم کورٹ میں جائیں گے، تو میری پارٹی نے بھی بڑی تنقید کی، میڈیا میں بھی میری بڑی تنقید ہوئی اور ہر طرح کی چیز ہوئی کہ جی یو ٹرن۔ تو میں نے میں تب بھی جب عدلیہ کے جب ہم نے فیصلہ کیا، مجھے یاد ہے فرسٹ کو یہ عدلیہ بیٹھی تھی اور انہوں نے مجھے ایک سپریم کورٹ کے جج نے مجھے ریکویسٹ کی تھی کہ میں بجائے سڑکوں پہ میں عدلیہ میں آؤں۔ میں بیلیو کرتا ہوں۔ ۔ ۔

ارشد شریف: سرونگ یا ریٹائرڈ جج؟

عمران خان: نہیں نہیں وہی جو یہ بینچ تھا میرے خیال میں جسٹس کھوسہ نے کہا تھا۔ وہ جو بینچ بیٹھا تھا فرسٹ کو۔ ہم نے فرسٹ کو جب بینچ بیٹھا تھا اس کے بعد فیصلہ کیا تھا آپ کو یاد ہو گا کہ ہم دو کو کال آف کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے ریکویسٹ کیا کہ آپ عدالت میں آئیں۔ “

اس کلپ سے یہ ظاہر ہے کہ عمران خان عدالتی کارروائی کا ذکر کر رہے ہیں کہ جب عدالت میں بینچ میں بیٹھے ہوئے کسی جج نے، غالباً جسٹس کھوسہ نے، عمران خان کو کہا کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے عدالت میں فیصلے کے لئے آئیں۔ اس ویڈیو میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ جسٹس کھوسہ نے عمران خان کو فون کر کے یہ کہا ہو کہ تم عدالت میں آؤ تو ادھر تو ہم نواز شریف کو دیکھ لیں گے۔

نواز شریف کے معاملے میں عمران خان کی پالیسی ہمیں غلط لگتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سازشی نظریات گھڑے جائیں۔ عمران خان سے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے عہدے کے اختیار کی بات ہو رہی ہے۔ آج اگر نواز شریف وزیراعظم ہیں تو کل عمران خان بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح اپنے جائز قانونی اختیار سے محروم ہوں گے اور ان کے ووٹر کے مینڈیٹ کو بھی اسی طرح مسترد کیا جائے گا۔ آئین میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کا تعین کیا گیا ہے، اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ ن نے جس وقت سپریم کورٹ پر حملہ کر کے یہ توازن بگاڑنے کی کوشش کی تھی، اس وقت ہم ان کی مخالفت کر رہے تھے۔ جب عدلیہ ہر انتظامی اور قانونی معاملے میں بالادستی چاہتی ہے، تو ہمیں یہ بھی غلط لگتا ہے۔

آئین اس بات پر نہایت واضح ہے کہ پارلیمان کوئی بھی آئینی ترمیم کر سکتی ہے اور اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی ترامیم عدالت میں چیلنج ہوتی ہیں۔ آئین کے مطابق قانون سازی اور حکومت چلانا، عوام کے منتخب نمائندوں کا اختیار ہے۔ اسے ان سے چھینا جانا غلط ہے۔ آئینی ترمیم نہیں بلکہ صرف ایسے قوانین عدالت میں چیلنج ہو سکتے ہیں جو آئین کے خلاف بنائے گئے ہوں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar