راجہ صاحب ظفر محمود کا گھر ڈھونڈتے ہیں


قبلہ گاہی ظفر محمود کی قدم بوسی ایک مدت سے واجب تھی۔ خیال تھا کہ آج شام پیر و مرشد کی زیارت کی جائے۔ بارش کے بعد زمیں ابھی کسی قدر گیلی تھی۔ لاہور میں بارش اور اس کے متعلقات ایک نعمت کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ چھینٹا پڑتا ہے تو باراں کی خوشی سے زیادہ یہ احساس دل کو آ لیتا ہے کہ بھٹکا ہوا بادل ادھر آ نکلا ہے، دو گھڑی برس کے غائب ہو جائے گا۔ پھر وہی گرمی اور حبس کا بوجھ دل پہ آن بیٹھے گا۔ اسٹیون اسپیل برگ کی فلم شنڈلرز لسٹ کا ایک دلدوز منظر ہے۔ عقوبت خانے کی طرف عازم یہودی قیدیوں سے کھچا کھچ بھری مال گاڑی اسٹیشن پر روک دی گئی ہے۔ پیاس، گرمی اور دم گھٹنے سے کلکتہ کے بلیک ہول جیسا منظر ہے۔ پلیٹ فارم پر آسکر شنڈلر نازی فوجیوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا ہے لیکن اس کا دل بے کسوں کے لیے تڑپ رہا ہے۔

بظاہر تماشے میں رنگ بھرنے کے لیے وہ اپنے ملازموں سے پانی کا پائپ لانے کے لیے کہتا ہے۔ خوش فعلیوں کا ناٹک کرتے ہوئے شینڈلر ٹھنڈے پانی کی میٹھی دھار گاڑی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ چند قطرے کھڑکی کے راستے قیدیوں تک پہنچتے ہیں۔ ایک نازی فوجی شنڈلر سے ہنستے ہوئے کہتا ہے۔ تم ان لوگوں پر ظلم کر رہے ہو، تم ان کے لیے امید پیدا کر رہے ہو۔ سیاست کی طرح صحافت بھی کٹھور دل روزگار ہے۔ بہت سے لکھنے والے حالیہ عرصے میں پڑھنے والوں کی ڈھارس بندھا رہے تھے۔ ایسا لکھنے والوں سے امید پیدا کرنے کا ظلم تو ہوا۔ ہو غم ہی جاں گداز، تو غم خوار کیا کریں۔ مشکل یہ ہے کہ صحافی کے اندر تھوڑا سا شینڈلر تو چھپا ہوتا ہے۔ اور وہ کبھی کبھار پڑھنے والوں تک پانی کا ایک قطرہ پہنچانے کا جتن بھی کرتا ہے۔

اچانک شیر خان صاحب کو یاد آیا کہ انہیں کسی سے پیسے واپس لینے بھاٹی دروازے جانا ہے۔ شیر خان بہتر جانتے ہیں کہ پیسوں کے لین دین کا یہ غیر دستاویزی کاروبار وہ اتوار کی شام ہی کیوں کرتے ہیں۔ میں نے ان سے منی ٹریل تو کبھی مانگی نہیں۔ خود پر قابو پا کر عرض کی کہ جائیے حضور، پیسے لے آئیے۔ اپنا سود و زیاں ہم خود دیکھ لیں گے۔ راجہ ارشد نے کمال شفقت سے کہا کہ وہ ظفر بھائی کے ہاں لے جائیں گے۔ اس وقت تو راجہ ارشد محمود نظامی لگے۔ اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ میں ہرگز ہرگز منٹو نہیں ہوں۔ راجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ مطلوبہ علاقے کا چپہ چپہ وہ عارض گل رخ کی طرح جانتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر واپڈا ٹاؤن آ پہنچے۔ صرف دس منٹ کی تاخیر ہوئی تھی۔ فون پر ظفر بھائی سے گھر کا پتہ پوچھا۔ فرمایا، آپ کہاں کھڑے ہیں۔ عرض کی کہ واپڈا ٹاؤن کے بڑے دروازے پر۔ ’’ارے، اس طرف کدھر نکل گئے۔ آپ کو تو بہت دیر لگے گی۔ ہمارا بسیرا تو مدت مدید سے ڈی ایچ اے میں منتقل ہو چکا ہے۔‘‘ دبے لہجے میں راجہ صاحب سے گزارش کی کہ ہمیں تو کہیں اور جانا ہے۔ راجہ صاحب نے کہا، یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ دس منٹ میں وہاں پہنچ جائیں گے۔ اسے برادر عزیز کی خوش بیانی سمجھ کر خاموش رہا۔ علم تھا کہ دس منٹ نہیں، کم از کم چالیس منٹ کی مسافت ہے۔

راجہ صاحب نے غازی روڈ کا انٹر چینج نظر انداز کر دیا۔ کیوں کیا؟ میں نے نہیں پوچھا۔ موٹر بائیک سواروں پر تنقید کرتے ڈی ایچ اے کے دروازے تک آ پہنچے۔ راجہ صاحب کو اس بستی کے گلی کوچوں سے شناسائی کا بھی دعوی ہے۔ ’’گلی نمبر بیس، مکان نمبر فلاں‘‘۔ میں نے عرض کی۔ راجہ صاحب نے آہستہ سے کہا ’’ہم غلطی سے مطلوبہ بلاک کا چوک پار کر آئے ہیں‘‘۔ کیسے؟ میرے منہ سے اچانک نکلا۔ راجہ صاحب نے فرمایا ’’غلطی سے‘‘۔ تجویز کیا کہ گاڑی موڑ لیجیے۔ فرمایا، مڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ دائیں ہاتھ کی سڑک پر چلتے ہیں، گھوم کر وہیں پہنچ جائیں گے۔

یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی کہ جو چوک پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اس کی طرف واپس جانے کی بجائے دائیں ہاتھ کی سڑک پر مہم جوئی کی کیا ضرورت ہے۔ مگر مجھے گاڑی چلانا نہیں آتی، راجہ صاحب ان معاملات کو بہتر جانتے ہیں، راجہ صاحب بہت دیر گاڑی چلاتے رہے۔ پوچھا کہ صاحب گلی نمبر بیس کتنی دور ہے۔ فرمایا دس منٹ۔ بیس منٹ تک گاڑی سڑک پر دوڑتی رہی۔ میری کوتاہی کہ دس منٹ کو معیاری وقت کے دس منٹ جانا اور راجہ صاحب کو وقت یاد دلایا ۔ فرمایا ڈھونڈ تو رہا ہوں، ابھی پہنچ جاتے ہیں۔ عرض کی کہ کسی سے پوچھ لیجیے۔ گردن گھما کہ ادھر ادھر دیکھا اور بولے ’’ان لوگوں کو کیا معلوم‘‘۔ عرض کی کہ صاحب کسی چوکیدار سے پوچھ لیجئے۔ کہا، پوچھ لیتے ہیں۔

گاڑی ایک چوکیدار کے قریب پہنچتی ہے۔ میں شیشہ نیچے کر کے راستہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن راجہ صاحب کا اشہب سبک خرام بیس گز آگے نکل چکا ہے۔ چلتی گاڑی میں اپنا سوال میں خود نہیں سن سکا تو مسئول کیا جواب دیتا۔ راجہ نے بات پا جانے کے انداز میں فرمایا، میں کہہ رہا تھا نا کہ یہاں کسی کو راستہ معلوم نہیں۔ جھنجلا کر عرض کی کہ حضور آپ نے راستہ پوچھنے نہیں دیا۔ گاڑی روکنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ محض رفتار آہستہ کی۔ اس دوران میں ہم اچانک ایک گلی میں داخل ہو گئے۔ دریافت کیا کہ ہم اس طرف کیوں مڑے ہیں؟ راجہ صاحب نے بے اعتنائی سے کہا کہ یہ تو آگے جا کے معلوم ہو گا۔ یہاں ایک نوجوان جوڑا سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ راجہ صاحب نے گاڑی روک کر خاتون سے راستہ پوچھا۔اس کے ساتھی نے مبہم سا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ گلی نمبر اکیس ہے، ساتھ والی گلی بیس نمبر ہے‘‘۔

گاڑی کے پہیے چرچرائے اور ہم ساتھ والی گلی میں مڑ گئے۔ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہاں دائیں اور بائیں دو گلیاں نکل رہی تھیں، ہم نے سمت کا انتخاب کیسے کیا؟ خاموش رہا۔ ایک گھر کے باہر دو چوکیدار کھڑے تھے۔ ان سے راستہ دریافت کرنے کی اجازت چاہی۔ ’’اگر گھر نہ ملا تو واپس آ کر ان لوگوں سے پوچھ لیں گے‘‘۔ واپسی پر کسی وجہ سے راجہ صاحب نے ان دونوں افراد سے راستہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس وقت تک مطلوبہ گلی کا نمبر اور دس منٹ کی تکرار میرے بھیجے میں اندرسبھا کا رقص پیش کر رہے تھے۔ راجہ صاحب نے ناکامی کے اسباب گنوانے کی کوشش کی تو عرض کی کہ میں کچھ نتیجے نکال رہا ہوں۔ راجہ صاحب نے گاڑی روک دی اور کسی قدر بھنا کر کہا ’’گلیوں کے نمبر غلط لکھے ہوئے ہیں اور آپ کہتے ہیں، میں نتیجہ نکال رہا ہوں۔ ایسے نتیجہ تھوڑی نکلتا ہے‘‘۔ اس دوران میں ایک صاحب نے انگلی سے کھڑکی کا شیشہ بجایا اور بڑے رسان سے کہا۔ آپ کو ظفر صاحب کے یہاں جانا ہے۔ یہ انہی کا گھر ہے۔ ہم نے اتفاق سے گاڑی ظفر صاحب کے گھر کے عین سامنے روکی تھی۔ رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ مسلسل غصہ دبانے سے راجہ صاحب کی آواز رندھ چکی تھی۔ میں بھی چپکا ہو رہا۔ جو نتیجے نکالے تھے، آپ سے عرض کیے دیتا ہوں۔

گھر سے نکلتے وقت طے نہیں کیا کہ جانا کہاں ہے۔ راجہ صاحب کے بیان پر بغیر تحقیق کے بھروسہ کیا کہ وہ مطلوبہ مقام کا اتہ پتہ جانتے ہیں۔ کسی سے مشاورت کو ہتک جانا۔ کوئی بھی موڑ کاٹنے سے پہلے رک کر یہ نہیں سوچا کہ اگر یہاں پر ایک سے زیادہ راستے نکلتے ہیں تو ہم نے اس خاص راستے کا انتخاب کیوں کیا۔ تشویش یہ ہے کہ زندگی میں دوبارہ ایسا ہونے کا امکان صفر کے برابر ہے کہ آپ اتفاقا کہیں گاڑی روکیں اور ظفر صاحب کا راحت کدہ سامنے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).