شہباز شریف کو کس نے دھکا دیا ہے؟


روایت ہے کہ ایک بچہ کنویں میں گر گیا اور ڈوبنے لگا۔ اس کی چیخ پکار سن کر منڈیر پر لوگ اکٹھے ہوئے مگر رسی نہیں تھی اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بچے کو کیسے بچایا جائے۔ سب ایک دوسرے کو ہلا شیری دے رہے تھے کہ تم ہی بلوان ہو، تم ہی کچھ کرو مگر کوئی بلوان بھی احمق نہیں تھا کہ گہرے کنویں میں چھلانگ لگا دیتا۔ ایسے میں دور سے سردار بہادر سنگھ دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھا کیا ہوا ہے؟ مجمعے نے جواب دیا بچہ اندر گر پڑا ہے۔ سردار بہادر سنگھ نے کنویں کی منڈیر پر آگے جھک کر نیچے جھانکا اور پھٹاک سے اندر چھلانگ لگا دی۔

بچے نے سردار جی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ سردار بہادر سنگھ کنویں میں تیرنے لگے۔ چند منٹ بعد کسی نے اوپر سے رسی پھینکی تو اسے پکڑ کر سردار بہادر سنگھ باہر نکلے۔ لوگ ان کی بہادری کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے کہ بچے کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکے اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر فٹ سے چھلانگ لگا کر موت کے منہ سے بچے کو کھینچ لائے ہیں۔ سردار بہادر سنگھ نے سانس بحال کیا اور پھر کہنے لگے ”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ بتاؤ کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا؟“

اب میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو عارضی وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے میاں شہباز شریف کو مستقل وزیراعظم بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سانس بحال ہونے پر شہباز شریف پوچھیں کہ ”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ بتاؤ کہ مجھے وزیراعظم کی کرسی پر دھکا کس نے دیا تھا؟“۔

یہ عوامی تاثر موجود ہے کہ میاں نواز شریف کی وہ سزا نہیں بنتی تھی جو دی گئی ہے۔ بہت بڑے اثاثے ظاہر کر کے اگر چھوٹی سی ایک کمی بیشی ہو جائے تو اسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اور یہ تو بالکل ہی نہیں ہوتا کہ آرٹیکل 62 کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا جائے، وہ بھی سپریم کورٹ سے جس کے فیصلے کے آگے کوئی اپیل نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شریف خاندان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ پریشانی کی بات ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف پر تو دو مہینے کی ہر طرح کی تحقیقات کے باوجود ان کے خلاف کرپشن کا کوئی پکا ثبوت نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر ان کو سپریم کورٹ سزا سنا دیتا۔ محض مشکوک معاملات ہی ملے ہیں جن کی مزید چھان بین کے لئے چھے مہینے اور دیے گئے ہیں کہ اس مدت میں پکا ثبوت تلاش کر لو۔ ثبوت مل بھی گیا تو کیا ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ دو چار برس کی جیل؟

لیکن میاں شہباز شریف کا نام تو ماڈل ٹاؤن کیس میں لیا جاتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے مارے جانے کی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی ہے۔ اس کے منظرعام پر نہ آنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اس میں شہباز شریف صاحب کو یا ان کے افسران کو کلین چٹ نہیں ملی ہے۔

اگر کسی طاقتور طبقے کی شریف خاندان سے ویسی ہی دشمنی ہے جیسی بیان کی جا رہی ہے تو پھر یہ پریشانی کی بات ہے۔ اگر میاں نواز شریف کو تنخواہ وصول نہ کرنے پر تاحیات نااہل کیا جا سکتا ہے تو بھٹو کیس پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے جس میں نہایت ہی ڈھیلے قسم کے شواہد پر ان کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ وہ ایسا کیس ہے جو عدلیہ کے لئے مستقل شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے اور اس کی نظیر بھی پیش نہیں کی جاتی ہے۔ اصل بات تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے پر معلوم ہو گی مگر ماڈل ٹاؤن کیس اتنا شفاف معاملہ نہیں لگتا ہے۔ خدا ہی خیر کرے۔ میاں شہباز شریف یہ نہ پوچھتے پھریں کہ ”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر یہ بتاؤ کہ مجھے وزیراعظم کی کرسی پر دھکا کس نے دیا تھا؟“۔

ہمیں نہیں لگتا کہ میاں شہباز شریف راضی خوشی وزیراعظم بننے پر تیار ہوئے ہوں گے۔ یا پھر معاملات طے کرنے کے بعد پکی گارنٹی ملنے پر ہی انہوں نے ایسا کیا ہو گا۔ اب معاملات طے کیسے کیے جاتے ہیں، اس کے لئے ایک مثال مشہور ہے۔

ایک پکوڑوں والے نے اپنی دکان پر بینر لگایا ہوا تھا کہ بینک سے میرا معاہدہ ہے کہ میں اس کا کام نہیں کروں گا اور وہ میرا نہیں کرے گا۔ یعنی بینک پکوڑے نہیں بیچے گا اور میں ادھار نہیں دوں گا۔ چھوٹے میاں صاحب جب تک قومی سلامتی کو چھیڑے بغیر پکوڑے بیچتے رہے، اس وقت تک محفوظ رہیں گے ورنہ ماڈل ٹاؤن ان کو خوش آمدید کہنے کو تیار کھڑا ہے۔  اس دھرتی کی یہی ریت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar