آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ: چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں


تمام قوم کو مبارک ہو پانامہ کا فیصلہ آ گیا اور ایک سال تین ماہ بعد ہم آخر کار آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور ہم نے ایک اور وزیراعظم کو عدالت کے ذریعے گھر بھیج دیا۔ تمام لوگ خوش ہیں شادیانے بجا رہے ہیں، مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں، بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ ڈالنے بھی چاہئیں کیونکہ جب وزیراعظم نے خود اپنے ادارے کو اہمیت نہیں دی اور کہا کہ عدالت کوئی (کمیشن) کوئی (جے آئی ٹی) بنا دے وہ تحقیقات کرے۔ اور عمران خان درخواست پکڑے ساتھ شیخ رشید اور سراج الحق کی درخواستوں کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ تو سپریم کورٹ نے پہلے ان درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار نہ دے کر ایک موقع دیا کہ بات آپ کی ہے اسے اپنے ادارے (پارلیمنٹ) میں حل کریں اور جس کا پیپلزپارٹی بار بار کہتی رہی کہ وزیراعظم صاحب پارلیمنٹ میں آئیں، سوالوں کاجواب دیں اس پارلیمنٹ میں اس کیس کو حل کریں۔

مگر افسوس کہ نہ تو اس وقت کے وزیراعظم، نہ ہی عمران خان اور نہ ہی تمام مسلم لیگ (ن) اس پر راضی ہوئی۔ اور انھوں نے نہ صرف اس ادارے کو جس کو باتوں کی حد تک تو حکمران جماعت نے سپریم کہا مگر مانا نہ، کو تمام کے تمام ذبح خانہ میں 62 اور 63 کی ایسی چھڑی کے سامنے لا رکھا ہے جس پر اب عدالت کا ایٹمی وار ہیڈ بھی لگ چکا ہے۔ میں سوال یہ کرنا چاہتا ہوں جو لوگ نواز شریف صاحب کو بہت عقل مند اور بڑا سینئر سیاست دان کہتے ہیں، انھوں نے کس عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد تمام پارلیمنٹ کو زیر کروا دیا۔ انھیں عوام نے منتخب کر کے اس ایوان میں بھیجا تھا۔ تو پھر جس عوام کی بات کرتے ہیں ان کے نمائندے کا اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ بھی اسی پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ فوج اپنا احتساب خود کرتی ہے۔ عدلیہ اپنا احتساب خود کرتی ہے۔ تو آپ نے کس حق کے تحت آپ کو منتخب کرنے والوں کے اعتماد کو اور جمہور کے ادارے کو قتل کیا۔ آج آپ اس کا بھی جواب دیں۔

خان صاحب جس ادارے سے تنخواہ لیتے ہیں اسے پسند نہیں کرتے اس میں آتے نہیں، کیا یہ بددیانتی نہیں۔ 126 دنوں کے دھرنے میں آپ نے اسی ادارے پر چڑھائی کی اور پھر اسی ادارے سے تنخواہ بھی لی۔ آفرین ہے آپ کی دیانت اور ایمانداری پہ۔ اور صد آفرین ہے نواز شریف صاحب کے پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے پر جسے آپ نے خود ذلیل و رسوا کروا دیا۔ جب فیصلہ آیا تو نیویارک ٹائمز نے جو بات لکھی کہ ” Pakistan’s court set a Dangerous precedent “ یعنی پاکستانی کورٹ نے ایک خطرناک مثال قائم کر دی ہے۔ اب یہ 62 اور 63 کی چھڑی پکڑے ہر کوئی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپے ہو جائے گا۔

نواز شریف صاحب کتنے عرصے کے لیے نااہل ہوئے، تاحیات یا کچھ عرصہ، یہ بحث کا اب موضوع ہی نہیں ہے۔ حکومت پانچ سال پورے کرے گی پھر 2018 میں انتخابات ہوں گے پھر ایک سیاسی اور جمہوری حکومت بنے گی۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ مگر 2018 کے الیکشن میں کون کون سے چہرے نہ ہوں گے اور وہ اس 62 اور 63 کی چھڑی سے ہلاک ہو چکے ہوں گے تو جناب اب دیکھنا ہے کہ عمران خان صاحب جن کے خلاف حنیف عباسی صاحب درخواست لے کر سپریم کورٹ میں جا چکے ہیں ان کے ساتھ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے۔ کیونکہ انھوں نے بھی 2002 کے اپنے الیکشن کمیشن میں دیے گئے کاغذات میں اپنی آمدنی، اپنے اثاثہ جات اور جمائمہ صاحبہ کے ساتھ لین دین کی رقوم کے حوالے سے درست نہیں بتایا۔

اسی طرح جہانگیر ترین نے ایف بی آر میں اپنے ٹیکس گوشوارے کچھ اور دیے ہیں اور الیکشن کمیشن میں انتہائی کم دکھائے گئے ہیں۔ اب عدالت عالیہ کو اپنے تحکم اور اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھنے کے لیے یہاں بھی اسی طرح سے فیصلہ کرنا ہو گا جیسے نواز شریف کے کیس میں کیا۔ کیونکہ چوری چوری ہوتی ہے چھوٹی ہو یا بڑی اور جب تک اس کی سزا نہ ملے تو وہ چوری ہی رہتی ہے اور اس کو چھپانے والا صادق اور امین نہیں ہوتا۔

عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن میں Political Party Order 2002 کے تحت حلف نامہ جمع کروایا ہوا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر ملکی فنڈنگ نہیں لی ہوئی جبکہ اکبر ایس بابر کا کہنا کچھ اور ہے اور یاد رہے کہ خان صاحب پر الزام ہے کہ  آپ نے دوسرے ممالک کے شہری یعنی بھارت اور اسرائیل کے جو کہ انگلینڈ اور امریکہ میں رہتے ہیں ان سے فنڈنگ لی ہے ایک پاکستانی پارٹی جس نے سیاست پاکستان میں کرنی ہے اس میں ایسے ممالک کے لوگ فنڈنگ کیوں کریں گے یہ اپنے اندر ایک بڑا اور گھمبیر سوال ہے جس کا جواب آنا خان صاحب کی جانب سے نہایت ضروری ہے جو کہ ملکی سالمیت کے لئے بھی لازم ہے۔

ویسے اب اگر خان صاحب اپنی پارٹی کی فارن فنڈنگ کے حوالے سے جوکچھ بھی کہتے ہیں تو وہ اپنے حلف ناموں جو ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں اِن حلف ناموں سے منحرف ہوتے ہیں جو ان کو بھی صادق اور امین نہیں رہنے دیتا اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف میں سے بھی چیئرمین عمران خان صاحب نا اہل ہو جائیں گے اور میری ناقص عقل کے مطابق شاہ محمود قریشی صاحب چیئرمین بن جائیں گے اور شاید نواز شریف کے حوالے سے اس فیصلے کی توقع عمران خان کو بھی نہ تھی کہ عدلیہ انہیں 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دے گی شاید اسی لئے نا اہلی کے بعد والی پریس کانفرنس میں خان صاحب کے چہرے سے خوشی اور مسکراہٹ غائب تھی صرف باتیں خوشی والی کررہے تھے۔ اس وجہ سے پچھلے کافی دنوں سے وہ کہہ رہے تھے کہ میں اگر نا اہل ہوتا ہوں تو ہو جاؤں، مگر ان کو نہیں چھوڑنا ۔

اس کے ساتھ ہی جہانگیر ترین صاحب پر بھی صادق اور امین کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ ان کے( ایف بی آر) میں دیے گئے ان کے آمدن و ٹیکس کے کاغذات کچھ اور ہی بتاتے ہیں اور اسی سال الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے کاغذات میں آمدن اور ٹیکس کی تفصیلات مختلف ہیں اور پھر ان کی آف شور کمپنی والا معاملہ بھی ان کی صداقت و امانت کو داغ دار کرنے کے لئے کافی ہے۔ میں نے بہت دیر پہلے عرض کی تھی کہ نقصان سب اٹھائیں گے اور سب کو کٹ ٹو سائز کیا جائے گا تاکہ سمجھانا آسان ہو۔ ایک مرتبہ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ اسکرپٹ کبھی ختم نہیں ہوتا اپنی ہیئت بدلتا ہے اسکرپٹ ابھی بھی ختم نہیں ہوا بلکہ کام تو ابھی شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھئے اسکرپٹ کیا کیا رنگ دکھاتا ہے، کیونکہ اسکرپٹ جاندار، بھی تجسس سے بھرپور بھی اور کاسٹ بھی جاندار ہے اور شاندار بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).