شیخ رشید کی شکل میں بھیانک تبدیلی


بالآخر پانامہ کیس کا فیصلہ آہی گیا اور جس کی توقع کی جارہی تھی وہی فیصلہ ہوا۔ نوازشریف کی نا اہلی کے بعد اب عمران خان کے سر پر بھی نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ عمران خان پر بھی وہی الزامات ہیں جو نوازشریف پر تھے۔ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ عمران خان نے بھی اثاثے چھپائے ہیں تو وہ بھی صادق اور امین نہیں رہیں گے۔

عمران خان نا اہل ہوں گے یا نہیں یہ تو الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے طے کرنا ہے مگر عوام کی نظر میں تو عمران خان پہلے ہی نا اہل ہو چکے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان جنہوں نے 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کرنے اور پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی عمران خان نے ان ظالموں کو خیبر پختونخواہ میں دفاتر کھولنے کی پیشکش کی۔ کیا ان 80 ہزار شہداء کے لواحقین کبھی خان صاحب کو معاف کریں گے؟

عمران خان دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ عمران خان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو کرپٹ کہتے رہے اور اب نظر محمد گوندل، فردوس عاشق اعوان، نور عالم خان، صمصام بخاری، اشرف سوہنا سمیت پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد ان کے دائیں بائیں کھڑے نظر آتے ہیں جو شاید خان صاحب کی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خان صاحب کو یا تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو کرپٹ کہہ کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہے یا پھر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اب وہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں، خیر جو بھی ہو خان صاحب دونوں ہی صورتوں میں غلط ثابت ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پی ایس 114 میں ضمنی انتخابات ہوئے جہاں تحریک انصاف کے نئے پاکستان کی جھلک پوری قوم نے دیکھی جب تبدیلی کے دعوےدار عمران خان بدنام زمانہ عرفان اللہ مروت کی مدد لینے پہنچے تو دوسری طرف کالعدم اہل سنت والجماعت نے بھی تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کیا مگر پھر بھی تحریک انصاف بری طرح ضمنی الیکشن میں ہار گئی اور بمشکل چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ عوام اب باشعور ہوچکے ہیں اور صحیح اور غلط میں فرق سمجھتے ہیں اس لئے اب عمران خان نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر عوام کو بےوقوف بنانے کے بجائے سیاست چمکانے کا کوئی اور راستہ تلاش کریں۔

پی ٹی آئی میں ایک عام کارکن کی کتنی عزت ہے اس بات کا اندازہ نعیم الحق کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جب ناز بلوچ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد انہوں نے کہا کہ ہمیں ناز بلوچ کے جانے سے فرق نہیں پڑتا وہ ایک عام کارکن تھیں۔ عمران خان خواتین کا کتنا احترام کرتے ہیں یہ بھی قوم جانتی ہے۔ خان صاحب کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ابرار الحق کے سوال کے جواب میں خان نے کہا کہ ناز بلوچ اچھا ہوا پارٹی چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ وہ کسی کام کی نہیں، یہ ہے عمران خان کی نظر میں ان خواتین رہنماؤں کی عزت جو اس امید پر خان کے ساتھ ہیں کہ نیا پاکستان بنے گا، ملک میں تبدیلی آئے گی، خواتین کو حقوق ملیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ناز بلوچ تو پی ٹی آئی کی مرکزی نائب صدر تھیں جب ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تو کسی یونین کونسل یا وارڈ کی سطح کی کسی خاتون کی خان کے نزدیک کیا عزت ہوگی؟

رہی بات اقلیتوں کے حقوق کی تو دو روز قبل ہی میاں مٹھو جن پر جبری طور پر ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کروانے کا الزام ہے انہیں عمران خان نے اپنے قافلے میں شامل کیا ہے۔ یہ وہی میاں مٹھوں ہیں جنہیں پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس الزام پر پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کیا تھا اور انہیں پارٹی سے نکال باہر پھینکا تھا۔ عمران خان کو گھسی پٹی تبدیلی کے لئے گھسے پٹے لوگوں کی ضرورت ہے۔ خان صاحب کو یہ تبدیلی مبارک ہو۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والے عمران خان بتائیں کے خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت نے کونسا کارنامی سرانجام دیا ہے؟ وہاں کے اسکولوں، اسپتالوں کا حال تو سب ہی جانتے ہیں۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کے پی کے میں کوئی ایک بھی برن سینٹر نہیں۔

ویسے اگر تبدیلی آئی ہے تو سندھ میں جہاں سندھ حکومت نے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں اور اب سندھ کے عوام بالخصوص کراچی کے عوام ترقیاتی کاموں سے بےحد خوش ہیں۔ خواتین کے حقوق ہوں یا مزدوروں کے حقوق، کسانوں کے حقوق ہوں یا اقلیتوں کے حقوق پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کے غیور عوام کے حقوق کی ضمانت ہے۔

کل تک یوٹرن کے بادشاہ عمران خان کہتے تھے کہ میں شیخ رشید کو اپنا چپراسی بھی نا رکھوں اور آج شیخ رشید کو عمران خان نے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ خان صاحب یوٹرن لینے کے ماہر ہیں مگر اب ان کی گاڑی ایسے ٹریک پر ہے کہ یوٹرن کی کوئی گنجائش نہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان کو شیخ رشید کی شکل میں بھیانک تبدیلی مبارک ہو۔

عمیر سولنگی کا تعلق کراچی سے ہے۔ سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ ان کی تحریریں ملکی اخبارات و جرائد سمیت آن لائن ویب سائٹس پہ شائع ہوتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).