مسلم لیگ ن کا سقوط ڈھاکہ


تاریخ اور سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لئے آج کی سیاست کا چہرہ بہت دلچسپ ہے۔ ایک طویل عدالتی مقدمہ، آئے روز اتارچڑھاؤ، تیزی سے بہتی گفتگو، تبصرے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گویا بم کی طرح پھٹنے کے بعد سکوت کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیا ہوا؟ حکومت چلی بھی گئی لیکن ہے بھی۔ اقتدار سے فراغت مگر طاقت آج بھی اسی ایک مٹھی میں۔ لیڈر بھی وہی اور اس کے اقتدار کا انجام بھی ماضی سے ملتا جلتا۔ مگر اسی لیڈر کی پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے۔ پنجاب میں اس کی حکومت ہے۔ مرکز اور پنجاب کا صوبائی اقتدار اسی کے اشارے پر منتقل ہوں گے۔ ان دونوں جلیل القدر عہدوں پر فائز ہونے والے نہ صرف اسی شخص سے ہدایات لیں گے بلکہ دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ وہ مبارک باد، دینے والے کا چہرہ بھی غور سے دیکھیں گے کہ کہیں یہ واپس جا کر نواز شریف کو شکایت نہ کر دے کہ ہم عہدے قبول کر کے خوشیاں منا رہے ہیں یعنی بیچارے مبارک باد لیتے ہوئے بھی گھبرائیں گے۔ پنجاب میں حکومت اسی کے وفادار چلا رہے ہیں۔ مسلم لیگی ووٹر اس فیصلے کے خلاف مظاہرہ کرے تو آخر کہاں؟ جی ٹی روڈ بلاک کر کے وہ شہبازشریف کی حکومت کو مشکل ڈالتا ہے۔ نعرے لگائے تو کس کے خلاف؟ ان حالات میں محض رونا دھونا اور ماتم ہی ہو سکتا ہے سو اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

اب سازش کا نام تو لیا جا رہا ہے مگر سازش کرنے والا تادم تحریر لاپتہ ہے۔ یہ روایتی دفاع دہائیوں سے استعمال ہوتے ہوتے اب اتنا گھس چکا ہے کہ اپنے مفہوم سے ہی محروم ہو چکا ہے۔ یہ سوال اب نوجوان بچے بھی پوچھنے لگے ہیں کہ آخر نواز شریف کی کسی بھی آرمی چیف سے کیوں نہیں بنتی؟ کیا وہ سب کے سب مکمل طور پر غلط تھے اور نواز شریف ہمیشہ درست؟ یاد رکھنا چاہیے کہ نواز شریف کو ایک عرصے سے پاکستان کا خوش قسمت ترین سیاست دان سمجھا جاتا ہے اور اس حقیقت کی نا قابل تردید مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں جگمگا رہی ہیں۔ قسمت کے دھنی یوں اچانک نظروں میں مظلوم نہیں بنا کرتے۔

یوسف رضا گیلانی کا عدالت کے ہاتھوں گھر جانا ایک قطعی مختلف بات تھی کیونکہ وہاں طاقت کا سرچشمہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران بھی ایوان صدر میں بہتا تھا اور ان کے بعد بھی وہی بہتا رہا۔ جبکہ یہاں پہ خود طاقت کا سرچشمہ ہی نا اہل ہو چکا ہے۔ براہ راست فوجی قبضے یا صدارتی اقدام کے خلاف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں تحریکوں اور احتجاج کا تجربہ رکھتی ہیں۔ قوم بھی سویلین راستوں پر فوجی ٹینکوں کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھا کرتی۔ فوجی جوان سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرتے تو سب دیکھتے۔ یہ نظر آتا تھا کہ ایک فریق طاقتور ہے جبکہ دوسرا کمزور یا مظلوم۔ اسمبلیاں تحلیل ہوا کرتیں۔ قیادت اقتدار کی راہ داریوں سے براہ راست جیل میں ہوا کرتی۔ یعنی وہ تخت یا تختہ جس کا ذکر نواز شریف نے اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں کیا۔ لیکن یہ کیا ہوا؟

بھارتی صحافی ٹویٹ کر کے اپنی سپریم کورٹ کو لتارتے دکھائی دیے کہ وہ کب ان بھارتی شہریوں سے معاملہ کرے گی جن کے نام پاناما پیپرز میں موجود ہیں۔ کچھ صحافی اپنے وزیراعظم نریندر مودی کو للکارتے رہے کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف آخر کیا کیا؟ اہم مغربی ممالک کی حکومتوں کا بھی کسی طرح کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اورآئے بھی آخر کیا۔ رہا چین تو اس کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تب جن ممالک نے بھٹو کی زندگی کے لئے ضیا الحق سے رحم کی اپیلیں کی تھیں ان میں چین شامل نہیں تھا۔ جائز طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کرتے وقت ہر دلعزیز ،مشہور زمانہ دفعات 63، 62 کادفاع کیوں کیا گیا تھا؟ یہ کیوں کہا گیا کہ ان ترامیم کو ہاتھ لگانا اسلام کے خلاف سازش ہے؟ پاکستان کے آئین 63، 62کی شرائط کسی صوفی کی خانقاہ میں داخلے کے لئے تو سمجھ آتی ہیں، دنیا میں بستے انسانوں کو اس روحانی پل صراط سے گزارنا حقیقت کی دنیا پر کیا اثرات ڈالے گا؟ بس اسی سے ملتے جلتے اثرات ہوں گے جس طرح کی مثال سامنے آئی۔

اس وقت یہ سمجھ کیوں نہ آیا کہ حضور، ولیوں کے منصب پر فائز کون کرے گا اور یہ کون طے کرے گا کہ فلاں شخص ولی نہیں رہا؟ مولانا فضل الرحمان کا دباؤ ہی اصل وجہ تھا تو اب تاریخ کا دباؤ حاضر ہے۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جناب حسین نواز اور حسن نواز کس حیثیت میں برطانوی اور پاکستانی میڈیا کو بڑھ چڑھ کر انٹرویوز دیتے رہے۔ کیا وہ الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے؟ کیا وہ باقاعدہ سیاست میں آچکے تھے؟ ظاہر ہے اس کا جواب نہیں ہے تو پھر ایک ناراض ہیرو کی طرح اپنے خاندان کے مالی معاملات کا ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کس کا مشورہ تھا؟ مریم نواز کو تو خیر جانشین کے طو ر پر تیار کیا جا رہا تھا لہٰذا ان کا انٹرویو دینا غیر معمولی بات نہیں۔ ان سے غلطیاں ہوتیں، جن سے تجربہ ہوتا لیکن برادران مریم کا خون کیوں جوش سے ٹھاٹھیں مارتا رہا؟ حضور یہ فلم نہیں چل رہی تھی۔

خود نواز شریف نے جو تقاریر کیں بظاہر وہ ادا کیے ہوئے ہر لفظ کے تلفظ اور اپنے لہجے پر ہی توجہ دیتے رہے۔ وہ کیا لفظ ادا کر رہے تھے اور ان کا مفہوم کیا تھا؟ انہوں نے غالباً غور نہیں کیا۔ آج بھی شریف خاندان کے لئے سانحہ غلام اسحق خان اور سانحہ پرویز مشرف کے برعکس حالات کہیں آسودہ ہیں۔ اب بھی بہت کچھ بچا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ مقدمات کی ایک طویل قطار آگے دکھائی دیتی ہے۔ جیل جانے کا خطرہ ٹھوس شکل میں موجودہے۔ لیکن پاکستانی سیاست میں یہ کچھ نیا نہیں۔ نواز شریف آج بھی مکمل پروٹوکول اور احترام کے ساتھ مری کے اس گھر میں بیٹھے ہیں، جو ان کی اپنی ملکیت ہے۔ پرویز مشرف کی طرح کوئی ذاتی دشمن اقتدار اعلیٰ پر براہ راست قابض نہیں۔ میڈیا بہت طاقتور ہے۔ کاش! نواز شریف اور ان کے مخلص نادان خیر خواہ اداروں کو ذاتی دشمن کا درجہ نہ دیں۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ نہ تو ماضی کی طرح ان کی حکومت اور اسمبلیوں کا قتل ہوا ہے اور نہ ہی وہ مکمل شہید ہوئے ہیں۔ لہٰذا قوم سے اس موقعے پر ہمدردیوں کی توقع فضول ہے۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ جب نواز شریف بطور وزیراعظم اپنی حکومت نہ بچا سکے تو ان کا نامزد کردہ وزیراعظم آخر ایسا کیا کر سکے گا کہ نواز شریف کو جیل جانے سے بچا سکے یا مقدمات پر اثر انداز ہو سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ چھوٹا بھائی وزیراعظم ہاؤس میں ہو اور بڑا بھائی براستہ عدالت جیل میں۔ تو اس پر گزارش ہے کہ امکانات کی دنیا میں تو سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن اگر نواز شریف اس وقت اپنی تمام توجہ قانونی معاملات، پارٹی کی تنظیم اور عوامی سیاست پر فوکس کر دیں اور طاقت کے کھیل سے خود کو علیحدہ کر کے یہ معاملات شہبازشریف کے حوالے کر دیں تو راستے آسان ہونے کی توقع ہے۔

رہی بات اس موقعے پر شہبازشریف کے پارٹی قیادت اور اقتدار سنبھالنے کی تو عرض ہے کہ اس سے زیادہ غیر مناسب اور مشکل حالات اور ہو نہیں سکتے تھے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے جن حالات میں پارٹی میں طاقت کے خلا کو پر کیا اور پارٹی کو سنبھالا وہ بالکل مختلف تھے۔ محترمہ کی شہادت کا خون غصے اور انتقام کی طاقت لئے ہوئے گھروں سے نکلا اور بیلٹ باکس پر آنسو کی مہر لگا گیا جبکہ مسلم لیگ ن کے ورکر سے لے کر مرکزی قیادت تک غصے اور انتقام سے زیادہ ،اداسی اورمایوسی کا ملبہ اٹھائے کھڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے لئے نواز شریف کا تاحیات نا اہل ہو جانا سیاسی سقوط ڈھاکہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو نیا پاکستان کا نعرہ لگا کے انتہائی تیزی اور سرعت کے ساتھ ایک اداس اور مایوس قوم میں زندگی کی حرارت بھر دی تھی۔ مگر وہ اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے اور ووٹ خود ان کی اپنی ذات کا تھا۔

شہبازشریف کو چومکھی لڑائی لڑنا ہو گی۔ مسلم لیگ ن میں زندگی اور توانائی کس طرح ڈالیں گے؟ دہشت گردی کے بھڑکتے شعلوں کو کیسے بجھائیں گے؟ اداروں میں پیدا ہو چکی رنجشیں، گلے شکوے ایک طرف منہ کھولے کھڑے ہیں، دوسری طرف خود پر اور خاندان پر چلتے ہوئے نیب مقدمات کا سامناکرنا ہے۔ پارٹی کی سینئر قیادت کے باہمی جھگڑے ایک طرف، خود ان کے خاندان میں شدید باہمی رنجشیں آئے دن سامنے آتی ہیں۔ ادھر مولانا فضل الرحمان حال ہی میں اپنی مالی مشکلات کا رونا رو چکے ہیں۔ وہ تو خیر ہمت والے ہیں مگر باقی اتحادی قوم کے سامنے نہ سہی خلوت میں نئی فرمائشیں کریں گے ضرور۔ ایران، افغانستان، بھارت،امریکہ، اسرائیل تو کھل کر سامنے آچکے۔ عرب دوست ممالک سے بھی سردمہری ہے۔ غیر یقینی صورت حال میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہے گا۔ شہبازشریف وزیراعظم ہاؤس نہیں بلکہ اس سمندری جہاز ٹائی ٹینک کی کپتانی سنبھالنے جا رہے ہیں جو آئس برگ سے ٹکڑا چکا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).