پاناما کو کشمیر اور گلگت بلتستان سے دور رکھا جائے


پاکستان کی تاریخ میں تین بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بحیثیت اپوزیشن لیڈر اپنی لانگ مارچ کے زور پر پاکستانی سیاست کے فیثا غورث جناب زرداری کے قلم سے بحال کرائی آزاد عدلیہ کے ہاتھوں کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلنے والے نواز شریف سے یک جہتی میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلی ٰکی دھواں دار پریس کانفرنس پر سب سے اچھوتا تبصرہ تو شیخ رشید نے کیا جب ان کو جسامت کے حساب سے سب سے چھوٹے پرندے اور اس کے شوربے سے تشبیہ دے کر اپنی روایتی بذلہ سنجی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ مگر کپتان کا تبصرہ بھی ان کی اپنی روایت کا آئینہ دار تھا جب انھوں نے فاروق حیدر کی شان میں پھلجڑھیاں چھوڑ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی۔

فاروق حیدر نے جواب الجواب میں پاکستانی سیاست کے اس انوکھے اور منفرد موڑ کو کشمیری رنگ دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے پاکستانی عدلیہ کے اس فیصلے کو ایک کشمیری النسل وزیر اعظم کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے کپتان کے رد عمل کو دوسرے کشمیری النسل وزیر اعظم کے خلاف ہتک آمیز سلوک قرار دیا۔ اتفاق سے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ بھی کشمیری النسل ہے اور ساتھ ہی اس واقعے کے چوتھے فریق ملک کے ایک بڑے اشاعتی اور نشریاتی ادارے کے مالکان بھی کم از کم اپنے نام کے ساتھ کشمیری لاحقہ لگاتے ہیں۔ یوں یہ مسئلہ پاناما سے کشمیر کا مسئلہ بن گیا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ اسلام آباد کی بدلتی ہوائیں مظفر آباد میں مون سون کے حبس میں ٹھنڈی ہوائیں لاتی ہیں یا پھر طوفانی بارشیں۔ گلگت بلتستان میں تا حال ایک سکوت چھایا ہوا ہے کیونکہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے ارکان قانون ساز اسمبلی آشورہ اسد ( واقعہ کربلا کی شمسی کیلنڈر کی تاریخ) کے سلسلے میں سکردو میں ہیں جو پورے ملک میں صرف یہی پر باقاعدہ ماتمی جلوس کے اہتمام کےساتھ منایا جاتا ہے۔

مسلم لیگ کی حکومت بلو چستان میں بھی ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے فاروق حیدر اور حفیظ الرحمٰن سے زیادہ تقریر کے شوقین اور میڈیا کے دلدادہ ہونے کے باوجود خاموش رہنے پر ترجیح دی یا ان کو خاموش رہنے کا حکم تھا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا پاکستانی سیاست میں استعمال بھی جناب زرداری کی سیاسی ایجادات میں سے ایک ہے جب انھوں نے اپنے جیالے وزیر اعلیٰ مہدی شاہ سے پاکستانی سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرواتے ہوئے ایک آفیسر کے تبادلے سے انکار کروا دیا تھا جس کا حکم عدلیہ نے دیا تھا۔ یہ بات زرداری سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کی عدلیہ کے کتنے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یہ تو زرداری صاحب ہی جانتے تھے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو اپنی مرضی سےتبدیل کر نےاور منتخب وزیر اعظم کو کمرہ عدالت سے بے وقعت کرکے گھر بھیجنے والا جج سکردو کے کشمیری محلے کے مہدی شاہ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔

لیکن مجال ہے سب جانتے ہوئے نہ مہدی شاہ نے اور نہ ہی کسی اور نے منہ کا ذائقہ ایک منٹ کے لئے بھی خراب کیا ہو جو حفیظ اور فاروق نے کیا۔ جب پوچھا جاتا تھا کہ مطلوبہ افیسر کو گلگت سے اسلام آباد ٹرانسفر کیوں نہیں کیا جاتا ہے تو بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا تھا کہ گلگت بلتستان جیسے کم ترقی یافتہ علاقے میں ایسے قابل اور لائق آفیسروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ سب سن کر حکم دینے والے جج کتنا تلملاتے رہے ہوں گے اور صدر کہلوانے والا پاکستانی سیاست کا ٖفیثا غورث کیسے ہنستا ہوگا اس کا تو جب کبھی اس کھیل کا کوئی کردار اپنی یا کسی کی آپ بیتی لکھے گا تو پتہ چل جائے گا فی الحال تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور عدلیہ کے ساتھ راہ رسم میں زرداری کا ثانی نہیں۔ نواز شریف اگر ان کے صرف افتخار چوہدری کی بطور جج بحالی کے لئے دباؤ نہ ڈالنے اور اپنے معاملات کو عدالت کے بجائے پارلیمان میں حل کرنے کے مشورے پر ہی عمل کرتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

ہندوستان کے ایک اہم سیاسی خاندان کا تعلق بھی کشمیر سے ہے جہاں دو وزرائے اعظم کے غیر فطری اموات کا شکار ہونے کے باوجود کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کی خونی سیاست کو دخل انداز نہیں ہونے دیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں اس طرح کی بیان بازی سے کسی قسم کے فائدے سے زیادہ نقصان کا احتمال ہے جس کا ازالہ بھی شاید نہ ہوسکے۔

گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے بارے میں پنڈی کے شیخ رشید صاحب کے بیان پر ہوسکتا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کی ریٹنگ بڑھ گئی ہو لیکن گلگت بلتستان میں کم از کم سنجیدہ حلقوں نے اس بھونڈے مذاق کو پسند نہیں کیا ہے۔ اس پورے خطے کو پاکستان کے کشمیر افیئرز کے ایک کلرک کے ذریعے چلانے کو یہاں کے لوگ انتہائی مایوسی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کے نوجوان، وکلاء، سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے علمبردار اس خطے کو حکومت پاکستان کی جانب سے اپنے ایک ضلع سے بھی کم حیثیت میں چلانے کے خلاف ہر وقت سراپا احتجاج ہیں اور ان کو اس پر آواز اٹھانے کی پاداش میں غداری اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ باتیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سمیت دیگر انسانی حقوق پر کام کرنے والے اداروں کی رپورٹوں میں انتہائی تاسف کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ شیخ رشید کا پاکستان کی طرف سے ایک کلرک کے ذریعے اس خطے کو چلانے کا طعنہ دینا اس خطے کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

حافظ حفیظ الرحمٰن گلگت بلتستان کے عوام کا منتخب وزیر اعلیٰ ہے اور اسلام آباد میں دو چار کنال پر واقع گلگت بلتستان ہاؤس ایک مکان ہی نہیں یہاں کے لوگوں کے مشترکہ گھر کی حیثیت رکھتا ہے اور اتحاد کی علامت ہے جس میں گھس کرعوام کے منتخب وزیر اعلیٰ کو جوتیاں مارنے کی دھمکیاں دینا پورے خطے کے عوام کی کی توہین ہے جس پر لوگوں کو انتہائی مایوسی ہوئی ہے۔ آج حفیظ الرحمٰن وزیر اعلیٰ ہے کل مہدی شاہ تھا اور آنے والے کل میں کوئی بھی ہو سکتا ہے مگر وہ ایک شخص نہیں بلکہ پورے خطے کے عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے جس کی توہین پورے علاقے کی توہین ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے معالات پر بیان بازی سے پہلے پاکستان کے سیاستدانوں کو اس خطے کی حیثیت کو مد نظر رکھنا ہوگا اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور مایوسی کا خیال رکھنا ہوگا اور اپنے سیاسی معاملات کو خود تک محدود رکھنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پنڈی اور اسلام آباد سے اٹھنے والی پھلجھڑیوں کی چنگاریاں مظفر آباد اور گلگت میں شعلہ بن کر بھڑک اٹھیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan