موروثی سیاست کس صورت میں جائز ہو سکتی ہے؟


سیاسی موروثیت اکثر اوقات پاکستان میں زیر بحث رہتی ہے۔ ہم ایک طرف اس پر تنقید کرتے ہیں دوسری طرف اسے قبول بھی کرتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی بھٹوز کی ملکیت نظر آتی ہے تو ن لیگ شریفین کی۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور قابل لوگ جیسے رضا ربانی، اعتزاز احسن، قمر کائرہ، راجہ ظفر الحق، چوہدری نثار جیسے لوگ جن کی اک عمر سیاسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے بھٹووں اور شریفوں کے ساتھ پہلی صف کے قریب تو پہنچ جاتے ہیں لیکن امام نہیں بن سکتے کیونکہ امامت کے لئے بھٹو بننا ضروری ہے خواہ آپ زرداری ہی کیوں نہ ہوں۔

تازہ مثال یہ کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ن لیگ کو قومی اسمبلی میں اپنے اراکین میں سے ن لیگ کو اور کوئی بندہ اس قابل نظر نہیں آیا کہ( وزارت ) عظمی اس کے عقد میں آسکے۔ 45 دن کے عالم برزخ کے بعد بالآخراس منصب جلیلہ پر ’’اصل حقدار‘‘ متمکن ہوگا۔ دوسری طرف پنجاب میں میاں شہباز شریف کے فرزند ارجمند کا نام زور و شور سے وزارت عالیہ کے لئے پیش کیا یا کرایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑی گئی ہے کہ جب ایک فوجی کا بیٹا فوجی بن سکتا ہے، تاجروں کا بیٹا تاجر، بیوروکریٹس کے بچے بیوروکریٹس تو ایک سیاستدان کے بچے کا سیاستدان بننا موروثیت کیوں ہے؟

مان لیجیے کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک میمن بچہ ایک زمیندار کے بچے سے زیادہ اچھا تاجر، ایک جرنیل کا بچہ ایک استاد کے بچے سے زیادہ قابل فوجی، ایک مولوی کا بچہ ایک اکاونٹنٹ کے بچے سے اچھا مذہبی راہنما ثابت ہو۔ مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ماننا پڑے گا کہ آپ جس ماحول میں پلے بڑھے ہوں اس میں آگے بڑھنا آپ کے لئے آسان ہوتا ہے۔ فوجیوں کے بچے اردگرد فوجی افسران کو دیکھتے ہیں اس ماحول میں فوجی افسران سے ڈیل کرتے ہیں، ان کے گھر میں اسی انداز میں تربیت ہوتی ہے، وہی باتیں ہوتی ہیں تو ان کے لئے یہ ماحول زیادہ آشنا ہوتا ہے۔ شیخ کا بچہ، زمیندار کے بچے کی نسبت کاروباری رموز سے جلد واقف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سیاست جن گھروں کا اوڑھنا بچھونا ہو ان کے بچوں کی سیاسی رموز سے واقفیت نسبتاً آسان ہوتی ہے۔

مغربی جمہوری ممالک میں بھی آپ کو ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد سیاست میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ کی کینیڈی اور بش فیملی اس کی ایک مثال ہے۔ کینیڈا کے موجودہ مقبول ترین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پیدا بھی وزیراعظم ہاؤس میں ہوئے تھے کیونکہ اس وقت ان کے والد پیئر ٹروڈو کینیڈا کے وزیر اعظم تھے۔ انگلینڈ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک میں بھی بعض خاندان ایسے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے۔

ممکن ہے بلاول اپنی والدہ سے بڑا سیاستدان ثابت ہو یا حمزہ شہباز کی صلاحیتیں میاں نواز شریف سے زیادہ ہوں۔ اس لئے کسی پر قدغن لگانا کہ اس کا باپ، دادا یا بھائی سیاستدان تھا اس لئے وہ اب سیاست نہیں ہوسکتا کسی کی صلاحیتوں کے آگے بند باندھنے والی بات ہوتی ہے۔ جس کا اختیار کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہر انسان کو اپنی پسند کے مطابق اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور آگے بڑھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

مگر کیا کریں ہم جیسے نیم آمریت، نیم جمہوریت زدہ سیاسی سے زیادہ چاپلوسی کلچر میں سیاسی ترقی کا انحصار صلاحیتوں سے زیادہ ’’ہم حکمران خاندان ہیں‘‘ پر ہے۔ جہاں آپ صرف حکومت کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور باقی آپ کی خدمت کے لئے۔ جہاں سیاسی بلند و بالا عمارت میں ترقی کے زینے علیحدہ علیحدہ ہیں، آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے تیز رفتار برقی لفٹ منتخب کرتے ہیں۔ آپ کی مرضی آپ پارٹی میں سے جن مرضی افراد کو برقی زینے(Escelator)پر چڑھا دیں اور باقی کو کہیں کہ وہ سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی سراسر آپ پر ہے کہ آپ کس کو کس منزل تک پہنچنے کی اجازت دیں اور کسے کس منزل سے واپسی کا راستہ دکھا دیں۔

اس کے مقابل پر جی ایچ کیو کی بلند وبالا عمارت میں فوجی کے بیٹے کا جرنیل تک پہنچنے کا پراسیس بھی وہی ہوتا ہے جو صوبیدار کے بیٹے کا۔ دونوں تقریباً ایک ہی جیسی سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر پہنچیں گے۔ ان کے راستوں میں روشنی کم یا زیادہ ہونے کا فرق تو ہوتا ہے لیکن چڑھائی ایک جیسی ہی ہے۔ ہارون الرشید یا عطاء الحق قاسمی کے بیٹے کا صحافتی حلقوں میں تعارف اور اخبار میں جگہ حاصل کرنا تو ایک عام آدمی کی نسبت آسان ہے لیکن ان کے باپ اپنی وجہ سے ادبی حلقو ں میں سرخیل نہیں بن سکتے وہ سراسر ان کی اپنی صلاحیت پر موقوف ہے۔ اسی طرح سے دوسرے شعبہ جات کی مثالیں ہیں۔ اوپر دی گئی مغربی ممالک کی مثالیں بھی پدرم سلطان بود کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک باقاعدہ نظام سے گزر کر اور ذاتی صلاحیتوں کی وجہ سے ممکن ہو پاتا ہے۔ جسٹن ٹروڈو کے وزیراعظم بننے تک کے سفر کا یہ خاکسار چشم دید گواہ اور اس کی الیکشن مہم کا فعال حصہ رہا ہے۔

حاصل بحث یہ کہ ہاں بلاول بے نظیر کی سیٹ پر بیٹھ سکتا ہے، حمزہ مسلم لیگ کا سربراہ ہوسکتا ہے، اسفند یار، ولی خان کا جانشین ہو سکتا ہے۔ لیکن اختلاف صرف اتنا ہے کہ کوئی دوسرا کیوں نہیں؟ کوئی استثنی کیوں نہیں؟ پیدا ہوتے ہی ان کے سر پر تاج نہ سجا دیا کیجیے۔ وہ بے نظیر کا بیٹا ہے، وہ نواز شریف کا بھتیجا ہے وہ ولی خان کا فرزند ہے یہی کوالی فیکیشن کافی کیوں؟

ہاں اگر آپ اسی پہ مصر ہیں تو برائے کرم میرے جیسے لوگ کو اتنا کہنے کا حق تو دیں کہ یہ اجالا ابھی داغ داغ ہے، بھیڑ کے بھیس میں بھیڑیا ہے، جمہوریت آمریت زدہ ہے۔ پرویز مشرف ہو یا یوسف رضا گیلانی، ایوب خان ہو یا نواز شریف عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).