ہم منافقوں کو صادق اور امین کی تلاش ہے


آجکل قوم کا پسندیدہ موضوع ہے باسٹھ تریسٹھ۔ پتا کسی کو بھی کچھ نہیں بس دو الفاظ پہ زور دیتے ہیں صادق اور امین۔ ڈیمانڈ تو یہی ہے مگر حال یہ نہیں۔ بازار کا چکر لگائیں۔ قصائی پریشر والا گوشت بیچ رہا ہے اور مانگ رہا ہے حاکم صادق اور امین۔ راشن والا ملاوٹ سے پاک دال نہیں بیچ سکتا مگر حاکم اسے ڈبہ پیک چکا چک چاہیے۔ دودھ والا دودھ میں بعد از فجر پانی نہیں اراروٹ والا پانی ملاتا ہے مگر مطالبہ کرتا ہے کہ حاکم وقت مجھے باسٹھ تریسٹھ سے کم نہیں چاہیے۔ اسکول کا چکر لگا لیں۔ انگریزی میڈیم کے نام پر گلی گلی میں اسکول موجود ہے۔ فیس میں اضافہ اور آئے دن یہ ڈے وہ ڈے منانے کے بعد بھی بچوں کو ٹیوشن بھی بھیجنا ہے اور وہ بھی اسکول کی ٹیچر کے ہی گھر۔ اسپتال دیکھیں تو چاہے سرکاری ہو یا نجی؛ کھال دونوں ہی اپنے اپنے حساب سے کھینچتے ہیں۔ ڈاکٹر سے ایک سے دو سوال کرنے کی جسارت ہو جائے تو وہ ایسا چڑتے ہیں کہ کل علم انہی کی میراث ہے اور وہ اسے کسی میں بانٹ کر کم نہیں کریں گے۔ پیشنٹ کاونسلنگ اور گائیڈ کا تو تصور ہی خیر ناپید ہے مگر عطائیوں نے بھی ایک بیماری سے دوسری کر کے اپنا کاروبار جاری رکھنا ہے خیر ہر طرف سب کو چاہیے صادق اور امین۔

اگر کسی کو کہو کہ جناب صادق اور امین آسمان سے تو آئے گا نہیں۔ انتخابات میں ہم ہی میں سے نمائندگان کھڑے ہوں گے انہی شہر دیہاتوں میں سے تو صادق اور امین تو پہلے بننا پڑے گا پھر چننا پڑے گا۔ بس اسی سے آغاز ہوگا ایک بے سر پیر کی تقریر کا کہ حاکم صحیح ہوگا تو رعایا کو ٹھیک کرے گا۔ مطلب خود چاہ رہے ہیں سب کہ کوئی ڈنڈے والا آئے مگر کہنے میں سب کو عار ہے اس لئے یہ چور دل میں ہی صحیح۔

ایک اخبار نے جلی حروف میں لکھا کہ ممتاز قادری کی پھانسی لے ڈوبی اور اب فی الفور ایک اور ’ملعونہ‘ کی پھانسی ہونی چاہئیے تا کہ ملک پہ آئی آفت ٹلے۔ اس سے مجھے پرانے وقتوں کے توہم پرست بادشاہوں کی کہانیاں یاد آگئیں جو اپنے اقتدار کو سلامت رکھنے کے لئے مختلف جانور قربان کرتے تھے کہ دیوتا خوش رہے مگر یہاں تو انسانوں کا بلیدان مانگا جا رہا ہے اور چڑھاوے چڑھانے والے جس دن تک ہیں اس دن تک خون منہ کو لگا رہے گا اور ساتھ ساتھ کاروبار بھی چلتا رہے گا۔ عاشقوں کی ’کسٹمائزڈ‘ ٹی شرٹ، کیپ، مگ، ڈیکوریشن پیس، ان کے نام کے عطر، پاپڑ، چادر، تولیے سب بکے گا جیسے ایک دور میں ایک افواہ کی بنیاد پر بکی تھیں ایک خاص رنگ کی چوڑیاں کیونکہ فلاں فلاں کے خواب میں فلاں فلاں نے آکر کہا تھا کہ بھائی بہنوں کو فلاں رنگ کی چوڑیاں پہنائیں تو گھر خوشحال ہوں گے اور کسی اور کا تو سنا نہیں، چوڑی والوں کی چاندی ہو گئی تھی۔

خیر ابھی ابھی پتہ چلا کہ ہم غیرت مندوں کے دیس میں ایک 21 سالہ کائنات دم توڑ گئی۔ ایک جنسی بھیڑیا پہلے اسے ورغلا کر پھر بعد ازاں اغواء کر کے زیادتی کا نشانہ بناتا رہا پھر مانع حمل دوا بتا کر زبردستی تیزاب اس کے منہ میں ڈالا جس نے اس کے حلق کو ایسا جلایا کہ وہ قوت گویائی سے محروم ہو کر اپنے جلتے زخموں سے لڑتی رہی اور ایک سال بعد وہ چل بسی۔ شکر کہ اس کی وفات کی خبر اس 62، 63 والی بحث میں دب گئی ورنہ بندر کے ہاتھ میں ناریل کے مصداق سوشل میڈیائی مفتیان کرام اس ہی کو گالیاں دیتے اور وہ بھی ایسی فحش کہ اس کی روح کو تکلیف پہنچتی۔

ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ جہاں مدرسے کی چھت سے لٹکتی بچے کی برہنہ لاش کے بعد بھی سب اس خبر کو دباتے ہیں۔ ایک زانی مجرم بعد میں کہلایا اور مولوی پہلے۔ جرم چھوٹا ہوتا ہے اور فرقے کی شناخت بڑی۔ غریبوں کے اسپتالوں سے نومولود اغواء ہوتے ہیں اور امیروں کے بنگلوں سے تشدد زدہ ملازمائیں برآمد ہوتی ہیں۔ حیات آباد سے ایک پرنسپل جنسی عمل میں ملوث پائے گئے مگر بگڑے گا ان کا بھی کچھ نہیں۔ کیونکہ وہ اسلامیات میں ایم اے ہیں اور صرف ایک ہجوم کی مار ہے پولیس اسٹیشن۔ قومی حمایت حاصل ہو جائے گی اور دین خطرے میں کھڑا نظر آئے گا۔ جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں۔ یہ حقیقت ہے کہ قانون ایک زنجیر ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو اس زنجیر کے قفل لگاتے ہیں چابی بھی انہی کے پاس ہے۔ حقیقت تو یہ بھی بتا دی گئی ہے کہ نشانیاں اطراف میں چاروں جانب ہیں مگر سمجھ صرف انہی کو آئینگی جنہیں عقل ہو گی۔

ہمیں کبھی صادق اور امین نہیں ملے گا۔ کیونکہ ہم خود ایسے ہی رہیں گے کبھی نہیں بدلیں گے۔ بلکہ جو ہمیں بدلنے کی خواہش رکھے گا ہم اسے عبرت کا نشان بناتے جائیں گے۔ منافقت کے ساتھ ساتھ اپنی قوم نسیان کے مرض کا بھی شکار ہے۔ ہم بہت جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ جیسے کہ قصور کے 270 بچے، لاہور کی سنبل، سندھ میں جھلسائی گئی ماریہ، مدرسے کی چھت سے لٹکتی ایک بچے کی برہنہ لاش، لاہور کے جلسے میں خوف سے چیختی وہ لڑکیاں اور سیالکوٹ میں درندگی کے شکار دو بھائی۔ ہم بھلا دینگے مشال کو اور اس کے در در بھٹکتے بوڑھے باپ کو۔ ہم بہت جلد اس پر پاکستان کی بدنامی اور بیرون ملک سے آتی امداد جیسے الزامات لگائیں گے۔ قوم تبصرہ کر کے بھولتی جائے گی اور حکمران نوٹس لے کر۔ مشال کے نام پر کبھی یونیورسٹی کا ایک ہال تک نہیں بنے گا کیونکہ چاروں طرف ملک میں دندناتے بھیڑئیے ہیں جن کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔

جو کپڑا چرائے اسے سڑک پہ لتر مارے جائیں گے، جو موبائل چرائے اسے جلا دیا جائے گا مگر جو ہمارے مستقبل کو لیر و لیر کرے گا ان سب کو اپنے کندھے پہ بٹھایا جائے گا، ان کی خوشی پہ بھنگڑے ڈالے جائینگے، ان کے غم پہ سوگ منایا جائے گا، ان کی ذاتی دشمنیاں ہم نمٹائیں گے، ان کی دوستیوں کے حق ہم ادا کریں گے کیونکہ ہم ایک ہجوم ہیں جو ہمیشہ کرائے پہ دستیاب ہو جاتا ہے اور ہمیں خود اس بات کی خبر نہیں کہ کون ہمیں استعمال کر رہا ہے اور کون ہمارا کرایہ کھا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).