الیکشن میں اثاثوں کی چھان بین پر نااہلی کا قانونی طریقہ


پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد مذکورہ نا اہلی کے گراونڈ پر کافی کچھ لکھا گیا ہے، تاہم ایک اہم بنیادی زاویہ جو نگاہوں سے اوجھل رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن اور موجودہ بحران سے تعلق رکھنے والے معلقہ قوانین کا ڈھانچہ اور نظم کیا ہے۔ نیز یہ کہ الیکشن قوانین امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے، اثاثہ جات ظاہر کرنے، کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے، اس منظوری یا مستردہونے کے خلاف اپیل، جیتے ہوئے امیدوار کو ڈی سیٹ کرنے اور اسے غیر صادق و امین قرار دے کر نا اہل کرنے سے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم انہی امور کا جائزہ لیں گے۔

پاکستان میں الیکشن قوانین بنیادی طور پر روپا کا 1976 میں بنائے جانے والے ایکٹ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آئین پاکستان کے مشہور زمانہ آرٹیکلز 62 اور 63 ہیں۔ پہلے ہم ایکٹ 1976 (روپا) کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

روپا کے سیکشن 12 کے تحت امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی متعلقہ ریٹرننگ افسر کو جمع کراتا ہے جس میں سیکشن 12 کے سب سیکشن 2 ایف کے تحت اپنے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں کی تفصیل بھی شامل ہوتی ہے۔ متعلقہ یٹرننگ آفیسر روپا کے سیکشن 14 کے تحت کاغذات کی سکروٹنی کرتا ہے اور مخالف امیدوار کو بھی اعتراضات دائر کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ سمری پروسیڈنگ ہوتی ہے اور اگر ریٹرننگ افسر سمجھے کہ متعلقہ امیدوار الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے یا اس کے اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطیاں ہیں تو وہ کاغذات نامزدگی مسترد کرتا ہے اور غلطی نہ ہونے کی صورت میں منظور کر لیتا ہے۔ نا اہلی کے گراونڈز روپا کے سیکشن 99 میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں جن میں صادق و امین والی شق بھی تقریبا انہی الفاظ میں شامل ہے جیسے آئین کے آرٹیکل 62 میں بیان ہوئی ہے۔

ریٹرننگ افسر کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف خصوصی طور پر اسی مقصد کے لئے قائم کیے گئے ٹرائبیونل میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ عدالتی نظائر کے مطابق ٹرائبیونل کے فیصلے کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جس امیدوار کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر یا اپیلیٹ اتھارٹی سےمنظور ہو جائیں اسے الیکشن لڑنے دیا جاتا ہے اور اگر وہ جیت جائے تو اس کے خلاف ہارنے والا امیدوار 45 دن کے اندر روپا کی دفعہ 52 کے تحت الیکشن ٹرائبیونل میں الیکشن پیٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ کسی منتخب ممبر کے الیکشن کو چیلینج کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے۔

روپا کی دفعہ 68 کے تحت الیکشن ٹرائبیونل کا اختیار یہ ہے کہ وہ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ کاغذات نامزدگی درست نہ تھے یا کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے والے دن ممبر بننے کا اہل نہیں تھا (روپا کے سیکشن 99 کے تحت یا آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت)، یا اس کے لئے نا اہل تھا، تو جیتنے والے امیدوار کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص الیکشن سے پہلے ہونے والی ساری سکروٹنی سے بچ بچا کر ممبر بن جائے تو آپ الیکشن کے بعد 45 دن کے اندر اندر اس کے خلاف الیکشن پیٹیشن دائر کر کے اس کا الیکشن کالعدم کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے الیکشن کو کالعدم کروانے کا کوئی طریقہ قانون میں بیان نہیں ہوا۔

اگر بعد ازاں کسی وقت ایسا معاملہ سامنے آجائے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ نا اہل ہے (آرٹیکل 62 کی اہلیت اور صداقت امانت کا اس سے تعلق نہیں) تو یہ معاملہ سپیکر اسمبلی (یا چیئرمین سینٹ) کے اختیار سماعت میں آتا ہے۔ وہ ایسے معاملے پر یا تو یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نا اہلی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوا یا وہ اس ممبر کا معاملہ آرٹیکل 63 کی شق نمبر2 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج سکتے ہیں، جو اس نا اہلی کی بابت کیس سن کر فیصلہ کر سکتا ہے اور ایسے ممبر کو نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی امیدوار یا ممبر کی اہلیت کو چیلنج کرنے کا کوئی قانونی یا آئینی طریقہ نہیں ہے۔ آئین کا منشا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ممبران پارلیمنٹ پر ہر وقت نا اہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی تو ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گی۔ واضح رہے کہ آئین کے مطابق اہلیت کی شرائط اور نا اہلی کے گراونڈ مختلف ہیں۔ اہلیت کی شرائط آرٹیکل 62 میں بیان ہوئی ہیں اور آرٹیکل 63 میں منتخب ممبر کے نا اہل ہونے کے اسباب بیان ہوئے ہیں جن میں صادق و امین والا گراونڈ موجود نہیں ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ غیر صادق و امین ہونا اور اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطی ہونا دو الگ اور جدا قانونی تصورات ہیں اور ایک دوسرے کے لازم و ملزوم نہیں۔ ایک امیدوار اثاثہ جات کی تفصیل میں بغیر کسی غلطی کے بھی غیر صادق و امین والی نا اہلی میں شامل ہو سکتا ہے اور اسی طرح ایک امیدوار اثاثہ جات کی تفصیل میں غلطی کے باوجود غیر صادق و امین والی نا اہلی سے بچ سکتا ہے۔ اثاثہ جات کی جھوٹی یا غلط تفصیل نہ تو آئین پاکستان کی دفعات 62 یا 63 کے تحت نا اہلی کا گراونڈ ہے اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ کی امیدواران کی دفعہ 99 میں اس کا ذکر ہے بلکہ اس کا تعلق روپا کی دفعہ 14 سے ہے جس کے تحت اثاثہ جات کی نادرست تفصیلات کی بنیاد پر یا تو الیکشن لڑنے سے روکا جا سکتا ہے یا الیکشن جیتنے کی صورت میں اس الیکشن کو روپا کی دفعہ 68 کے تحت کالعدم قرار دے کر سیٹ خالی کرائی جا سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور روپا کے 99 ایف والی غیر صادق و امین والی نا اہلی صرف تب کام آتی ہے جب ایک درست اختیار سماعت رکھنے والی قانون کی عدالت ٹرائل کرنے، شہادت ریکارڈ کرنے اور جرح کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ امیدوار نے اثاثہ جات کو چھپا کر بددیانتی کا ارتکاب کیا ہے، یا کسی اور اخلاقی یا ’’اسلامی‘‘ وجہ سے صادق اور امین نہیں رہا۔ جہاں اثاثہ جات کی غلطی پر غیر صادق و امین قرار دیا جائے وہاں بددیانتی ثابت کرنا لازم ہوگی۔ لہذا اثاثہ جات کی تفصیلات میں غلطی لازمی نتیجے کے طور پر امیدوار کو غیر صادق اور غیر امین نہیں بناتی۔

موجودہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ قابل وصول تنخواہ ظاہر نہیں کی گئی۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر شہادت اور جرح کے نہ لی جانے والی قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ کیسے کہا گیا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ یہ اثاثہ ظاہر نہ کرنے کی بنا پر وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے۔ اس پر سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر قابل وصول تنخواہ کو بالفرض اثاثہ مان لیا جائے تو بھی اس پر انتخاب کالعدم ہو سکتا ہے، صادق و امین والی نا اہلی تو صرف تب ہو گی جب متعلقہ عدالت (الیکشن ٹریبونل) میں ٹرائل چلے اور شہادت و جرح سے ثابت ہو کہ اثاثہ جات بدنیتی سے چھپائے گئے لہذا اب امیدوار صادق و امین نہیں رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں متعلقہ عدالت بھی کود کو بنا لیا، یہ بھی فرض کر لیا کہ قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہوتا ہے، یہ بھی فرض کر لیا کہ بغیر ٹرائل محض اثاثہ ظاہر نہ کرنے سے غیر صادق و امین والی ڈیکلیریشن دی جا سکتی ہے۔ اور یہ سب سپریم کورٹ نے اپنے اصلی آئینی اختیار سماعت میں کیا جس میں ملزم کے لئے اپیل کا حق بھی میسر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).