وزیر اعظم آزاد کشمیر کا بیان اور پاکستانی عوام و لیڈر


جمعہ کے روز نواز شریف کو ایک ”لنگڑی“ منطق پر نا اہل قرار دیا گیا (ہمیں کیا مطلب ہمارا تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے تھے اور پاکستانی ادارے نے انہیں نا اہل قرار دیا اور دلوایا ہے) لیکن اگلے ہی روز وزیراعظم آزاد کشمیر جناب راجہ فاروق حیدر خان کی ایک دھواں دار تقریر سے میڈیا، عدلیہ، ادارے اور پورا پاکستان لرزنے لگا۔ فاروق حیدر نے بے وقت اور بے محل تقریر کی۔ فاروق حیدر نے عمران خان کے لیے ”نازیبا“ الفاظ استعمال کیے اور نواز شریف کے حق میں دھواں دار پریس کانفرنس کی اسی دوران انہوں نے کہا ”اگر یہ علامہ اقبال کے خواب والا پاکستان نہیں ہے توہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہو گا“ اس بات کا کھلا مطلب یہی ہے کہ ہمیں پاکستان سے الحاق کے بارے میں سوچنا ہو گا میرے ذاتی خیال میں میڈیا ہائوسز نے اس بات کا غلط مفہوم اخذ نہیں کیا کیوں کہ اس کا مطلب یہی بن رہا تھا۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے اسے آپسی کاروباری مخاصمت کے طور پر استعمال کیا اور اب تک کیے جا رہا ہے۔

پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر وزیر اعظم آزاد جموں کشمیرکو آڑے ہاتھوں لیا، ان کے لیے ٹیوٹر پر استعمال ہونے والے الفاظ ناقابل بیان ہیں لیکن ان کے لیے مجموعی طور پر ”غدار“ کالفظ زیادہ استعمال کیا۔ لیکن اس میں قصور یقیناً پاکستانی عوام کانہیں ہے وہ آزادی کشمیر کی آئینی، سیاسی اور جٖغرافیائی حیثٰت سے قطعا ناواقف ہیں۔ ان کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت، اقوام متحدہ کی قراردادوں، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ریاست جموں کشمیر پر ہونے والے معاہدوں کا قطعاً علم نہیں ہے اور وہ اس بات کا ادراک بھی نہیں رکھتے کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کسی بھی معاملے میں پاکستان یا ہندوستان میں کسی نمائندے کو منتخب نہیں کرتے۔ ان کے نمائندے محدود اختیارات کے حامل ہوتے ہیں اور وہ محدود حد تک انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام کا مسئلہ ریاست جموں کشمیر کا علم مطالعہ پاکستان یا پاکستانی ابلاغ تک محدود ہے جو کہ ظاہر ہے کسی ایک مکتبہ فکر کا ترجمان ہے اور پوری ریاست جموں کشمیر کا نہیں۔

بات اگر سماجی ابلاغ تک رہتی تو درست تھی اور اس کے وہ نتائج ظاہر نہ ہوتے جو گزشتہ روز پہلے بول نیوز چینل کے اینکر پرسن عامر لیاقت اور پھر شیریں مزاری، شیخ رشید اور عمران خان بھی اس بحث میں شامل ہو گئے حتی کہ پاکستان کے معروف اور معتبر سمجھے جانے والے وکیل اعتزاز احسن کا بیان بھی ان کی کم علمی کا شاخسانہ ہی گردانا جا سکتا ہے۔ عامر لیاقت نے بول ٹی وی پر فاروق حیدر پر غدار ہونے کا الزام لگایا اور آئین پاکستان کی دفعہ چھ کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی تجویز دی جیسا کہ الطاف حسین پر چلایا گیا۔ شیریں مزاری نے فاروق حیدر سے استیعفی کا مطالبہ کر دیا۔ شیخ رشید اور عمران خان نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو گھٹیا اور غدار کہا۔ قومی سطح کے ان رہنمائوں کے الفاظ ایک دوسرے کے لیے انتہائی غیر سنجیدہ اور بازاری تھے اور حیرت ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اس کی آئینی حیثیت کا پتا بھی نہیں۔

ماضی قریب میں جب آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پاکستان میں نون لیگ کی حکومت آئی تو پاکستان کے وزیر امور کشمیر نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کو پہاڑی بکرے کا خطاب دیا تھا اس لیے یہ بات بالکل بھی نئی نہیں ہے کہ پاکستان کے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں اور حکمرانوں کو کیا حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے کیونکہ سیاست اور خاص کر پاکستان کی سیاست میں یہ ایک روایت ہے اور اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ لیکن جس چیز نے کشمیری عوام کے جذبات کو مجروح کیا وہ فاروق حیدر کے بیان کے بعد پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کا رد عمل تھا جو کہ خطرناک حد تک کشمیری شناخت اور تشخص کے خلاف سمجھا گیا اور سوشل میڈیا پر محاذ جنگ کی سی کیفیت شروع ہو گئی۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام پہلی دفعہ آمنے سامنے ہوئے جسے ہندوستانی میڈیا نے خوب اچھالا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر جملے کسے گئے اور تضحیک کا کوئی طریقہ طریقہ فروگزاشت نہیں رکھا گیا۔

ہندوستانی میڈیا نے اسے اپنے حق میں ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ پاکستانی میڈیا نے اسے خوب اچھالا۔ پی ٹی وی پر پاکستان کے معروف اور نہایت منجھے ہوئے وکیل اعتزاز احسن نے پاکستان کے آئین کی غلط تشریح کرتےہوئے کہا کہ فاروق حیدر پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ یہاں جو پہلا سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا فاروق حیدر پر اس ایک جملے کی وجہ سے غداری کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کے آئین کا اطلاق وزیر اعظم آزاد کشمیر پر بھی ہوتا ہے؟ اس ایک جملے کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وزیر اعظم آزاد کشمیر پاکستان کے قانونی شہری ہیں؟ اور کیا وزیر اعظم آزاد کشمیر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے بحیثیت وزیر اعظم آزاد کشمیر اور بحیثیت کشمیری مجاز بھی ہیں یا نہیں؟

1)۔ آئین پاکستان آرٹیکل چھ کے تحت جو شخص دستور پاکستان کو معطل یا تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ غداری کا مرتکب ہو گا اور اسے سزا دی جائے گی اس قانون کا اطلاق پاکستان کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے جو پاکستان کی جغرافیائی وحدت کے اندر رہتے ہین۔ اب پاکستان کی جغرافیائی وحدت چار صوبوں، وفاق اور فاٹا کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اور ان علاقوں میں رہنے والے تمام لوگ پاکستان کے شہری ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان متنازعہ علاقے ہیں اور ان میں رہنے والے لوگ ریاست جموں کشمیر کے شہری ہے جو ریاست پندرہ اگست 1947 کو قائم تھی نہ کہ پاکستان کے شہری۔ یوں فاروق حیدر پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

2) آزاد کشمیر کو اس وقت ایک 74 کے نام سے ایک ایکٹ کے تحت حکومتی امور سرانجام دیے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کا اپنا وزیر اعظم، اپنا صدر، اپنا الیکشن کمیشن اور اپنی سپریم کورٹ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سر دست آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی بھی فیصلے کا اطلاق آزاد کشمیر پر نہیں ہو سکتا ہے اور اسی طرح آزاد کشمیر پر پاکستان کے آئین کا اطلاق بھی نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے الگ سے جز وقتی آئین (ایکٹ 74) موجود ہے۔ اس طرح آزاد کشمیر کے کسی بھی شخص پر قانونی طور پر غداری کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

3) جہاں تک اس جملے کی حیثیت کا تعلق ہے تو وزیر اعظم آزاد کشمیر ایسے ہی بیان دے سکتا ہے جیسے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی بیان دے کہ اسے اب بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے الحاق کرنا ہے یا اب وہ بھارت سے الحاق کرنا چاہتی ہے یا پھر وہ بھارت سے الحاق کے بارے میں سوچے گی۔ ان کو اس بات کا اختیار اقوام متحدہ کی قراردادیں دیتی ہیں کہ وہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں گرچہ اقوم متحدہ کی قراردیں بھی اس حوالے سے متنازع ہیں کہ ان میں حق خود اختیاری کو محدود کیا گیا ہے تاہم دونوں میں ان قراردادوں کے signatory ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کو دونوں میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کی اجازت ہو گی اور اس کا فیصلہ حق رائے کے ذریعے اکثریتی رجحان یا فیصلے پر کیا جائے گا۔ یوں اس جملے کی حیثیت صرف رائے یا نقطہ نظر سے زیادہ کی نہیں ہے اس سے نہ ہی کشمیر ہندوستان بن جاتا ہے اور نہ پاکستان بلکہ وزیر اعظم آزاد کشمیر ک یہ حق حاصل ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک ملک کا انتخاب کر لیں۔

4) وزیر اعظم آزاد کشمیر پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ آئین پاکستان آرٹیکل 257 میں ریاست جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور اس آرٹیکل کی رو سے ان علاقوں کا کوئی بھی شخص باضابطہ شہری نہیں ہے دفاع، کرنسی اور امور خارجہ کی جز وقتی ذمہ داری پاکستان کے پاس ہے جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داری یہاں کے لوکل منتخب نمائندوں کو حاصل ہے ان علاقوں کا کوئی بھی شخص پاکستان میں اعلی سول یا ملٹری اداروں میں عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پاکستان کا کوئی شخص ان علاقوں میں بحیثیت حکمران جا سکتا ہے آزاد کشمیر کے موجودہ صدر سردار مسعود خان کا معاملہ حال ہی کا ہے جب ان کا آزاد کشمیر کی شہریت کا حامل شناختی کارڈ جلدی میں بنایا گیا تاکہ وہ صدارت کے عہدے پر فائز ہو سکیں جبکہ ان کے پاس پاکستان کی شہریت پہلے سے موجود تھی۔ یوں آزاد کشمیر کا کوئی بھی شخص پاکستان کا شہری نہیں ہے۔

5) اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر کوئی بھی ایسا بیان بفرض محل دے بھی دیتے ہیں تو اس کی حیثیت ایک سیاسی بیان سے زیادہ کی نہیں ہو سکتی ریاست جموں کشمیر کے الحاق یا آزادی کا فیصلہ پوری ریاست کے تمام شہریوں نے مل کرکرنا ہے اس لیے وزیر اعظم آزاد کشمیر مجاز ہی نہیں ہے کہ وہ اس لحاظ سے کوئی عملی اقدام کر سکے لیکن وہ بحیثیت کشمیری اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ ریاست کے مستقبل کا ذاتی کوئی بھی نقطہ نظر رکھے اس حوالے سے اس کی حیثیت فیصلے کے وقت ایک ووٹر سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔

گرچہ گزشتہ روز وزیر آزاد کشمیر نے اپنے بیان کی تردید کر دی تھی مگر اس کے باوجود آج انہیں پریس کانفرنس کرنا پڑی جس میں انہوں نے اپنی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ باور کروانے کی بھر پوری کوشش کی۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں وہ سیخ پا بھی ہوئے اور یہ بھی کہا کہ وہ عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتے خواہ انہیں پھانسی پر لٹکانا ہے تو لٹکا دیں۔ اس وقت تک کشمیر میں تمام مکاتب فکر کے لوگ ان کے ساتھ تھے اور یہ جواز اخلاقی ہی نہیں آئینی اور قانونی بھی تھا۔ لوگوں نے ذاتی طور پر فاروق حیدر کو نہیں بلکہ آزاد کشمیر میں وزارت عظمی کی حیثیت کا ساتھ دیا ہے اور آج کی ان کی پریس کانفرنس ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے نہیں بلکہ تقریبا ذاتی حیثیت سے کی ہے اور پاکستان اور مسلم لیگ ن سے اپنی وفاداریاں ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اس وقت مختلف مکاتب فکر کے لوگ کشمیری عوام کے منتخب وزیراعظم کو گالیاں دے رہے ہیں جو کہ مضحکہ خیز ہے اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام اور پاکستان کے درمیان مزید خلیج کا باعث بنے گا۔

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف ہمیشہ مثبت رہا ہے اس نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کے موقف کی حمایت کی ہے جبکہ بھارت نے اس سے انکار کیا ہے اب اگر پاکستان بھی ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے ایسا موقف اختیار کرے گا اور جانبدارانہ حمایت کرے گا تو کشمیری عوام جو اب تک کسی نہ کسی حد تک پاکستان پر اعتماد کر رہے تھے، بدظن ہوں گے اور دونوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گی جس کو پاٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).