شہبازشریف کی ”باآسانی“ وزیراعظم ہاﺅس منتقلی


پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے پانچ عزت مآب ججوں اور اس ملک کے 6ریاستی اداروں کے نمائندگان پر مشتمل JITکے لئے ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں تواتر کے ساتھ ”زندہ باد“ کے نعرے لگوا دئیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے ”یوم تشکر“ والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے تمام رہ نماﺅں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ ان عزت مآب ججوں اور JITکے اراکین کی بدولت پاکستان میں ”حقیقی تبدیلی“ لانے کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔

پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف ”اقامہ“ کی بنیاد پر ہمارے آئین میں طے شدہ ”صادق“ اور ”امین“ کے معیار پر پورے نہ اُتر پائے۔ اپنے عہدے کے لئے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دئیے گئے۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت مگر ”انقلاب“ کا محض آغازبتائی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک معزز رکن کی نگرانی میں اب پانامہ دستاویزات میں دکھائی جائیدادوں کا حساب ہوگا۔ احتساب کے اس کڑے عمل کی بدولت نواز شریف کو اپنے بچوں اور سمدھی سمیت طویل عرصے کے لئے جیلوں میں آنا ہوگا۔مبینہ طورپر ”قوم سے لوٹی ہوئی دولت“ قومی خزانے میں واپس لائی جائے گی۔

انقلاب کے اس موسم میں جہاں سپریم کورٹ اور ریاست کے دائمی ادارے یکسو ہوکر ”بدعنوان سیاست دانوں“ کے احتساب پر ڈٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں،نواز شریف ہرگز پریشان دکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی نشستوں پر قومی اسمبلی میں بیٹھنے والے تمام اراکین نے بلاچوں و چراں اس فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کیا کہ چند دنوں کے لئے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا جائے۔ ان کے وہاں پہنچ جانے کے بعد شہباز شریف لاہور سے اپنے بھائی کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑ کر اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اس شہر میں آتے ہی انہیں وزیر اعظم منتخب کرلیا جائے گا۔

نواز شریف اور ان کے چاہنے والوں کو یقین ہے کہ شہباز شریف کی وزیر اعظم ہاﺅس منتقلی اتنی ہی آسان ہوگی جو ظفر اللہ جمالی کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد شوکت عزیز کے حوالے سے دیکھنے میں آئی تھی۔شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے تک چودھری شجاعت حسین کو درمیانی وقفے میں وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا تھا۔

شہباز شریف کی ”بآسانی“ وزیر اعظم ہاﺅس منتقلی کو نواز شریف اور ان کے چاہنے والے انگریزی محاورے میں بتائے Taken for Grantedانداز میں لے رہے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ اس حقیقت سے بچگانہ طورپر بے خبر نظرآرہے کہ ظفر اللہ جمالی سے چودھری شجاعت حسین کو کچھ عرصے تک وزیر اعظم دکھانے کے بعد شوکت عزیز تک پہنچنے کا سفر جنرل مشرف کی ”چھترچھاﺅں“ میں طے ہوا تھا۔ وہ اس ملک کے طاقت ور ترین صدر تھے جن کے پاس بیک وقت آرمی چیف کا عہدہ بھی تھا۔

2017ءمیں پاکستان مسلم لیگ نون کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ریاست کے دائمی ادارے اسے اب ”ایم کیو ایم“ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس جماعت کے لندن میں بیٹھے بانی کی حماقتوں کے باعث موصوف کے پرانے چیلوں میں سے ”کمال کی ہٹی“ بنائی گئی۔ وہ ہٹی چل نہ پائی تو فاروق ستار کو ایم کیو ایم(پاکستان) سنبھالنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس اجازت کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک منتشر ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک ثابت قدم جیالے سعید غنی نے اس کی بدولت حال ہی میں کراچی سے صوبائی اسمبلی کا ایک ضمنی انتخاب جیتا ہے۔

نواز کی سپریم کورٹ سے ہوئی ”نااہلی“ کے بعد ہمارے اداروں کو ”کمال کی ہٹی“ جیسی کوئی جماعت کھولنے کی ضرورت ہی نہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر موجود ہوتے ہوئے بھی ان کا ناطقہ دھرنوں اور اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن کے ذریعے بند کئے رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے کئی حوالوں سے فکری رہ نما، راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نواز شریف کی جانب سے چنے وزیر اعظم کے امیدوار شاہد خاقان عباسی کو اب قطر کے ساتھ LNGکے سودوں میں کرپشن کے الزامات کے تحت سپریم کورٹ کے روبرو لانے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف کے لئے بھی ”حدیبیہ پیپرز“ کے حوالے سے ”ہولناک انجام“ کے دعوے کئے جارہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے پانچ عزب مآب ججوں اور JITکے 6اراکین کی توصیف میں ”زندہ باد“کے نعرے لگ چکے ہیں۔ ان نعروں کے بعد بھی اگر پاکستان مسلم لیگ نون اپنے لئے ستے خیراں محسوس کررہی ہے تو ان کی خوش فہمی پر مجھ ایسے پتھر دل کو ہرگز ترس نہیں آئے گا۔ غصہ بھری حیرت بلکہ یہ سوچ کر محسوس ہورہی ہے کہ 80ءکی دہائی سے اقتدار کے کھیل سے جڑے یہ کردار اپنی مشکلات کا اندازہ کیوں نہیں لگاپارہے۔ ان کے دلِ خوش فہم کو اب کس سے ہیں امیدیں؟!

پاکستان میں اقتدار کے کھیل کو 1980ءسے بہت قریب سے دیکھنے کے بعد مسلسل کئی برسوں تک رپورٹ کرتے ہوئے میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ اپنی تاریخ کے اس کڑے وقت میں مسلم لیگ (نون) کا شہباز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانا ایک خودکش فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے سیاست دانوں نے اپنی حماقتوں سے نام نہاد پارلیمانی نظام کو جس ذلت سے دو چار کیا ہے اس کی روشنی میں ویسے بھی اشد ضروری ہے کہ کسی نہ کسی صورت اس ملک میں حقیقی سیاست کا آغاز کیا جائے۔ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد 1985ءکے انتخابات کے بعد منظرِ عام پر آنے والے وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کا راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

جونیجو مرحوم نے جب وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تو انہیں محض پیرپگاڑا کا ایک مرید سمجھا گیا تھا۔ بہت خاموشی مگر ثابت قدمی کے ساتھ جونیجو صاحب نے قومی اسمبلی کو مضبوط بنایا۔ اس کے اجلاسوںمیں باقاعدگی سے شرکت کی۔ قومی اسمبلی کے ہر سیشن کے دوران ہر ہفتے پیر کے دن ان کی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوتا جس میں پارلیمانی کارروائی کے لئے حکمت عملی طے کی جاتی۔ جونیجو حکومت کے دوران حکومت کا ہر فیصلہ کابینہ کے اجلاسوں میں طویل بحث مباحثے کے بعد لیا جاتا۔ عوامی نمائندوں کی اجتماعی بصیرت کو بہت فراست سے بروئے کار لاتے ہوئے جونیجو صاحب جیسے غیر معروف سیاست دان نے بالآخر جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءکو دیوار سے لگادیا تھا۔

یہ درست ہے کہ مئی 1988میں جنرل ضیاءنے جونیجو اور ان کی اسمبلی کو فارغ کردیا مگر انہیں فارغ کرنے کے بعد جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءکے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا تھا۔ نئے انتخابات ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ جبکہ جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءنے انہیں اور ان کی جماعت کو اقتدار سے ہر صورت دور رکھنے کا تہیہ کررکھا تھا۔

میں بہت خلوص سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ دھیمے مزاج کے پڑھے لکھے اور تجربہ کار شاہد خاقان عباسی میں ایک محمد خان جونیجو چھپا بیٹھا ہے۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد وہ قومی اسمبلی کی توقیر کو بحال کرسکتے ہیں۔ کابینہ کو اجتماعی بصیرت کے تحت فیصلے کرتا دکھاسکتے ہیں۔ ”موروثی سیاست“ ویسے بھی فی الوقت ایک گالی بن چکی ہے۔ شریف خاندان کا حقیقی تحفظ فی الوقت اپنے ساتھیوں کو مکمل اختیار دینے اور ان پر بھروسہ کرنے کی صورت ہی ممکن دکھائی دیتا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).