گولن تحریک اور قادری تحریک


پاکستان اور ترکی میں کئی ایک چیزیں مشترک ہیں۔ ان دوممالک کے جھنڈوں میں مماثلت تو ہر ایک کو نظر آتی ہے، پاکستان اور ترکی میں اسلامی اور سیکولر نقطہ ہائے نظر اور قوتوں کی بحث اور تنازعات ہمیشہ سے چلتے رہے ہیں۔ پھر مسئلہ جزیرہ قبرص کی مماثلت مسئلہ کشمیر سے بہت زیادہ ہے اور سب سے اہم یہ کہ ان دو ممالک میں فوجی اور سیاسی قوتوں کی آنکھ مچولی ہمیشہ رہی ہے۔

مگر ایک نئی مما ثلت گزشتہ چند روز سے زیر بحث ہے۔ سابق داماد اول کپٹن صفدر نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ طاہر القادری نے لکھی ہے، پھر ایک ترک اخبار نے لکھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے میں طاہر القادری کا اہم کردار ہے (یہ بات اگرعوامی تحریک کے لوگ جانیں تو وہ تو اس کو بہت بڑا کریڈٹ تصور کریں جبکہ اس کا سارا کریڈٹ تو پی ٹی آئی لے رہی ہے) اور طاہرالقادری اور ان کی تحریک کو فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک سے مماثلت دی۔

ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی تحریک سے تو پاکستانی وقف ہیں۔ منہاج القرآن کے وہ بانی ہیں، دنیا کے قریب قریب تمام ممالک میں ان کے سنٹرز اور نیٹ ورک ہیں، پاکستان میں فلاحی اور تعلیمی کام بھی ان کی تحریک کرتی ہے، ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے، وہ ملک میں نظام انتخاب میں تبدیلی کے لیے دھرنے بھی دیتے رہے مگر الیکشن میں ان کی جماعت کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

جبکہ فتح اللہ گولن کے بارے میں پاکستان میں زیادہ نہ تو لکھا گیا ہے نہ کوئی رائے ہے۔ طیب اردوان کی حکومت نے ترکی میں گزشتہ سال کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار فتح اللہ گولن کو قرار دیا، اس پر زیادہ تحقیق اور تجزیہ سامنے نہیں آیا۔ میں نے چند سال قبل ایک کتاب لکھی جس کی ضرورت تھی کہ ترکی کے تاریخی، سیاسی، مذہبی، سماجی اور سیکولر کرداروں کو جانا جائے اور ان کا موجودہ حالات میں اثر واضح کیا جائے، بے محل نہ ہو گا کہ اس کا کچھ ذکر کیا جائے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد مصطفیٰ کمال نے نئے ترکی کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی اور اپنے دور اختیار میں ترکی سے اسلامی تشخص کا خاتمہ کیا۔ عربی رسم الخط کا خاتمہ، حجاب اور پگڑی پر پابندی، دیگر اسلامی روایات اور شعائر کا خاتمہ کیا جبکہ سیکولر ازم کو مضبوط کیا۔ فوج کو سیاست میں آئینی کردار دیا اور اس کو سیکولر ازم کو نافذ اور مضبوط رکھنے کا کردار سونپا۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ کمال کے اس عمل کے پیچھے شاید یہ وجہ بھی تھی کہ یورپ کو یہ تاثر دیا جائے کہ ترکی کوئی اسلامی ملک نہیں بلکہ اس میں تو اسلام پر پابندی ہے لہٰذا اس سے کسی خطرے کی ضرورت نہیں۔ ترکی میں جو مسلم آبادی ہے وہ تقریباً سب کی سب ایک ہی مسلک سے وابستہ ہے، یعنی وہاں شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی وغیرہ کے جگھڑے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

وہاں اسلام پسندوں کے پیچھے کئی روحانی شخصیات کا اہم کردار ہے جن میں ایک اہم نام ’سعید نورسی‘ ہے۔ سعید نورسی کو کمال اتا ترک نے حکومتی عہدے کا لالچ دے کر اپنے نظریے کی حمایت چاہی جس پر انہوں نے انکار کیا، جس پر انہیں پابند سلاسل کیا گیا بعد ازاں ایک قصبے میں نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران انہوں نے اپنے افکار کو مخطوط رسالوں کے ذریعے پھیلایا جو ان کے پیروکاروں نے کاپیاں کر کر کے ایک تحریک کی شکل میں عوام تک پہنچایا اس کو ’تحریک رسالہ نور‘ کہا جاتا ہے۔ سعید نورسی تو اسی قصبے میں اپنی زندگی گزار گئے مگر ان کی تحریک بڑھتی گئی۔ ترکی میں اسلام پسندوں نے مختلف مواقع پر سیاسی تبدیلی کی کوشش کی مگر ہزاروں لوگوں کو قتل کیا جاتا رہا اور اسلام کا نام لینے والے کچلے جاتے رہے۔

رسالہ نور کی تحریک کے کارکنان میں سے ایک فرد فتح اللہ گولن تھے۔ فتح اللہ گولن نےغیر سیاسی رہتے ہوئے تعلیمی ادارے بنانے کا آغاز کیا اور ان اداروں میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی فکری اور نظریاتی تعلیم بھی دی۔ وقت کے ساتھ یہ اسکول اور کالجز مقبول ہوکر بڑھتے اور پھلتے پھولتے گئے۔ ترکی کے علاوہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی ان کے اسکول اور کالجز ہیں۔ پاکستان میں پاک ترک اسکولز اور کالجز اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے افراد ترکی کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی اہلیت پر پہنچتے رہے اور اپنے ساتھ اسلام پسندی لے کر پھیلتے گئے۔

میں جب اس تحریک پر تحقیق کر رہا تھا تو مجھ پرایک راز کھلا کہ اس تحریک کے سب بڑھ کر مخالفت کرنے والے یہودی ہیں۔ وہ پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ اس تحریک کو کیسے روکا جائے؟ نہ تو یہ دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں، نہ عسکری تربیت دیتے ہیں، نہ ان کی لمبی لمبی داڑھیاں ہیں، نہ بڑی بڑی پگڑیاں باندھتے ہیں، نہ یہ مغرب کے خلاف جہاد کا درس دیتے ہیں۔ کچھ تو اپنے جذبات کوقابو میں نہ رکھ سکے اور یہا ں تک کہہ دیا کہ یہ تو اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک ہے۔ سال گزشتہ جب ناکام بغاوت کے بعد ترک فوج اور گولن تحریک کو عملاً کچلا جانےلگا تو سمجھ آیا کی کیسے ایک تیر سے دو شکار کیے جاتے ہیں۔ ( یاد رہے ترکی کی فوج اسلامی ممالک کی مضبوط ترین فوج خیال کی جاتی تھی)

2002 کے الیکشن میں گولن تحریک نے طیب اردوان کا ساتھ دیا اور یوں وہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اردوان ایک اچھے منتظم ثابت ہوئے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا اور مقبول ہوتے گئے۔ پھر وہ دوبارہ منتخب ہوئے اور پھر تیسری دفعہ۔

فتح اللہ گولن کے ساتھ طیب اردوان کے تعلقات تب خراب ہوئے جب اردوان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات لگے اور ان الزامات کو سننے والے ججز کو معزول کر دیا گیا۔ اور ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ گولن کے پیروکار ہیں۔ گولن نے اسے کرپشن کو بچانے کا بہانہ قرار دیا۔ وقت کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہی ہوتے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گولن تحریک کے قریب قریب پچاس ہزار لوگ جیلوں میں ہیں جن میں ڈاکٹر، پروفیسر، ٹیچر، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں۔

ایک بات جو فتح اللہ گولن اور طاہر القادری میں مشترک نہں وہ یہ کہ گولن اپنی سیاسی جماعت نہ بنا سکے اور شاید یہی سب سےبڑی وجہ ان کی تحریک کے کچلے جانے کا سبب ہے۔

پاکستان کے سابق حکمران خاندان کے ترکی کے موجودہ حکمران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ پھر ترکی والوں نے ہمارے حکمرانوں سے کاروبار کرنے اور مال بنانے کے گر سیکھے، اور ہمارے حکمرانوں نے اپنے مخالفین کو کچلنے اور ان کے خلاف بھر پور میڈیا وار لڑنے کے طریقے سیکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).